مباحث، جولائی ۲۰۱۱ ء
کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں نوجوان کا قتل
۸ جون ۲۰۱۱ء کو کراچی میں واقع بے نظیر پارک کے قریب رینجرز نے ایک نوجوان سرفراز شاہ کو قتل کر دیا۔ اس واقعہ کی ویڈیو نشر ہونے کے بعد ذرائع ابلاغ اور عوامی حلقوں میں رینجرز کے خلاف سخت رد عمل سامنے آیا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس واقعے کا از خود نوٹس لیا اور فوری طور پر ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ پولیس کو برطرف کرنے کا حکم جاری کیا۔ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے تفتیشی ٹیم تشکیل دی جا چکی ہے ۔
دینی جرائد میں سے صرف "ندائے خلافت” اور "ضرب مؤمن” میں اس واقعہ کو جگہ دی گئی ہے۔ "ضرب مؤمن” لکھتا ہے کہ نوجوان کو گولیاں مارنا اور اس کے بعد اس نوجوان کو تڑپتے چھوڑ دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ قاتل اور اس کے رفقاء عادی مجرموں کی صف میں آتے ہیں، جبھی اتنا بڑا ظلم ڈھاتے ہوئے ان کے ماتھے پر شکن تک نمودار نہ ہوئی۔ ایسے میں عدلیہ اور عسکری قیادت کی ذمہ داری کئی گناہ بڑھ جاتی ہے کہ ایسی تمام گندی مچھلیوں اور کالی بھیڑوں کو نکال باہر کریں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی نظر رکھی جائے کہ اس طرح کے واقعات کو دشمن عناصر افواج اور دیگر عسکری اداروں کے خلاف استعمال سکتے ہیں ۔ "ندائے خلافت” میں جاوید چوہدری نے لکھا ہے کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ سرفراز شاہ مجرم تھا اور اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تھی لیکن کیا اس کے باوجود کوئی مہذب معاشرہ اس طرح سر عام قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ ۔ ہم کس قدر سنگ دل ہو گئے ہیں کہ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی معمول کی زندگی گزار رہے ہیں اور پھر خود کو انسان بھی کہتے ہیں[10]۔
جواب دیں