مباحث، نومبر ۲۰۱۱ ء
ذو الفقار مرزا کے انکشافات
۲۸ اگست ۲۰۱۱ء کو سندھ کے سابق وزیر داخلہ و سینئر وزیر ذو الفقار مرزا نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے ایم کیو ایم پر کراچی میں فساد، ٹارگٹ کلنگ اور پاکستان کو توڑنے کے امریکی منصوبے میں اس کا ساتھ دینے کے حوالے سے الزام عائد کیے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ پاکستان کے دشمن ہیں اور غیر ملکی ایجنسیوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ یہ سارے الزامات انہوں نے قرآن مجید سر پر رکھ کر لگائے ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے حکومتی و پارٹی عہدوں اور صوبائی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ بھی دے دیا۔ ملکی ذرائع ابلاغ میں یہ موضوع ایک عرصہ تک زیر بحث رہا ۔ دینی جرائد میں سے تین نے اسے اپنے ہاں جگہ دی ہے ۔ اس بات میں تو جرائد متفق ہیں کہ اتنے اہم سرکاری عہدے پر فائز رہنے والا شخص یقینا جو کچھ کہہ رہا ہے سراسر جھوٹ تو نہیں ہو سکتا، نیز ایک مسلمان جب قرآن مجید کو سر پر رکھ کر پوری ذمہ داری کے ساتھ بیان دے رہا ہے تو اہل اسلام کو نہ صرف اس کی بات پر توجہ دینی چاہیے بلکہ ان باتوں کی تحقیق کا اہتمام بھی کرنا چاہیے۔ لہٰذا حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ خصوصی بینچ تشکیل دے کر ان تمام الزامات کی تحقیق کی جائے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ تاہم "ضیاء حرم” میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں صاحب مضمون کا خیال ہے کہ اس وقت میں اس طرح کی پریس کانفرنس کے کچھ اورمقاصد بھی ہو سکتے ہیں[17]۔
صاحب مضمون قاضی مصطفیٰ نے اس موقع پر ذو الفقار مرزا کی طرف سے اس طرح کے جارحانہ انداز اپنانے کا تجزیہ ذرا مختلف انداز سے کیا ہے:
"اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس وقت جب کہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ اور ان سے طے پانے والے معاملات کی وجہ سے سندھ کے عوام پی پی پی سے نالاں ہو گئے تھے، بطور خاص ایم کیو ایم کی حکومت میں واپسی کے بعد نافذ کردہ کمشنری نظام کو کراچی اور حیدر آباد سے ختم کرنے اور سندھ بھر میں بحال رکھنے پر سندھی عوام اور پی پی پی میں دوریاں بڑھ گئی تھیں اور پی پی کے ہاتھ سے سندھ کارڈ نکلا جا رہا تھا۔ ایسے وقت میں ذو الفقار مرزا نے ایم کیو ایم کی مخالفت کا نعرہ بلند کرتے ہوئے سندھ کا بیٹا ہونے کا اعلان کیا اور سندھ کے غریب عوام کے ہمدرد اور سیاسی و سماجی حقوق کے محافظ بن کر سامنے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سندھیوں کی آنکھ کا تارا بن گئے۔ سندھ میں ہر جگہ ان کے جلسوں میں پی پی پی کے ورکر اور کارکن پی پی کے پرچم لیے شامل ہو رہے ہیں اور سندھ کارڈ جو پی پی پی کے ہاتھ سے نکلا جا رہا تھا ، ذو الفقار مرزا نے اسے بریک لگا دی ہے”[18] ۔
تاہم اس طرح کی پریس کانفرنس میں قرآن مجید کو سر پر اٹھانا، یا اس کے جواب میں ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کا اپنی کانفرنس میں قرآن مجید سر پر رکھ کر پریس کانفرنس کرنا اور گانے کے بول دہرانا ایسا واقعہ تھا جس میں توہین قرآن کا پہلو نکلتا ہے۔ عمومی ذرائع ابلاغ میں تو اس کی مذمت کا تذکرہ دیکھنے کو ملا لیکن دستیاب دینی جرائد نے اس حوالے سے کوئی اظہار خیال نہیں کیا۔
جواب دیں