مباحث مارچ ۲۰۱۰ ء

مباحث مارچ ۲۰۱۰ ء

عالمی سیاست اور امریکہ

عالمی سیاست میں امریکی کردار پر دینی جرائد کی رائے قریباً ویسی ہی ہےجس کا تذکرہ داخلی امور کےذیل پاکستان کی سیاست میں امریکہ کا کردارکےعنوان سےہو چکاہے ۔یہاں بھی دینی  جرائد امریکی کردار کو مسلم مخالف  اور اپنےہی مفادات کے گرد گھومتا ہواخیال کرتے ہیں ۔رواں دوماہی میں عالمی سیاست میں امریکہ کے کردار کو افغانستان ، ایران ، عالمی ماحولیاتی کانفرنس، ہیٹی میں آنے والے زلزلہ اورڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے  میں امریکی عدالت کے فیصلے   کےحوالے سے زیر بحث لایا گیا ہے ۔

  • § امریکہ اور افغانستان :افغانستان میں امریکہ کی  سیاست کے دوپہلواب نمایاں نظر آتے  ہیں۔امریکہ طالبان سے مذاکرات کی کوشش جاری رکھےہوئے ہے ، برطانیہ  میں ۲۸ جنوری ۲۰۱۰ء کو افغانستان کے بارے میں  منعقدہ  "لندن کانفرنس” اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔دوسری جانب صدر باراک اوباما کی طرف سے افغانستان میں مزیدتیس ہزارفوج کی تعیناتی کا فیصلہ بھی  آ چکا ہے۔  

"ضرب مومن ” اس ضمن میں تبصرہ کرتے ہو ئے لکھتا ہے ” آج کل عالمی برادری خصوصاً امریکہ کی لغت میں مذاکرات اور صلح اس کے سوا کچھ نہیں کہ تھوڑی  سی مہلت لے کر مد مقابل کو کمزور کیا جائے ۔۔۔ ابھی مذاکرات کی گونج فضا میں ہی تھی کہ  امریکہ نے صوبہ ہلمند میں حملے کی تیاریاں شروع کر دیں جس سے  امریکہ کی دوغلی پالیسی اور امن کے پردے میں جنگ کی چالیں دنیا کےسامنے ایک بار پھر واضح ہو گئیں”۔ جریدے نے واضح کیا کہ  امریکہ مذاکرات کی آڑ میں افغانستان میں فتح حاصل نہیں کرسکتا۔[37] دوسری جانب جریدےنے  ۱۶ جنوری ۲۰۱۰ءکواسلام آباد میں ہونے والے پاک، افغان اور ایران وزائے  خارجہ کے اجلاس کو خطے میں امن امان کے حوالے سے  امید افزا  قرار دیا ہے ۔جریدہ لکھتا ہے "ان تینو ں  ممالک میں دہشت گردی کے پس منظر سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے  کہ جب سے امریکہ اس خطے میں آ یا ہے تب سے یہاں کا امن تباہ و برباد ہو گیا ہے۔۔۔ ایسے حالات میں ان تینوں ممالک کاآپس میں مل بیٹھنا  اور دہشت گر دی کی روک تھا م کے لیے مل کر کام کرنے پر متفق ہو نا ان ممالک کے لیے بہتر ہے ، ہمارے خیال میں ان تینوں ممالک کے اتحاد کی اس سوچ کا دائرہ تمام اسلامی ممالک تک وسیع ہو نا چاہیے”۔[38]

"ندائے خلافت”لکھتا ہے  "یہ واضح ہے کہ امریکی اپنے پیش رو  روس کی طرح شرمناک شکست کا دا غ لیے افغان سر زمین سے راہ فرار اختیا ر کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔” جریدہ حکومت پاکستان کو  یہ مشورہ دیتاہے ” اب ہمیں امریکہ کے ڈو مور کے جواب میں نومور کہہ دینا چاہیے اس لیے کہ افغانستان کا مستقبل طالبان سے وابستہ ہے اور "انڈین شمالیوں”[39] کے مقابلے میں طالبان ہی پاکستان کے سچے خیر خواہ ثابت ہو سکتے ہیں "۔جریدے نےاپنی ۱۹ تا ۲۵ جنوری کی اشاعت میں ایک مضمون شائع کیا ہے ۔مضمون نگا ر  کے خیال میں افغانستان میں طالبان کی صورت میں افغان عوام یہ جنگ لڑ رہے ہیں، وہ لکھتے ہیں "جس طرح امریکہ کو ویتنام سے رسوا ہو کر نکلنا پڑا تھا اسی طرح افغانستان سےبھی رسوا ہو کر نکلے گا،اس لیے کہ اسکی نئی پاک افغان پالیسی بھی ناکام ہو چکی ہے جس کا ثبوت نیٹوکی جاری کردہ رپورٹ ہے جس میں افغانستان کے ۳۴ میں سے ۳۳ اضلاع میں طالبان کی عملداری قائم ہو جانے کا اعتراف کیا گیا ہے”۔[40]

  • § ایران کا ایٹمی پروگرام  اور امریکہ : "نوائے اسلام "نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے  حوالے سے امریکا ، فرانس ، برطانیہ،جرمنی ، روس اور چین کے ۱۷ جنوری ۲۰۱۰ ء کو  نیویارک میں منعقدہ  اجلاس کو موضوع بحث بنایا ہے ۔ جریدے کے خیال میں  روس اور چین کا ایران کےخلاف پابندیوں سے متفق نہ ہو نا خوش آئند ہے ۔جریدہ لکھتاہے "روس اور چین سمیت دنیا کے دیگر  ممالک بھی اب یہ سمجھ چکے  ہیں کہ امریکہ نے جھو ٹی کہانیاں سنا کر ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف فضا تیار کی ہے ۔۔دنیا کے بیشتر ممالک امریکی سحر سے نکل رہے ہیں اور ایران کے خلاف امریکی پروپیگنڈے کا پردہ چاک ہو رہا ہے”۔[41] 
  • § ہیٹی میں زلزلہ اور امریکہ کا کردار: ماہ جنوری میں ہیٹی میں آنے والے زلزلےکے بعد  امریکی صدرباراک  اوباما کی طرف سے دس ہزار فوجیوں کووہاں بھیجے جانے پر "نوائے اسلام”نے تشویش کا اظہار کیا ہے ۔جریدہ  لکھتا ہے "بظاہر تو ان فوجیوں کا کام امدادی کاموں میں معاونت اور امن برقرار رکھنا ہے،مگر اتنی بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کی آمد کامقصد دراصل امریکی تسلط پسندانہ عزائم کی عکاسی ہے”۔ [42] 
  • § عالمی ماحولیاتی کانفرنس اور امریکہ:کوپن ہیگن میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں منظور کیے گئے معاہدے پر تبصرہ کرتے ہو ئے "نوائے اسلام "نے اسے امریکہ کا من پسند معاہدہ قرار دیا ۔ جریدے کے خیال میں یہ اجلاس ایک اہم سلگتے ہوئے عالمی مسئلے "ماحولیاتی آلودگی” سے نمٹنے کے بارے میں سوچ بچار کے اعتبار سے خوش آئند تھا لیکن امریکہ کی طرف سے اپنے مجوزہ معاہدے ہی کو منظو ر کروانے کی دھن میں اسکی اصل وجوہات زیر بحث نہ آسکیں ۔یو ں یہ اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا ۔ایٹمی ہتھیاروں کو ماحولیاتی آلودگی کا باعث خیال کرتے ہو ئے جریدہ لکھتاہے”دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار امریکہ کے پاس ہیں اور ماحولیاتی کرپشن میں وہ سب سے زیادہ ملوث ہے  یہی وجہ ہے کہ  امریکہ  کانفرنس میں ماحولیاتی فضلے کو آلودگی کا سبب تو گردانتا رہا لیکن ایٹمی فضلے کے معاملے پر اسکی زبان بند رہی ۔ اسی رویے کی وجہ سے یہ کانفرنس ناکام رہی "۔[43] 
  • § ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں امریکی عدالت کا فیصلہ : ۳ فروری ۲۰۱۰ء کو امریکہ کی عدالت نے پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں قصوروار قرار دیا ہے ۔ اس حوالے سے "ندائے خلافت ” نے اپنے  تبصرے میں اس فیصلے کو حسب توقع قراردیاہے ۔جریدہ لکھتا ہے ” ہم پاکستانی کتنے بھولے بلکہ احمق ہیں  جو اس ظالم نظام کے رکھوالوں سے عافیہ کے لیے عدل کی توقع کرتے تھے ۔عافیہ کامسلمان ہونا جیوری کے نزدیک اصل جرم ہے”۔ جریدہ افسوس کا اظہار کرتے ہو ئے مزید لکھتا ہے ” جس نظام کے تحت بم برساتے اور میزائل گراتےشخص کو نوبل انعام دیا جاسکتا ہے اس کا عدالتی نظام کیا گل نہیں کھلا سکتا ۔لہذا امریکی جیوری سے خیر کی توقع رکھنا ہی عبث ہے”۔[44] 

میناروں کی تعمیر پر پابندی

سوئیزرلینڈ میں عوامی ریفرنڈم میں سامنے آنے والی رائے کی روشنی میں حکومت کی طرف سے مسجدوں کے میناروں  پر پابندی کے فیصلے پر رواں دوماہی میں بھی جرائدنے تبصرے کیے ہیں۔وہ  اس پابندی کو مغرب کی تنگ نظری اور اسلام دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں ۔

"بینات”اور "ختم نبوت”نے اس ضمن میں ایک ہی نوعیت کا اداریہ شائع کیا ہے جس میں سوئیزر لینڈحکومت کے اس فیصلے کو عدم برداشت ، مذہبی تنگ نظری ،اسلام ، مسلمانوں اور شعائر اسلام کےخلاف تعصب اور تنگ نظری پر مبنی قراردیا ۔جرائد کے خیال میں اگر سوئیزر لینڈ کی لبر ل حکومت ڈیڑھ  ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے خلاف اتنا بڑا فیصلہ کر سکتی ہے  تو مسلمانو ں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جاسکتا کہ وہ بھی اپنے ملک میں یہودیوں ،  عیسائیوں، ہندوؤں اورسکھوں کو اپنی مخصوص طرز کی عبادت گاہیں بنانے سے روک دیں۔ جرائد نے سوئس حکومت کے اس فیصلے کو لبرل سوچ کے حامل مسلمانوں کے منہ پر طمانچہ قرار دیا ۔جرائد مسلمانوں سے مطالبہ کرتے ہو ئے لکھتے ہیں”مسلمانان عالم کو چاہیے کہ اس بین الاقوامی دہشت گردی اور جبر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں ،  ورنہ اگر ہم نے اسےٹھنڈے پیٹوں ہضم کر لیا تو اندیشہ ہے کہ آگے چل کر  مساجد اور مسلمانوں کے دین ومذہب پر ہی پابندی نہ لگا دی جائے "۔[45]"الفاروق” نے اس حوالے سے ایک مضمون شائع کیا ہے ۔مضمون نگار لکھتے ہیں "ہمارے نزدیک اسلام پر شدید یلغار  ہے  جسے روکنے کے لیے یورپ کے معاشی مفادات پر قدغن لگانی ہو گی  ۔۔ صلیبی  جنگ نہ صرف افغانستان، عراق اور دوسری جگہوں پر لڑی جارہی ہے بلکہ یہ جنگ یورپ  کے اندر بھی اب  شروع ہو چکی ہے” ۔ [46]

 

توہین رسالت  پر مبنی خاکوں کی اشاعت

فروری ۲۰۱۰ء کے پہلے ہفتے میں ناروے  کے ایک اخبار میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے توہین آمیزخاکوں کی دوبارہ اشاعت کے خلاف "ختم نبوت” اور "اہلحدیث” نے تبصرے شائع کیے ہیں۔

"ختم نبوت ” کے مطا بق اس سے پہلے جب  یہ خاکے شائع کیا گئے تھےتو امت مسلمہ نے ان ممالک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا تھا تب ان کے ہو ش  ٹھکانے آ گئے تھے لیکن جب مسلمانوں نے دوبارہ ان کے ساتھ دوستی کی  پینگیں بڑھانا شروع کیں تو انہوں نے پھر سے خاکے شائع کر دیے ہیں ۔ جریدہ لکھتا ہے "ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ان ازلی بدبختوں کی شرارتوں اور گستاخیوں کے سدباب کے لیے کوئی دیر پا اور مستحکم پالیسی اپنائیں  اور ان کی شرارتوں پر نگاہ رکھیں تاکہ ان کی عداوت کے سوتے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں”۔[47]

سینیٹ آف پاکستان میں ان خاکوں کے خلاف منظور کی جانے والی قرارداد کا تذکرہ کرنے کے بعد "اہلحدیث” لکھتاہے ” ایسی قراردادوں کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک کو منا فقانہ طرز عمل رکھنے والے پورپی ممالک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم کرنے چاہییں اور حکومت پاکستان کو بھی اقوام عالم میں اپنا اثر رسوخ استعمال کرنا چاہیے اس لیے کہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت اسلام کا بنیادی عنصراور دین وایمان کا لازمی جزو ہے”۔ [48]

 

پاک بھارت تعلقات

دینی جرائد پاک بھارت تعلقات کےمختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں ۔زیر نظرتجزیے میں اس حوالے  سے دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے خارجہ سیکرٹری سطح کے حالیہ مذاکرات  اور مسئلہ کشمیر کےضمن میں جرائد نے اپنی آراء پیش کی ہیں۔ان آراء سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جرائد پاکستان کی دلچسپی کے موضوعات کو مذاکراتی عمل کا حصہ بنائے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

دیوبندی "ضرب مومن” لکھتا ہے "حالیہ پیش رفت اس بات کی علامت ہے کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین  سانحہ ممبئ کے بعد تعلقات میں جو ڈیڈ لاک کی کیفیت پیدا ہوئی تھی وہ اب ختم ہو رہی ہے ۔ جریدےنے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ مذاکرات کا یہ ایجنڈا بھارت کے من پسند موضوعات تک محدو د نہیں رہنا چاہیے بلکہ اس میں دونوں ممالک کے دیرینہ حل طلب مسائل کی طرف بھی پیش رفت ہونی چاہیے "۔[49]

شیعہ "نوائےاسلام”نےاس ضمن میں شذرہ تحریرکیا ہے ۔ جریدہ  بھارت کی طرف سے مذاکرات پرآمادگی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے” پہلےامریکہ اور برطانیہ کے دباؤ کے باوجودبھارت کا مذاکرات پر رضامند نہ ہو نا اوراب اچانک خود سے رضا مند ہونا عجیب سا لگتاہے،بہرحال جلد حقائق سامنے آ جائیں گے کہ بھارت کے کیا مقاصد ہیں ۔تاہم دونوں ممالک کے مسائل مذاکرات سے ہی حل ہو سکتے ہیں "۔ جریدے نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پو ری تیاری سے ان مذاکرات میں بھارتی دہشت گردی کا معاملہ اٹھائے ۔[50]

۵ فروری کو پاکستان میں منائے جانے والے یوم یکجہتی کشمیرکے تناظرمیں "اہلحدیث”اور "دعوت تنظیم الاسلام "نے اداریے تحریر کیے ہیں۔”اہلحدیث” نے  اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستانی عوام کشمیریوں کےساتھ ہیں ۔جرید ہ لکھتا ہے "حکمرانوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ کشمیر قانونی، اخلاقی ، تاریخی اور جغرافیائی طور پر بھارت نہیں پاکستان کا حصہ ہے ۔اور کشمیر کا مسئلہ دفاعی، معاشی اور سیاسی طور پر پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے”۔جریدہ مزیدلکھتاہے ” عالمی رائے عامہ کو بھی اپنی بے حسی ترک کرنا ہوگی ،اور ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال نہیں ہو نے دیں گے ، اپنے کشمیری بھائیوں کی سفارتی ، اخلاقی، سیاسی اور باہمی ہمدردی کی بنیاد پر بھرپور مدد کریں گے”۔[51] بریلوی جریدہ "دعوت تنظیم الاسلام”اپنے اداریے میں لکھتا  ہے "بھارت نے کشمیر پر اپنا تسلط جما کر درحقیقت تقسیم ہند کے ایجنڈے کو ادھورا رکھا ہوا ہے "۔حالیہ مذاکرات کے حوالے سے جریدے کے خیا ل  میں بھارت اپنی اندرونی شکست وریخت سےسے توجہ ہٹانے کے لیے یہ پینترا بدل رہا ہے ۔ [52]

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے