مباحث جولائی ۲۰۱۰ ء
وفاقی حکو مت نے مالی سال ٫۲۰۱۰ ، ٫۲۰۱۱ کے لیے ۲۳ کھرب ۵۹ ارب روپے کا قومی بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا جبکہ اس بار بجٹ کا خسارہ ۶۸۵ ارب روپے ہے ۔ ہفت روزہ دینی جرائد نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے اس کے مثبت اور منفی پہلوؤ ں کو اجاگر کیا ہے ۔ البتہ ماہانہ جرائد میں آئندہ ما ہ تبصر ے اور تجزئیے شائع ہونے کی توقع ہے ۔
"ختم نبوت” اس ضمن میں لکھتا ہے "دوسرے ملکوں میں بجٹ سے عوام کو بہت سی امیدیں وابستہ ہو تی ہیں کیونکہ انہیں ریلیف دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں لوگ بجٹ آنے سے پہلے ہی خوفزدہ ہو جا تے ہیں کیونکہ انہیں ریلیف کی بجائے ےتکلیف میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ….. سبھی جانتے ہیں کہ ہمارا وفاقی بجٹ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی ہدایات کے مطابق تیار ہوتا ہے ،اس لیے یہ بجٹ الفاظ کاگھورکھ دہندا ہے جس میں مراعات یافتہ طبقے کو نوازا گیا ہے۔ حکومت عوام کو ریلیف دینے میں ناکام ہو چکی ہے ۔”[15]
"الاعتصام”ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ کو مؤ خر کیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے "ویلیوایڈڈ ٹیکس کے نفاذ میں تاخیر غور وفکر کے اس پہلو کو نمایاں کر گئی کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی طرف سے ہے ،اور اس ٹیکس کا نفاذ تو ہو گا لیکن جب عوام کے اس بجٹ کے لگائے گئے زخم قدرے بھر چکے ہو ں گے۔” بجٹ کے مثبت پہلو کا ذکر کرتے ہوئے جریدہ لکھتا ہے "سرکاری ملازمین کی تنخواہو ں اور پنشن میں اضافہ خو ش آئند ہے لیکن اگر اس کے مقابلے میں حکومت اشیائے صرف کی قیمتو ں میں کمی کرتی اور انہیں ہر فرد کی پہنچ میں لے آتی تو یہ زیاد ہ بہتر تھا۔”نیز جریدے نے وفاقی وزراء کی تنخواہ میں کمی کو ناکافی اور ایوا ن صد ر اور وزیر اعظم کے اخراجا ت میں اضافے کو غیر ضرور ی اور عوام پر بوجھ قرار دیا۔[16]
"ضرب مؤمن "بجٹ پیش کیے جانے کے وقت کے دیگر اہم واقعات ( جن کے باعث بجٹ پرمیڈیا کی پوری توجہ مرکوز نہ ہوسکی) کا ذکر کرتے ہوئے لکھتاہے "موجودہ بجٹ ایسے حالات میں پیش ہو ا ہے کہ میڈیا کی اکثر توجہ ” سائیکلون پیٹ "اور قادیانی عبادت گا ہ پر حملے کی کوریج میں مشغول تھی، گورنر اسٹیٹ بنک سلیم رضا کا استعفیٰ بھی بجٹ کے حو الے سے کو ئی کم اہم واقعہ نہ تھا لیکن میڈیا کی بھرپو ر توجہ نہ ہو نے کی وجہ سے بڑے بڑے واقعات بھی حکومت کے لیے کو ئی بڑا مسئلہ پیدا نہ کر سکے ….. یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ بجٹ میں ہر طبقے کو مطمئن کر نا ممکن نہیں ہوتا لیکن اس بات پر بھی ہر طبقے کا اتفاق ہے کہ بجٹ عوام دوست ،غریب پرور اور معاشی اور سیاسی استحکام کی جانب ایک قدم ہونا چاہیے ۔”[17]
توانائی کا بحران
ملک میں توانائی کا بحران جاری ہے اور حکومتی دعووں، کوششوں اور عوامی احتجاج کے باوجو د بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔ متعدد دینی جرائد نے توانائی کے بحران پر اظہار خیال کیا ہے جس میں اس بحران کے اسباب اور حل کے لیے تجاویز دی گئی ہیں ۔
ہفت روزہ ” اہلحدیث” لکھتا ہے کہ ” بجلی کے بحران پر قابوپانے کے لیے ایڈہاک ازم کی بجائے مستقل حل نکالنا ہوگا ۔اس مقصد کے لیے کالا باغ ڈیم سمیت مختلف ڈیمز اور دیگر وسائل بروئے کا ر لائے جائیں ، اور پنجاب کے علاوہ باقی تین صوبو ں میں بجلی چوری پر قابو پانا ہوگا” جریدے نے دعویٰ کیا کہ پنجاب پیپکو کو ۲۶ ارب کا ریونیو دیتا ہے جبکہ باقی تین صوبے چار ارب کا سالانہ ریونیو دیتے ہیں اس کا مطلب باقی صوبے بجلی کا بل ادا نہیں کرتے بلکہ چوری کا ارتکاب کرتے ہیں "، جریدے نے مزید کہا کہ ” کالا باغ ڈیم پر پابندی مشرف نے نہیں بلکہ مو جودہ حکومت نے عائد کی ہے ….. ایران اور چین کی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے ان سے کم قیمت پر بجلی لینی چاہیے۔”[18]
حکومت کی طرف سے توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے منعقد کی گئی تین روزہ توانائی کانفرنس کے بعد کچھ اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا جن میں ہفتے میں دو چھٹیاں ، مارکیٹیں شام ۸ بجے بند کرنے اور سرکاری دفاتر میں ۱۱ بجے سے پہلے اے سی نہ چلانے وغیرہ جیسے فیصلے شامل تھے ۔ ” کاروان قمر ” نے اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے ان کو غیرمستقل او ر ناپائیدار حل قرار دیا ۔جریدہ لکھتا ہے ” اس مسئلے کا مستقل حل کالاباغ ڈیم کی تعمیر ہے ، جو حکمران یہ کارنامہ کر گزرے وہ رہتی دنیا تک قوم کا محسن کہلائے گا ۔اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ کالا باغ ڈیم ہماری لاشوں پر بنے گا ، ملک اور قوم کے مفاد اور محبت سے ان کے دل خالی ہیں۔ "[19]
"افتخار العارف” نے اس ضمن میں ایک مضمون شائع کیا ہے ۔ مضمون نگار کے خیا ل میں موجودہ حکومت نے بحران پر قابو پانے کے لیے سوائے وعدوں کے کچھ نہیں کیا ۔ مضمون نگا ر نے اس بحران کے حل کے لیے قلیل مدتی (short term )اورطویل مدتی (long term) اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں ” قلیل مدتی منصوبہ بندی کے تحت ملک میں موجود تھرمل پاو ر پلانٹس کو ادائیگیا ں کی جائیں ، بجلی کی کھپت بڑھا ئی جائے اور ایران اور چین سے بجلی کے حصول کا فوری انتظام کیا جائے ۔۔اور طویل مدتی منصوبہ بندی میں ملک میں ڈیموں کا جال بچھا یا جائے جس سے کم نرخو ں پر بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ "[20]
"ضرب مؤمن "نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ غیر مفید اور متنازعہ فیصلوں کی بجائے ایسے فیصلے کرے جن میں منفی ردعمل کا امکان نہ ہو ،جریدہ لکھتا ہے "قوم اپنے تئیں بجلی کی بچت کا اہتما م کرے اور اہل اقتدار مسرفانہ استعمال کو ترک کرتے ہوئے بجلی کمپنیوں کے سابقہ واجبات کی فوری ادائیگی کا بندوبست کریں۔”[21]
جواب دیں