مباحث، نومبر ۲۰۱۱ ء
ممتاز قادری کی سزائے موت
یکم اکتوبر ۲۰۱۱ء کو خصوصی عدالت نمبر دو نے سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر قتل کیس میں ان کے محافظ دستے میں شامل ممتاز قادری کو دو مرتبہ سزائے موت اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی۔ ممتاز قادری نے۴ جنوری ۲۰۱۱ء میں اسلام آباد کے علاقے ایف سکس میں واقعے کوہسار مارکیٹ میں سلمان تاثیر کو سرکاری بندوق سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا ۔ اور اس قتل کی وجہ انہوں نے سلمان تاثیر کی طرف سے شان رسالت میں گستاخی بتائی تھی اور قتل کا اعتراف بھی کیا تھا ۔ اس سزا کے خلاف ممتاز قادری کے وکیل خواجہ شریف (سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ) اور دیگر وکلاء نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست پیش کی جسے عدالت نے سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔
دینی جرائد میں شیعہ اور بریلوی مکتبہ فکر کےدستیاب جرائد میں اس حوالے سے کوئی اداریہ یا مضمون شائع نہیں ہوا جس کی ایک وجہ حج، قربانی اور عید الاضحیٰ سے متعلق مسائل کو شامل اشاعت کرنا ہو سکتی ہے۔ جبکہ دیوبندی ، اہل حدیث اور غیر مسلکی مکاتب فکر کے جرائد نے اس سزا کو قابل مذمت قرار دیا ہے ۔ تاہم گزشتہ شماروں میں اگر ان دو مکاتب فکر کے نقطہ نظر کو دیکھا جائے تو بریلوی مکتبہ فکر کے جرائد میں ممتاز قادری کو غازی کہا گیا ہے۔ لیکن شیعہ مکتبہ فکر ممتاز قادری کے اس اقدام کو مذہبی انتہا پسندی کا شاخسانہ کہا ہے۔
"ختم نبوت” لکھتا ہے کہ اگر عدالت کا فیصلہ ہی انصاف ہے تو پھر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو پی پی پی کیوں تسلیم نہیں کرتی، نواز شریف کے خلاف نا اہلی کے عدالتی فیصلے کو مسلم لیگ ن نے کیوں تسلیم نہیں کیا۔ جب ہمارے پاس عدالتی فیصلے درست تسلیم نہ کرنے کی نظائر موجود ہیں تو پھر پاکستان کے مسلمانوں کو بھی اجازت دیں کہ وہ اس فیصلہ کے متعلق اپنے نقطہ نظر کو واضح کر سکیں۔ جریدہ مزید لکھتا ہے کہ اگر ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لیے مقتولین کے ورثاء کو راضی کرنے کے لیے قومی خزانے سے دیت ادا کی جا سکتی ہے تو پھر سلمان تاثیر کے ورثاء کو راضی کرنے کا کام بھی حکومت اپنے ذمہ لے اور دیت ادا کر کے ممتاز قادر ی کو رہا کرے۔ یہ قرین قیاس نہیں کہ امریکی کی رہائی کے لیے حکومت کارنامے سر انجام دے اور ایک عاشق رسول کو لٹکا دیا جائے[11] ۔
"محدث” نے اپنے اداریہ میں خصوصیت کے ساتھ "قانون کو ہاتھ میں لینے” کے پہلو کو ذکر کیا ہے۔ گستاخ رسول کے قتل اور قانون کو ہاتھ میں لینے کے حوالے عہد رسالت و عہد صحابہ کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن میں گستاخ کو قتل کرنے والے پر نہ صرف یہ کہ کوئی سزا نافذ نہیں کی گئی بلکہ بعض مقامات پر اس کے اس عمل کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اسی طرح غازی علم دین اور عبد القیوم کے اقدامات پر بانیان پاکستان قائد اعظم اور علامہ اقبال کے رد عمل کو بھی پیش کیا گیا ہے کہ انہوں نے اس اقدام کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اس کی وکالت کے لیے بھی خود کو پیش کیا۔ ماضی کی ان نظائر کا تذکرہ کرنے کے بعد جریدہ لکھتا ہے کہ "ان توضیحی نکات کے بعد یہ امر بہر حال واضح ہے کہ اگر کوئی بد بخت توہین رسالت کا ارتکاب کرے اور کوئی مسلمان ایمان کے تقاضے سے مجبور ہو کر اس کو قتل کر دے تو قتل کرنے والے کے خلاف محض قانون کو ہاتھ میں لینے کو دلیل بنا کر یا مروجہ قانون کی بنا پر اس کو دوہری سزائے موت دینا شریعت اسلامیہ کی رو سے درست نہیں، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام نے اس بنا پر کسی کو سزا نہیں دی، بلکہ صورت واقعہ اور حقائق کے پیش نظر اصل مجرم کی سزا پر ہی توجہ مرکوز رکھی”[12] ۔
"الاعتصام” اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ جو عدل آج تک نواب زادہ لیاقت علی کا قاتل تلاش نہ کر سکا، سقوط مشرقی پاکستان کے کرداروں کا تعین نہیں کر سکا، بھٹو کے جوان بیٹوں کے قاتل کا پتہ نہ چلا سکا، بینظیر کا قاتل جس کی آنکھوں سے اوجھل ہے اس کا کمال دیکھیے کہ سلمان تاثیر کے قاتل کو سزائے موت سنا دی۔ موجودہ قانون پر تنقید کرتے ہوئے مزید لکھتا ہے کہ یہ بجا کہ ممتاز قادری کا قانون کو ہاتھ میں لینا درست نہیں لیکن ہماری عدالتیں جو برٹش لاء کی بنیاد پر بنے ہوئے قانون کے تحت بے شمار حیلے بہانے تراشتی اور مجرم کو بچاتی ہیں، کبھی غیرت انسانی، کبھی وقتی اشتعال اور کبھی بے قابو جذبات کی آڑ لے کر مجرم کو فائدہ دیتی ہیں ، تو کیا غیرت ایمانی کی کوئی استثناء کی اس میں صورت نہیں بنتی؟ اگر قوانین اسلام کے مطابق ہوتے تو یقینا غیرت ایمانی کی استثناء بھی ہوتی ۔ عدالتیں منشیات، اغوا برائے تاوان اور ڈکیتی کے مجرموں کو شک کی بنیاد پر بیسیوں حیلے نکال کر سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیتی ہیں، کیا وہ قانونی موشگافیاں یہاں استعمال نہیں کی جا سکتیں[13] ؟
"ندائے خلافت” لکھتا ہے کہ بڑی سادگی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے کا کسی کو حق نہیں، لیکن یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ کیوں کہ یہ بات وہاں وزن دار ہو سکتی ہے جہاں قانون کی عملداری ہو، جہاں حاکم اور عوام، امیر اور غر یب میں فرق نہ کیا جاتا ہو۔ لیکن جہاں قانون صرف عوام کے لیے ہو اور صدر اور گورنر ہر طرح کے قانون سے بالا تر ہوں وہاں اس بات کا کیا وزن۔ بہت سے لوگوں نے گورنر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی لیکن ایک ہی جواب ملا کہ گورنر کے خلاف آیف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ جریدہ سوال کرتا ہے کہ آئین میں شاتم رسول کی سزا مقرر ہے۔ سلمان تاثیر نے اس کے خلاف جو بات کی تھی کیا وہ آئین کی توہین نہیں تھی اور آئین کی کھلی خلاف ورزی نہیں تھی؟ تو قانون اس وقت حرکت میں کیوں نہ آیا؟ اس طرح کے جرائم کے ہمیشہ کے لیے سد باب کے لیے ضروری ہے کہ ہم سب مل کر پاکستان کو خالص اسلامی ریاست بنانے کے لیے اپنی بھرپور توانائیاں لگا دیں۔ کیوں کہ اگر اسلامی نظام کا مکمل نفاذ نہیں ہوگا تو وقت گزرنے کے ساتھ ہماری مدافعتی قوت کمزور ہوتی جائے گی اور پھر سلمان تاثیروں کو روکنا مشکل ہو جائے گا[14] ۔
جواب دیں