مباحث مارچ ۲۰۱۰ ء
یوم عاشورہ اور سانحہ کراچی
۵ فروری۲۰۱۰ء کو کراچی میں عاشورہ محرم [11]کے جلوس اوربعد ازاں جناح ہسپتال میں یکے بعد دیگرے دوبم دھماکو ں میں تیس سے زائد افراو جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔ دھماکوں کے بعد تخریب کاری کی وارداتوں اور جلاؤ گھیراؤکے واقعات میں بڑے پیمانے پر مالی نقصان بھی ہوا۔اس حوالے سے دیوبندی اور شیعہ جرائد کی طرف سے تبصرے سامنے آئے ہیں ۔ جرائدکی آ راء میں مسلکی تاثر کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتاہے ۔ شیعہ جرائد اس طرف اشارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ یہ طالبان اور انکے پاکستانی ہمنواؤں کی کارروائی ہے۔ جبکہ دیوبندی جرائد اس سانحہ کو وفاقی اور شہری حکومتوں کی نا قص حکمت عملی کا شاخسانہ قرار دیتےہیں ،نیز دیوبندی جرائد امریکہ، بھارت اور کراچی کے لینڈ مافیا کو اس کارروائی کا ذمہ دار خیال کرتے ہیں ہے ۔ ان کی رائے میں طالبان یا کسی اور مذہبی گرو ہ کے اس میں ملوث ہونے کا تاثر درست نہیں ۔
”افتخار العارف ”اپنے اداریے میں دہشت گردی کے حالیہ اور سابقہ واقعات کا تذکرہ کرتے ہو ئے لکھتا ہے ”ہمارے خیال میں ملت تشیع کے ہزاروں شہداء کے مقدس خون میں جن لو گوں کے ہا تھ رنگے ہو ئے ہیں ، وہ شناختہ ہیں ، انکے چہروں پر نقاب نہیں ہیں۔۔فرقہ پرست گروہ کو ضیا ء دور سے لیکرآج تک کھلی چھوٹ دینے کا نتیجہ ہم ملک کے گوشے گوشےمیں کا فرکافر کی صداؤں اور آگ اور خون کے کھیل کی صورت میں دیکھتے آ رہے ہیں ۔ملک کی مذہبی لیڈر شپ تعصب اور تنگ نظر ی کا شکار دکھا ئی دیتی ہے ماضی میں اتحاد امت اور ملی یکجہتی کی تحریکوں کو انہی لوگوں نے قائم کیا تھا جو فرقہ پرست دہشت گردوں کے درون خانہ سر پرست تھے”۔
اس ضمن میں عدلیہ کے کردار کو زیر بحث لاتے ہوئے جریدہ لکھتا ہے ”ہمارے ہاں لال مسجد میں قتل عام پر تو ازخود نوٹس سامنے آجاتے ہیں لیکن زندہ انسانوں کو گوشت کے لو تھڑوں میں تبدیل کرنے والوں کے خلاف ازخود نوٹس کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جارہی ہے ؟۔جریدے میں شائع ایک مضمون میں یہ با ت کہی گئی ”یہ لوگ آ مروں اور غیر ملکی آ قاؤں کے ہا تھوں میں بھی کھیلتے آ رہے ہیں اور ان کو ایک معروف اسلامی ملک کی حمایت بھی حاصل ہے”۔ اسی جریدے کے مدیر ارشاد حسین ناصر نے اپنے ایک مضمون میں طالبان کے ایک گروہ کی طرف سے پہلے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے اور بعد ازاں دوسرے گروہ کی طرف سے اسکی تردید کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے ”پورے ملک کو آ گ اور خو ن میں نہلانے والے آ خر کس منہ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث نہیں ” نیزسیکیورٹی انتظامات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد حسین ناصر لکھتے ہیں ”سوچنے کی بات یہ کہ سٹی گورنمنٹ،صوبائی حکومت، صوبائی انتظامیہ اور سیکیورٹی ادارے آخر اس پلانٹڈ بم کو کیوں نہ پکڑ سکے؟”۔
”نوائے اسلام ” نے اسی طر ح کے تاثرات کا اظہا ر ان الفاظ میں کیا ”اس بات کے شو اہد موجود ہیں کہ کالعدم سپاہ صحابہ ہی شیعہ مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہے __یہ مذہبی دہشت گرد ملک کو عد م استحکا م کا شکار کرنے کے لیے شیعہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں ”۔ [12]
جبکہ دوسر ی جانب دیوبندی جرائد اس سے مختلف رائے کا اظہا ر کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ”بینات ” لکھتا ہے ”چونکہ کراچی پاکستان کی معیشت کے اعتبار سے شہ رگ کا درجہ رکھتا ہے ، اس لیے ملک وملت کے بدخواہوں اور دشمنوں کی پوری توجہ اب اس کی تباہی اور بربادی پر ہے ــــ عیار دشمن نے اس کی تباہی کا منصوبہ اس انداز میں تیار کیا کہ کسی کو محسوس تک نہ ہونے دیا کہ اس کے پیچھے کونسے عوامل ہیں؟۔بہر حال عام تاثر یہ ہے کہ یہ بدنام زمانہ بلیک واٹر کی کارروائی ہے اور اس نے اس سلسلے میں اپنے پاکستانی ایجنٹوں اور کرائے کے قاتلوں کی خدمات لی ہیں، بہر حال یہ طے ہے کہ کوئی مسلمان اور ملک کا خیرخواہ ایسی غداری کا مرتکب نہیں ہو سکتا”۔
‘‘الخیر” واضح طور پر لکھتا ہے : ” اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے والے نہ جانے کونسے عناصر ہیں جو طالبان کے بھیس میں مذموم کارروائیوں میں مصروف ہیں ۔ مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اس سانحے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کے لیے بیان بازی کی ہے مگر ہماری ناچیز رائے میں یہ بھارتی ایجنسی ”را” کے ایجنٹوں کی کارروائی تھی ”۔”ختم نبوت”کے خیال میں ڈ اکٹر عافیہ صدیقی کو سزا سنائے جانے کے بعد امریکہ نے انصاف پسند انسانوں اور کراچی کے غیور مسلمانوں کے سوچ کے دھاروں کو بدلنے کے لیے سفاکی کا مظاہرہ کرتے ہو ئے یہ بم دھماکے کروائے ہیں ۔ ”ضرب مومن” کے خیا ل میں یہ سانحہ لینڈ مافیا کے مذموم عزائم کی عکاسی کرتا ہے ، جریدہ لکھتا ہے ”یہ بے رحم طاقتو ر مافیا اپنے مقاصدکے حصول کے لیے غریب انسانوں کی قیمتی جانوں، انکے کاروبار اور حتیٰ کہ ملکی امن وامان اور معیشت کو تباہ کرنے سے گریز نہیں کرتا۔طالبان کو ملوث کرنے کا مقصد تفتیش کو ایک خاص رخ دینا ہے ۔ حکومت کے پاس شواہد موجود ہیں، اس لیے سیاسی اور مالی تعلقات کو بالائے طاق رکھتے ہوئےد رست تفتیش ہی آ ئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کا باعث بن سکتی ہے” ۔[13]
جواب دیں