مباحث جولائی ۲۰۱۰ ء
اٹھارویں آئینی ترمیم
اٹھا رویں آئینی ترمیم کے حو الے سے دینی جرائد کی آرا ءکا تجزیہ "مباحث” کے گزشتہ شمارے (مئی ۲۰۱۰ء) میں تفصیلا ً پیش کیا گیا ۔ دینی جرائد نے اس با ر بھی اس اہم مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے جس میں تنقید کے ساتھ ساتھ تحسین کا پہلو بھی کسی حد تک موجود ہے ۔ اس ترمیم کے اہم نکات میں صدر سے قومی اسمبلی توڑنے کے اختیا ر کا خاتمہ ،تیسری بار وزارت عظمی پر لگی پابندی کا خاتمہ، صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی، صوبوں کو اختیارات کی منتقلی، کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ، آئین توڑنے کو بغاوت قرار دیا جانا، ، اور عدلیہ میں ججوں کی تقرری کے اختیارات وغیرہ شامل ہیں ۔دینی جرائد کی آرا ء کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۔
اس آئینی ترمیم کے حوالہ سے جو پہلو تقریباًتمام نقطہ ہائے نظر میں مشترک نظر آتے وہ یہ ہیں :
دینی جرائد میں سے بیشتر نے اس ترمیم کو سیاستدانوں اور حکمرانوں کے مفادات کا محافظ قرار دیا ہے، ان کے خیال میں اس سے عوام کی بھلائی کی کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ جرائد کا خیال ہے کہ عوام کے اہم مسئلے بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن، لوڈ شیڈنگ اور بد امنی ہیں جن کے سد باب کے لئے اس ترمیم میں کوئی اقدام تجویز نہیں کیے گئے۔ تیسری بار وزیر اعظم بننا، اٹھاون ٹوبی کا خاتمہ، ججوں کی تقرری یا اس طرح کے دیگر مسائل صف اول کے سیاستدانوں کے آپس میں ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کے سوا کچھ نہیں۔[1]
اٹھا رویں ترمیم پر تبصرہ کرتے ہوئے دینی جرائد میں جو دیگر قابل ذکر نکات سامنے آئے وہ یہ ہیں:
جریدہ "ضیائے حرم” نے اس ترمیم پر صدر، وزیر اعظم ، میاں نواز شریف اور دیگر سیاسی پارٹیوں کی قیادت کو ہدیہ تبریک پیش کیا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ صرف آئین کی بحالی سے مسائل حل نہیں ہوتے کیوں کہ تلوار کتنی ہی تیز دھار کیوں نہ ہو جب تک استعمال کرنے والے ہاتھ میں مہارت نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پی پی پی کے بانی وزیر اعظم کے دور میں آئین موجود تو تھا لیکن عوام پھر بھی ضروریات زندگی کے لئے لمبی لمبی قطاروں میں کھڑے رہتے تھے۔ آئین کی بحالی اگرچہ مستحسن قدم ہے لیکن اصل کام مسائل کو حل کرنا ہے۔ "[2]
ماہنامہ "صحیفہ اہلحدیث” اس ترمیمی بل پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "اس ترمیم میں وہ مسائل ہیں جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں۔ اختیارات صدر کے پاس ہوں یا وزیر اعظم کے پاس، دوسری بار وزیر اعظم بنے یا تیسری بار، جج ایک طریقے سے مقرر ہوں یا دوسرے سے، چینی مہنگی رہے گی، بدامنی موجود رہے گی، بجلی اور گیس مفقود رہے گی، مہنگائی ہو گی جہالت عوام کا مقدر ہو گی ،لہذا اس سے عوام کے کسی فائدے کی امید نہیں رکھی جا سکتی …..کاش اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اگر واقعی اسلام نافذ ہوتا تو نہ اس میں ترامیم کی ضرورت ہوتی اور نہ اختیارات کی منتقلی کی۔”[3]
ماہنامہ ’’الخیر‘‘ نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ” تاحال ایسی شقیں موجود ہیں جن کا دینی نقطہ نظر سے خاتمہ ضروری تھا ۔ ان میں مخلوط طریقہ انتخاب اور خواتین کے لئے ۳۳ فیصد نشستیں مخصوص کرنے کے اقدامات شامل ہیں۔ اور اب یہ مذہبی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ ان شقوں کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔”[4]
سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کی شرط کے خاتمے کے حوالے سے ماہنامہ "الاعتصام” نےلکھا کہ”جن سیاسی قائدین نے اپنی پارٹیوں سے جمہوریت کود یس نکالا دے دیا ہے وہ ملک میں جمہوریت کی نمو کیا کریں گے۔”[5]
- ترمیم کی دوشقو ں صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی اور ججوں کی تقرری کے معاملہ پر بہت سے حلقوں کی جانب سے تحفظات سامنے آ ئے ہیں ،دینی جرائد نے بھی ان موضو عات کو اہمیت کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔
ماہ نامہ "نوید سحر” لکھتا ہے کہ” تریسٹھ سال پہلے سرحد کی غیور عوام نے گاندھی کے اس منصوبے کو مسترد کر کے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا اور مسلم لیگ اور تمام مسلمانوں نے پختونستان کے بجائے پاکستان کو ترجیح دی تھی آج اسی مسلم لیگ نے صوبہ سرحد کے باسیوں، اپنی پارٹی اور قائد اعظم سے غداری کرتے ہوئے اپنے مفادات کی خاطر اسلامی روح کے منافی اور ہندو بنئے کی چاہتوں کے آئینہ دار نام قبول کر کے اپنے آپ کو سیاسی موت مار دیا ہے۔” جریدے کے خیال میں مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو اس وقت غیرت ملی کا ثبوت دیتے ہوئے کردار ادا کرنا چاہیئے اور انیسویں ترمیم کے ذریعے اس کے خلاف آواز اٹھانا چاہیے ۔ [6]
ماہنامہ "سوئے حجاز”کےخیا ل میں یہ دو مسائل انتشار کا سبب ہیں، ایک طرف حکومت اور عدلیہ کے مابین تصادم کا خطرہ ہے اور دوسری جانب صوبہ ہزارہ کی تحریک، اور پھر اس تحریک کے نتیجے میں صوبہ پنجاب میں سرائیکی صوبے کی تحریک میں بھی جان پڑ رہی ہے”۔ جریدہ لکھتا ہے ” اگرچہ صوبہ ہزارہ کا مطالبہ جائز ہے لیکن بد قسمتی سے یہ مطالبہ انتظامی نہیں لسانی ہے جو کہ درست نہیں…..نیز یہ کہ اگر صوبے کے اندر صوبوں کا قیام شروع ہو گیا تو یہ سلسلہ پھر رکے گا نہیں، اور ملک اس وقت نئے صوبوں کے بھاری بھرکم اخراجات کا بوجھ اٹھانے کامتحمل نہیں۔”اس صورت حال سے نکلنے کے لیے جریدے نے حسب ذیل تجاویز دی ہیں۔
- جو خطے الگ صوبے کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کی محرومیوں کو دور کیا جائے اور وسائل کی بین الاضلاع فراہمی کو ترجیحی بنیادوں پر شفاف بنایا جائے۔
- صوبائی اختیارات کو ممکنہ حد تک ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کو منتقل کیا جائے تا کہ انتظامی دشواریوں سے بچ کر مسائل فوری حل ہو سکیں۔
- پارلیمنٹ صوبہ سرحد کے نام کی تبدیلی والے حصہ پر نظر ثانی کرے اور ایسا نام تجویز کرے جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔
- عدلیہ کے ساتھ امکانی تصادم سے بچنے کے لئے افہام و تفہیم کا راستہ نکالا جائے، کیوں کہ اگر یہ تصادم ہوتا ہے تو اس کا عذاب تادیر بھگتنا پڑے گا۔[7]
ماہنامہ "منہاج القرآن” نے اس ترمیم کو اس حوالے سے تو سراہا ہے کہ اس کے بعد آمریت کا راستہ بند ہو گیا اور تمام سیاسی پارٹیوں کے اتفاق کو بھی خوش آئند کہا ہے لیکن جریدے کے خیال میں اس سے کچھ حساس مسائل نے بھی جنم لیا ہے۔ جریدہ لکھتا ہے ” سب سے خطرناک اور حساس مسئلہ جو اس ترمیم کے بعد سامنے آیا ہے وہ خیبر پختونخوا کا خونی رد عمل ہے۔اس لیے ایسا نام رکھنا چاہئے تھا جس پر تمام فریق متحد ہوتے اور کچھ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ایک بڑی تعداد کی دل آزاری نہ ہوتی۔”[8]
جواب دیں