مباحث مارچ ۲۰۱۰ ء

مباحث مارچ ۲۰۱۰ ء


تشدد اور دہشت گردی  کے واقعات

ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی واردتیں خود کش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی  صورت میں جاری ہیں جن میں خاصا جانی  نقصان ہو رہا ہے ۔دینی جرائد میں دہشت گردی کے محرکات،  اسباب اور اس  کے  حل کے حوالے سے ایک سے زیادہ  آراء پائی جاتی ہیں ۔ بریلوی جرائد کے خیا ل میں دہشت گردی  میں طالبا ن  ملوث ہیں جبکہ دیوبندی جرائد بیرونی قوتوں کو اسکا ذمہ دار سمجھتے ہیں اسی  سے ملتی جلتی رائے کا اظہار ایک اہلحدیث اور غیر مسلکی جریدے نے بھی کیا ہے ۔  جرائد کی آرا ءکا خلاصہ حسب ذیل ہے۔

"منہاج القرآن ”نے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا دہشت گردی کے حوالے سے فتویٰ شائع کیا  ہےجس کا خلاصہ یہ ہے ۔

” ایک طرف پوری دنیا میں بالادست طاقتوں کی مسلمانوں کے ساتھ نا انصافیاں، دھرے معیارات اور طویل المعیاد جارحیت دہشت گردی کے بنیادی اسباب ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کے روپ میں  دہشت گردوں کی  مذموم کاروئیاں نہ صرف اسلام کو عالمی سطح پر بدنام کر رہی ہیں بلکہ بہت سارے لوگوں کو دین سے بیزار کرنے کے ساتھ ساتھ  مسلمان ممالک میں غیر ملکی طاقتوں کی دخل اندازی کا سبب  بن رہی ہیں ۔ اس صورت حال میں جملہ اسلامی وغیر اسلامی حلقوں کے لیے صحیح اسلامی مو قف سے آگاہی انتہائی ضروری ہے”۔اس فتوے کے اہم اقتباسات حسب ذیل ہیں۔

  • خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے بے گنا ہ مسلمانوں کی جانیں لینے والے  صریحاً کفر کے مرتکب ہو رہےہیں ۔
  • غیر مسلم پرامن شہریوں پر حملے اور انہیں اغواء کرنے والے اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ۔
  • اس طرح کی مذموم کارروائیاں کرنے والے خوارج[16] کے گروہ سے ہیں اور دہشت گرد ی کی مسلح کارروائیاں جہاد کے نام پر کر رہے ہیں جو  کہ خلاف اسلام ہیں ۔[17]

”ضیائے حرم ” کے خیا ل میں دہشت گردی کی حالیہ کارروائیاں بیرونی ایجنسیاں ہمارے اپنے لوگوں کو استعمال کرتے ہو ئے کر وا رہی ہیں ۔جریدہ لکھتا ہے ”غیر مسلم قوتوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایسے افراد کا انتخاب کیا ہے جن کے سروں پر پگڑیاں اور چہروں پر داڑھیاں ہیں تاکہ دنیا دیکھے کہ اسلام کے پیروکا رخود ہی مساجد پر حملے کے  ذریعےعباد ت میں مشغول افراد کو نشانہ بناتے ہیں ۔[18]

”ضرب مومن ” بیرونی مداخلت کو اس صورتحال کی وجہ قرار دیتے ہو ئے حکومتی پالیسی پر افسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے ”تمام تر دعووں کے با وجود حکومتی پالیسیاں وہ نہیں ہیں جو دہشت گردی کی آگ کو بجھا سکیں ”۔ماہنامہ ”الخیر ” قبائلی علاقوں میں جاری فوجی  آ پریشن کو اس صورت حال کی وجہ خیال کرتا ہے۔  اس ضمن میں معروف کالم نگار حامد میر کے کالم کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں انہوں  نے کہا ”ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ قبائلی علاقوں میں بھا ری توپخانے اور فضائی طاقت کے استعمال   سے جس نفرت اور انتقام نے جنم لیا ہے وہ لاہو ر اور ملتان تک پہنچ چکی ہے اور مزید آگے بڑھےگی ”۔ جریدہ حکومت کومتنبہ کرتے ہو ئے لکھتا ہے ”حامد میر کا یہ تجزیہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں ،حکمرانوں اور امریکہ نواز دانشوروں کو سوچنا چاہیے کہ یہ کسی مدرسے کے فاضل کا نہیں بلکہ ایک ماڈرن کالم نگار کا نقطہ نظر ہے”۔

"اسوہ حسنہ”  کے خیال میں پاکستان میں جاری دہشت گردی کی وجوہات میں لال مسجد آ پریشن اور غیر ملکی ایجنسیوں کی طرف سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے فوج اور عوام کو باہم لڑا نے کی سازش کارفرما ہے ۔

غیر مسلکی ماہنامہ "خطیب "نے طالبان پر مو جودہ ہشت گردی کے الز ام کی نفی کرتے ہوئے انکے خلاف بولنے والے علماء کو نیم ملا اور فرقہ پرست مولوی قرار دیا ۔ جریدہ لکھتا ہے ”یہ فرقہ پرست ملا ، کرپٹ میڈیا تجزیہ نگار اور این آر او زدہ ٹولہ پاکستان کو صلیب کے زیرسایہ لانے کے لیے کو شاں ہے ۔یہ اہل ایمان کے خو ن کے سوداگر اور امریکی دیوتا کے پجاری ہیں ۔۔۔پاکستا ن میں امن کے قیام ، کرپشن کے خاتمے اور ملکی بقا کے لیے عوام کو امریکہ کے خلاف اور طالبان کی حمایت میں اٹھ  کھڑا ہو ناچاہیےکہ وہی یہ مسائل حل کر سکتے ہیں ”۔[19]

 

قومی مالیاتی کمیشن (NFC) ایوارڈ

قومی مالیاتی ایوارڈ کی تقسیم کے حوالے سے جاری طویل تعطل کو وفاقی  حکومت اور صوبائی وزراء اعلی کے مشترکہ اجلاس میں باہمی مشاورت سے طے کر لیا گیا ہے ۔ دینی جرائد میں سے ” الجامعہ” نے اس  پر اظہار خیال کیا  ہے ۔جریدے کے خیا ل میں وفاق اور صوبوں کے مابین تعلقات کو مضبوط کرنے اور بین الصوبائی کدورتوں کو دور کرنے کے حوالے سے یہ ایک مثبت پیش رفت ہے ۔جریدہ لکھتا ہے ” اس ایوارڈ کی تقسیم میں تمام امور کو جس باریک بینی سے پیش نظر رکھا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ایوارڈ کی تشکیل  میں شریک تمام فریقوں کو مطمئن کرنے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کیا گیا ہے ”۔ جریدے نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ”عوامی ایو ارڈ کا بھی اعلان کرے تاکہ غریب عوام کو ریلیف مل سکے” ۔[20]

 

لاپتہ افراد

ملک سے لاپتہ ہونے والےافراد کی تعداد ایک اندازے کے مطابق چھ سو سے تجاوزکرچکی ہے  جن کی بازیابی کے حو الےسے تاحال کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی  ”ضرب مومن ” نے اس بارے میں اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ لاپتہ افراد کا معاملہ فوری طور پر حل طلب ہے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ملک دشمن طاقتیں اسے قومی سطح پر انتشار پھیلانے کے لیے استعمال کر سکتی ہیں ۔جریدے نےاپنی ۱۵ تا ۲۱ جنوری کی اشاعت میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیا ہے جس میں جسٹس جاوید اقبال نےکہاکہ لاپتہ افراد کے مقدمات میں سیکیورٹی ادارے ملوث ہیں ۔جریدہ لکھتاہے ” جج صاحب کے ان ریمارکس  سے لاپتہ افراد کے ورثاء کے  دلوں کی ڈھارس بندھی ہے ،  پاکستان کو درپیش مسائل میں سرفہرست انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اس لیے حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کا سراغ  لگائے اوران کو باعزت طریقے سے ان کے گھر پہنچائے ”۔[21]

 

دینی مد ارس اورحکومت

جرائد میں دینی مدارس کے بارے میں مختلف حوالوں سےتبصر ے اور تجزئیے سامنے آتے رہتے ہیں ۔رواں دوماہی میں دیوبند مکتب فکر کے بعض جرائدنے کچھ دینی مدارس پر چھاپے  اور مدارس میں عصری تعلیم کی صورت حال  کو مو ضو ع بحث بنایا ہے ۔

” البلاغ” اور "الفاروق”نے کراچی، اسلام آباد، لاہور اور فیصل آ با د کے بعض مدارس پر پولیس کی طرف سے چھاپوں کے تناظر میں مولانا محمد حنیف جالندھری [22] کا ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں  مدارس کے خلاف ان اقدامات کی پرزور الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ  جن مدارس پر چھا پے مارے  گئے ان کا تعلق وفاق المدارس سے ہے اس لیے دیوبندی جرائد ہی صورتحا ل پر تجزیہ کرتے نظر آئے  جبکہ کسی اور جریدے کے ہاں اس بارےمیں کو ئی رائے سامنے نہیں آئی ۔

مولانا محمد حنیف جالندھری کے خیا ل میں یہ مدارس کبھی بھی نو گوایریاز نہیں رہےکہ ان پر اتنے لاؤ لشکر کے ساتھ یلغا ر کی جائے،  ان چھاپوں کے دوران نہ تو اسلحہ برآ مد ہو اور نہ ہی کو ئی مشکوک شخص پکڑا گیا ۔ یہ آپریشن مدارس کے خلاف  میڈیا ٹرائل کا  حصہ ہے اور اس کی  ڈوری کہیں اور  سے ہلائی جارہی ہے ۔مضمون نگارکے خیا ل میں ان چھاپو ں کے ذریعے جہاں حالیہ دہشت گردی کے ڈانڈے مدارس سے ملانے کی کو شش کی گئی ہے وہیں دہشت گردی کے اصل محرکات تک نہ پہنچ سکنے کی حکومتی ناکامی کو چھپانے کی تدبیر بھی کی جارہی ہے ۔  مولانا حنیف جالندھری لکھتے ہیں "مدارس کےخلا ف یہ چھا پے غلامانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔۔۔یہ امتیازی سلوک ہے ،کیونکہ عصری ادارے جہاں سے آئے روز اسلحہ برآمد ہو رہا ہے انکے خلاف کریک ڈاؤن کی ضرورت محسوس نہیں کی جا تی اور سارا نزلہ مدارس پر گرایا جاتا ہے ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ تعلیم و تعلم میں مصروف لوگوں کے غم وغصے کو آخر کب تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے "۔۔۔ "ہم متعلقہ ذمہ داران کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ یہ بے رحمانہ سلوک زیادہ عرصہ برداشت نہیں کیا جاسکےگا”۔ اسی ضمن میں”وفاق المدارس "نے وفاق المدارس العربیہ بورڈ کے فیصلے کا حوالہ دیا  ہے جس میں کہا گیا”دینی مدارس کے تحفظ، انکی حریت اور خودمختاری کو ہر حال میں باقی رکھا جائے گا اور ایسی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہو نے دیا جائے گا جو مدارس کے دائرہ اثر کو کم یا ختم کر سکے، خواہ اس کے لیے  اسناد کے معادلے یا مدارس کو متوقع کسی بھی مفادکی قربانی دینی پڑے "۔

مدارس کے کرداراور ان میں جدید تعلیم کے بارے میں ” ضرب مومن ” لکھتا ہے "مدارس اس وقت ایسے محاذ پر ڈٹے ہو ئے ہیں جسے اگر خالی چھوڑ دیا جائے تو دین کا حلیہ دوسرے مذاہب کی طرح بگڑ جائے گا۔[23] جہاں تک مدارس میں عصری تعلیم کا تعلق ہے تو اہل مدارس کبھی بھی جدید تعلیم کی اہمیت ا ور ضرورت سے غافل نہیں رہے ،اور اب مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والا عالم انگریزی و عربی اور دنیاوی اور دینی علوم سے واقفیت رکھتا ہے "۔اس ضمن میں”بینات "نے اپنے تبصرے میں اس بات پر زور دیا ہے کہ”دینی مدارس کی طرح عصری تعلیم کے اداروں  میں بھی نصاب تعلیم اور نظام تعلیم کے لئے "عصری  درسگاہوں میں دینی علوم کی ضرورت "پر بھی ورکشاپس کا اہتمام کیا جانا چاہیے "۔[24]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے