مباحث، نومبر ۲۰۱۱ ء
کراچی کی صورتحال
شہر کراچی کو اس سال جولائی اگست اور ستمبر میں ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کے واقعات نے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا جس میں ایک اندازے کے مطابق صرف جولائی اور اگست میں ۳۰۰ سے زائد افراد لقمہ اجل بنے ان حالات کے پیش نظر سندھ انتظامیہ نے کراچی کے متاثرہ علاقوں کو رینجرز کے حوالے کر دیا ۔ بعد ازاں بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری نے ۲۴ اگست کو از خود نوٹس لیا ۔ ۲۶ اگست کو اسلام آباد میں ابتدائی سماعت کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں مسلسل گیارہ روز تک سماعت کی۔ عدالت نے ۱۵ ستمبر کو اس سماعت کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو کہ ۶ اکتوبر بروز جمعرات کو سنایا گیا۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران اور اس کے بعد مجرموں کے خلاف کارروائی میں شدت آئی اور حالات میں کچھ بہتری آئی۔ ان حالات میں ملک کے مختلف طبقات کی جانب سے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کی تجویز بھی آئی۔ دینی جرائد نے بھی اس اہم موضوع کو اپنے ادارتی صفحات میں جگہ دی ہے۔ اس موقع پر یہ امر قابل غور ہے کہ کراچی کے کیس کی سماعت کے دوران ایجنسیوں کی رپورٹس میں بھتہ خوری کے الزام میں سنی تحریک اور کچھ دیگر اسلامی گروہوں کا نام بھی آیا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ دینی جرائد اس پر مثبت یا منفی رد عمل ظاہر کریں گے لیکن اس حوالے سے کہیں کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
جرائد نےکراچی کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور متفقہ طور پر اسے حکومتی نا اہلی، کراچی میں طاقت کے حصول کے لیے سیاسی رسہ کشی اور امن و امان قائم کرنے کے ذمہ دار اداروں میں سیاسی اثر و رسوخ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ نیز یہ بھی کہا ہے کہ اس صورت حال میں غیر ملکی ہاتھ کا پایا جانا بعید از قیاس نہیں اس لیے دوران تفتیش اس پہلو سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ کراچی کے حالات پر قابو پانے کے لیے فوج کی مداخلت کے بارے میں جرائد میں اختلاف رائے نظر آیا ہے۔ بریلوی مکتبہ فکر کے دو جرائد "سوئے حجاز” اور "منہاج القرآن” فوجی مداخلت کو ہی مسئلے کا حل سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں اس کے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل ممکن نہیں۔ دیوبندی جرائد "بینات” اور "ختم نبوت ” دونوں جرائد نے اس حوالے سے ایک ہی مضمون شائع کیا ہے جس میں فوج طلبی کے حوالے سے کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ جبکہ شیعہ مکتبہ فکر کے "العارف” اور غیر مسلکی جریدے "ندائے خلافت” نے فوجی مداخلت کی مخالفت کی ہے۔
"سوئے حجاز” لکھتا ہے کہ کراچی میں بد امنی کے اسباب میں سے "جو سبب سب سے زیادہ دل کو لگتا ہے وہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم ، پی پی پی اور اے این پی جیسے سیاسی گروپس اپنی اپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کے لیے اس باہمی تصادم اور قتل و غارت گری میں ملوث ہیں۔ یہ تینوں شہر کراچی کو اس سال جولائی اگست اور ستمبر میں ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کے واقعات نے اپنی لپیٹ میں لیے رکھا جس میں ایک اندازے کے مطابق صرف جولائی اور اگست میں ۳۰۰ سے زائد افراد لقمہ اجل بنے ان حالات کے پیش نظر سندھ انتظامیہ نے کراچی کے متاثرہ علاقوں کو رینجرز کے حوالے کر دیا ۔ بعد ازاں بگڑتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری نے ۲۴ اگست کو از خود نوٹس لیا ۔ ۲۶ اگست کو اسلام آباد میں ابتدائی سماعت کے بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں مسلسل گیارہ روز تک سماعت کی۔ عدالت نے ۱۵ ستمبر کو اس سماعت کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو کہ ۶ اکتوبر بروز جمعرات کو سنایا گیا۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران اور اس کے بعد مجرموں کے خلاف کارروائی میں شدت آئی اور حالات میں کچھ بہتری آئی۔ ان حالات میں ملک کے مختلف طبقات کی جانب سے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کی تجویز بھی آئی۔ دینی جرائد نے بھی اس اہم موضوع کو اپنے ادارتی صفحات میں جگہ دی ہے۔ اس موقع پر یہ امر قابل غور ہے کہ کراچی کے کیس کی سماعت کے دوران ایجنسیوں کی رپورٹس میں بھتہ خوری کے الزام میں سنی تحریک اور کچھ دیگر اسلامی گروہوں کا نام بھی آیا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ دینی جرائد اس پر مثبت یا منفی رد عمل ظاہر کریں گے لیکن اس حوالے سے کہیں کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔
جرائد نےکراچی کی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور متفقہ طور پر اسے حکومتی نا اہلی، کراچی میں طاقت کے حصول کے لیے سیاسی رسہ کشی اور امن و امان قائم کرنے کے ذمہ دار اداروں میں سیاسی اثر و رسوخ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ نیز یہ بھی کہا ہے کہ اس صورت حال میں غیر ملکی ہاتھ کا پایا جانا بعید از قیاس نہیں اس لیے دوران تفتیش اس پہلو سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے۔ کراچی کے حالات پر قابو پانے کے لیے فوج کی مداخلت کے بارے میں جرائد میں اختلاف رائے نظر آیا ہے۔ بریلوی مکتبہ فکر کے دو جرائد "سوئے حجاز” اور "منہاج القرآن” فوجی مداخلت کو ہی مسئلے کا حل سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں اس کے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل ممکن نہیں۔ دیوبندی جرائد "بینات” اور "ختم نبوت ” دونوں جرائد نے اس حوالے سے ایک ہی مضمون شائع کیا ہے جس میں فوج طلبی کے حوالے سے کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ جبکہ شیعہ مکتبہ فکر کے "العارف” اور غیر مسلکی جریدے "ندائے خلافت” نے فوجی مداخلت کی مخالفت کی ہے۔
"سوئے حجاز” لکھتا ہے کہ کراچی میں بد امنی کے اسباب میں سے "جو سبب سب سے زیادہ دل کو لگتا ہے وہ یہ ہے کہ ایم کیو ایم ، پی پی پی اور اے این پی جیسے سیاسی گروپس اپنی اپنی سیاسی بالادستی قائم کرنے کے لیے اس باہمی تصادم اور قتل و غارت گری میں ملوث ہیں۔ یہ تینوں جماعتیں بظاہر مفاہمت کی سیاست کی داعی ہیں لیکن در اصل وہ اسی منافقانہ مفاہمت کے نام پر ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے اور ایک دوسرے کو کمزور کرنے میں مشغول ہیں”۔ ان حالات پر قابو پانے کے لیے ممکنہ حل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے "سوئے حجاز” لکھتا ہے کہ، ان حالات پر قابو پانے کے لیے بظاہر دو راستے ہیں، ایک گورنر راج کا نفاذ اور دوسرا فوج کو مدد کے لیے طلب کرنا۔ کراچی کے معروضی حالات کے پیش نظر گورنر راج کسی طور مفید نہیں ہو سکتا، کیوں کہ گورنر تو صدر کا نمائندہ ہو گا اس لیے اس کا غیر جانبدار ہونا مشکل ہے۔ اس کے بعد مسئلے کا واحد حل فوج ہے لیکن یہ ذرا مشکل ہے کیوں کہ ایک لاکھ بیس ہزار فوجی مغربی سرحدوں پر ہیں اور باقی فوج کا بڑا حصہ مشرقی سرحد پر ہے جسے کسی صورت میں بھی خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس مشکل کے باوجود ہماری دانست میں غیر فوجی حل سود مند نہیں اس لیے چاہے محدود مدت کے لیے ہی سہی لیکن فوج کو بلایا جائے جو بلا امتیاز کارروائی کرے[1] ۔
"بینات ” نے وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کراچی میں پکڑا جانے والا اسلحہ اسرائیل سے آرہا ہے، یہ سوال اٹھایا ہے کہ آخر یہ اسلحہ لانے والے اور چلانے والے کون ہیں؟ اور ان کی پشت پناہی کون سی قوتیں کر رہی ہیں۔ تفتیش میں اس پہلو کو بھی مد نظر رکھا جائے، نیز اس صورت حال کے تدارک کی کوشش کے ساتھ ساتھ ایک متحدہ اور متفقہ ٹھوس لائحہ عمل بھی طے کیا جائے ورنہ کراچی کی طرح پورا ملک اس دہشت گردی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ جریدہ لکھتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی دشمن قوتیں پاکستان کو کمزور کرنے اور اس میں انتشار و افتراق پھیلانے میں مصروف ہیں، اور ایسے میں اگر حکومت، سیاسی جماعتوں اور علمائے کرام نے اپنے اپنے دائرے میں اس یلغار کے سامنے بند باندھنے کی کوشش نہ کی تو حالات مزید ابتر ہو سکتے ہیں۔ خصوصا علماء کرام اپنے خطبات میں دینی اخوت، بھائی چارے اور اکرام مسلم جیسے موضوعات کو شامل کریں، اور قتل مسلم کی وعید کے بارے میں آگاہ کر کے آپس کے اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کریں[2]۔
"منہاج القرآن” رقم طراز ہے کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور قتل و غارت کا فوری نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بند ہو گئے ہیں اور سرمایہ دار بڑی تعداد میں ملائیشیا، متحدہ عرب امارات، سری لنکا، نیپال حتیٰ کہ بنگلہ دیش منتقل ہو رہے ہیں۔ اور حکومت اس سارے خونی کھیل میں تماشا بنی ہوئی ہے، اور اپنی ساکھ اور مستقبل بچانے کی خاطر ملک کے کئی اداروں کو تباہ کر چکی ہے۔ جریدہ مزید لکھتا ہے کہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کے ایک مراسلے پر عدلیہ نے سو موٹو ایکشن لیا ہے لیکن اب اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تینوں سیاسی جماعتوں کے زیر اثر پنپنے والے ان مجرموں کی اچھی طرح چھان بین کرے۔ اور اگر عدالت عظمیٰ نے بحالی کے فورا بعد ۱۲ مئی کے واقع پر سوموٹو ایکشن لے کر کارروائی مکمل کر لی ہوتی تو حالات بہت حد تک بہتر ہوتے۔ لیکن ان واقعات کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں تربیت یافتہ غیر ملکی ایجنٹ بھی شامل ہیں۔ اس صورت حال میں فوج ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ اور اگرچہ گنجان آباد شہر میں فوج کی مداخلت سے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں لیکن سوات آپریشن کی طرح بڑے نقصان سے بچنے کے لیے ممکنہ چھوٹے نقصانات برداشت کرنا پڑیں گے۔ معصوم شہریوں کے بے دریغ خون کی قیمت پر سیاست کی جنگ اور مفادات کے کھیل کو اب ختم ہو جانا چاہیے[3] ۔
"العارف” کے خیال میں بھی اس سارے خون خرابے کی ذمہ دار مرکزی و صوبائی حکومت اور تینوں حریف سیاسی جماعتیں پی پی پی، ایم کیو ایم اور اے این پی ہیں ۔ نیز جریدہ لکھتا ہے کہ اس مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے بیرونی مداخلتوں کو ہر گز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کراچی کی اہمیت کے پیش نظر یہ شہر پاکستان کے دشمنوں کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ فوجی مداخلت کے حوالے سے یہ جریدہ سوال کرتا ہے کہ کیا پولیس اور انٹیلی جنس جیسے اداروں کو دیانت داری سے کام کرنے کا موقع دیا گیا؟ اگر یہ ادارے اس کے اہل نہیں تو پھر ا ن کے وجود کا جواز کیا ہے۔ اصل مسئلہ ان اداروں کی سیاسی مداخلت سے تطہیر ہے، ورنہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ فوج کی واپسی کے بعد حالات دوبارہ پہلے جیسے نہ ہو جائیں گے۔ جریدے کے خیال میں افواج پاکستان پر دشمنوں کی نظریں ہیں اور وہ انہیں اس طرح کے معاملات میں الجھانا چاہتے ہیں اس لیے ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے[4]۔
"ندائے خلافت” کراچی کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم ایک اسلامی ملک ہوتے ہوئے اپنے برادر اسلامی ملک افغانستان کے خلاف عالم کفر کے اتحادی بنے۔ پاک فوج اب اس جنگ سے علیحدگی چاہتی ہے لہٰذا شمالی وزیر ستان میں آپریشن سے انکار کر دیا۔ در حقیقت امریکہ کی کوشش ہے کہ افواج پاکستان کو زیادہ سے زیادہ پھیلا یا جائے اور پھر عوام کوا س سے متنفر کیا جائے۔ کراچی میں فوج کی طلبی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہےجس کا مقصد خیبر پختون خواہ کی طرح کراچی اور سندھ کے عوام میں فوج کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہے۔ اس مسئلے کے حل کا ذکر کرتے ہوئے جریدہ رقم طراز ہے کہ ، مستقل اور پائیدار حل تو صرف یہ ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران جو وعدے کیے گئے تھے وہ نبھائے جائیں۔ جبکہ فوری اور عارضی طور پر خونریزی روکنے کے لیے یہ حل تجویز کیا ہے کہ ، کراچی کو کاسموپولیٹن شہر قرار دیا جائے۔ پولیس کو وفاقی اور صوبائی سطح کے سیاسی رہنماؤں کے تسلط سے مکمل آزاد کر دیا جائے، جو کوئی کسی مجرم کی سفارش کرے اسے بھی شامل تفتیش کیا جائے، شہر کی سطح پر خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں جو صرف ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے مقدمات نمٹائیں اور پولیس چالان مکمل کرنے اور عدالتی کارروائی کے لیے وقت محدود کر دیا جائے۔ سزائیں سر عام دی جائیں تا کہ عبرت ہو، سی آئی اے کا ملک سے صفایا کیا جائے اور امریکی قونصل خانے کی نقل و حرکت کو محدود کیا جائے۔ یہ اقدامات اگر فوری طور پر اٹھائے جائیں تو وقتی طور پر امن قائم ہو سکتا ہے لیکن مکمل، مستقل اور پائیدار حل وہی نسخہ کیمیا ہے جس کا آغاز غار حرا سے ہوا تھا [5]۔
جواب دیں