مباحث مارچ ۲۰۱۰ ء
قومی مفاہمتی آرڈیننس (NRO) پر عدالتی فیصلہ
سپریم کورٹ آ ف پاکستان کے ۱۷ رکنی فل کورٹ بینچ نے سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکو مت میں منظور کیے گئےقومی مفاہمتی آرڈیننس(NRO)کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس قانون کے تحت ختم کیے گئے تما م مقدمات کو ۵ اکتوبر ۲۰۰۷ ءکی پو زیشن پر بحال کر دیا ہے۔دیوبندی ،بریلوی ، اہلحدیث اور غیرمسلکی جرائد نے عدالت کے اس فیصلے پر بھر پو ر اظہار خیا ل کیا ہے ۔ جس میں رائے کی یکسانیت کا عنصر باآسانی محسوس ہوتاہے۔ البتہ رواں دو ماہی کے شیعہ جرائد میں اس بارے میں کو ئی تبصرہ دیکھنے میں نہیں آیا جس کی ایک وجہ کراچی میں عاشورہ کے جلوس پر حملے کو ترجیحاً ذکر کرنا معلوم ہوتی ہے۔ جرائد نے عدالتی فیصلے کو نہایت خوش آئند،عوامی امنگوں کا ترجمان اور ملک وقوم کے لیے نیک شگون قراردیا ہے ۔ جرائد نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ اس فیصلے پر بلااستثنااور فوری عمل درآمد کیا جائے ، جبکہ اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ اداروں میں کسی بھی قسم کا باہمی تصادم ملک وقوم کے لیے خطرناک ہو گا۔نیز این آ ر او سے فائدہ اٹھانے والوں سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے ۔جرائد کی آراءکا خلاصہ حسب ذیل ہے۔
"بینات " کی رائے میں این آ ر او سے مستفید ہو نے والے افراد کی فہرست سامنے آنے کے بعد اس بات کا اندازہ ہو تا ہے کہ مو جو دہ حکومت ساری کی ساری این آر او زدہ ہے ۔ جریدہ طنزا ً لکھتا ہے کہ "اس فیصلے کا تاریک پہلو یہ ہے کہ ان جدی پشتی” غریبوں” کا مستقبل تاریک ہو جائیگا جن کا گزر بسر ہی ہمیشہ اسی زکوة وخیرات پر ہے "۔[1]
صدر کے عدالت میں حاضری سے استثنا کے تناظرمیں ”عرفات ”، الاعتصام ” اور ”الحامد ‘‘نے اس پہلو پر زور دیا ہے کہ کوئی شخص قانو ن سے بالاتر نہیں ہے ۔ اسلامی حکمرانوں کی تاریخ میں کو ئی ایسی مثال نہیں دی جا سکتی کہ کسی حکمران کو اس کے منصب کی وجہ سے عدالت میں حاضری سے استثنادیا گیا ہو۔ اس لیے منصب صدارت کی وجہ سے صدر آ صف علی زرداری یاکوئی صاحب منصب احتساب کے اس عمل سے مستثنی ٰ نہیں ۔ چنانچہ ہر فرد کو عدالت میں حاضر ہو کر اپنے خلاف قا ئم مقدمات کا سامنا کر نا چاہیے ۔ ” عرفات” نے ا س فیصلے کو ملکی تاریخ میں طاقتور اور بااثر افراد کو کٹہرے میں لانے کی پہلی مثا ل قرار دیا ہے اور ساتھ ہی حکومت میں شامل این آ ر او زدگا ن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مقدمات کی پیروی کر کے یہ مثا ل قائم کریں کہ انہیں ملکی مفاد ہر شے سے عزیز ہے ۔ "الاعتصام” نے فیصلے کے طریقہ کار کو نہایت دانشمندانہ قرار دیتے ہو ئے لکھا ہے کہ عدالت نے یہ فیصلہ دے کر عدلیہ کا حق ادا کردیا ہے ۔ طریقہ کار بھی بہت ٹھنڈا اور باوقار اختیا ر کیا گیا ۔ حق و سچ کا فیصلہ بھی سنا دیا اور حکومتی اداروں میں کسی طر ح کی افرتفر ی بھی نہ ہو نے دی۔ [2]
"ضرب مومن”نے حکومت کو مشور ہ دیا ہے کہ وہ عدلیہ کے فیصلے کو دل سے تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے ۔ اس سے اس کی ساکھ بہتر ہو گی اور اس کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہو گا ۔اس کی مثا ل مسلم لیگ ن اور ایم کیوایم ہیں جو اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے باعث عوام میں مقبول ہو رہی ہیں ۔ تمام سیاسی قوتوں کو مل جل کر ایسی فضا بنانی چاہیے کہ لوٹی ہوئی ملکی دولت قومی خزانے میں واپس آسکے ۔جریدے نے اپنی ۲۹جنوری ۲۰۱۰ ءکی اشاعت میں حکومت کو خبردار کیا ہے کہ عدالتی فیصلے پر عمل درآ مد میں تاخیر کی مزید گنجائش نہیں ہے ۔ ہفت روزہ” ختم نبوت” کے خیا ل میں این آ ر او کی فہرست سامنے آنے پر قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے ۔ اس کے تدارک کے لیے کالی بھیڑوںکا تعاقب ضروری ہے ۔[3]
"سوئے حجاز” اور"اہلحدیث” نے اس فیصلے کے بعد وزیر اعظم کے بیان( جس میں انہوں نے صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس مقدمات کو دوبارہ نہ کھولنے کا عندیہ دیا ہے)کا حوالہ دیتے ہو ئے خدشے کا اظہا ر کیا ہے کہ محسوس یو ں ہو رہا ہے کہ فیصلے پر عمل درآ مد سپریم کو رٹ کی منشاءکے نہیں بلکہ اپنے جماعتی اور گروہی مفادات کے مطابق کیا جائیگا ،ا ور یہ بات کسی طور بھی مناسب نہیں ہے ۔[4]
"ضیائے حرم” کے خیال میں یہ عدالتی فیصلہ پارلیمنٹ اور اسکے نمائندوں پر عظیم احسان ہے ۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہےکہ سیاستدانوں سمیت جن دوسرے افراد نے اس سے فائدہ اٹھایا انہیں بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور کسی بھی طر ح کےمنفی طرزعمل سے اجتناب کیا جائے ۔[5]
"الجامعہ” نے مذکورہ عدالتی فیصلے کو رشوت ،کمیشنوں اور بدعنوانیوں کے نتیجے میں روز بروز بڑھنے والی مہنگائی ، بے روزگاری ، بھوک اور افلاس کے ہاتھوں پریشان عوام کے لیے امید کی کرن قراردیا ۔[6]
” کاروان قمر”نے فیصلے پر عمل درآ مد کے لیے مانیٹرنگ سیل کے قیام کو نہایت خو ش آ ئند قرار دیا ہے۔جریدہ لکھتا ہے ”جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سر براہی میں قوم جس آ زاد عدلیہ کا خواب دیکھ رہی تھی یہ فیصلہ اس خو اب کی حسین تعبیر ہے “۔[7]
"اہلحدیث” کی رائے میں صدر زرداری اور انکے کرپٹ وزاءکو مستعفی ہو جانا چاہیے اس لیے کہ عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان کو لوٹنا اب آسان نہیں رہا ۔ ساتھ ہی جریدے نے مطالبہ کیا کہ این آر او کے خالق کو بھی سزا ملنی چاہیے۔[8]
” مجلة الجامعہ سلفیہ”نے ایک مضمون شائع کیا ہے ۔ مضمون نگا ر نے صدر آ صف علی زرداری کو مشور ہ دیا ہے کہ اپنے تمام این آ ر او زدہ وزراء سمیت مستعفی ہو جائیں کہ یہی جمہوریت کی روح او ر تقاضا ہے اور یہی جمہو ریت کا بہترین انتقام ہے ۔[9]
"ندائے خلافت”نے صدر آ صف علی زرداری سے متعلق لکھا ہے کہ این آ ر او کے حوالے سے انکے دل میں چور تھا ، وہ جانتے تھے کہ یہ احمقانہ غیر منطقی اور غیر فطری آرڈینینس انکے گلے کا پھندا بن سکتا ہے لہٰذا وہ صدر بن کرہی آرٹیکل ۲۴۸ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جبکہ وزیر اعظم کو یہ سہولت میسر نہیں ہے، اسی لیے انہوں نے صدارت کا عہدہ اپنے لیے منتخب کیا۔ [10]
جواب دیں