مباحث جولائی ۲۰۱۰ ء
فيس بك پر گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ
امریکہ کی ایک خاتون کارٹونسٹ مولی نورس نے ۲۰ مئی۲۰۱۰ء كو”Every Body Draw Muhammad Day” كے عنوان سے معروف سماجی ویب سائٹ فیس بک پر پیغبر اسلام ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کےمقابلے کا اہتمام کیا۔ اس مقابلے کے لئے کم و بیش ۱۲ہزار افراد نے رجسٹریشن کروائی ۔ اس کے بعد مسلم دنیا کی جانب سے شدیدرد عمل سامنے آیا اور بطور خاص پاکستان میں یہ احتجا ج کئی دن جاری رہا ، بعد ازاں عوامی رد عمل اور اسلامک لائر فورم کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر لاہور ہائی کو رٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے ۲۰ سے ۳۰ مئی تک فیس بک ،یوٹیوب سمیت کئی ویب سائٹس بلاک کرنے کا حکم دیا۔ دینی جرائد نے اس گستاخانہ حرکت کی شدید مذمت کی۔ سوائے شیعہ کےتقریبا تمام ہی مکاتب فکر کے جرائد نےاداریے میں اس موضوع کو جگہ دی۔ عالم اسلام کی طرف سے جس بھر پو ر ردعمل کا اظہار گیا ہے جرائد نے اس کو سراہا ہے۔ اور پاکستان کی جانب سے سب سے پہلے لگائی جانے والی پانبدی کو بھی احسن قدم قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے جرائد کی رائے میں یکسانیت کا عنصر بآسانی محسوس جا سکتا ہے۔
بحیثیت مجموعی بیشتر جرائد کےخیال میں یہ احتجاج اور محدود پابندی کافی نہیں بلکہ اس مسئلے کا مستقل اور اصل حل یہ ہے کہ اسے عالمی فورم پر اٹھایا جائے ، اور اقوام متحدہ میں ایسی قانون سازی کی کوشش کی جائے جس کی رو سے کسی بھی پیغمبر کی شان میں اس طرح کی گستاخی قانونا ًجرم قرارپائے اور اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اس طرح کی حرکت کی قطعا ًاجازت نہ ہو۔ نیز پاکستان کی جانب سے صرف دس دن کے مقاطعے سے فیس بک کو لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔ اگر اسی طرح مسلمان ان کی تمام مصنوعات اور ویب سائٹس کا مقاطعہ کر دیں تو وہ اس طرح کی تمام حرکات سے باز آ جائیں گے۔ نیز پاکستانی عدلیہ کی طرح دیگر اسلامی ممالک کی عدلیہ کو بھی بھرپور انداز سے اپنے فرائض سرانجام دینے چاہییں۔[39]
منفرد آرا٫ کے لحاظ سے جائزہ لیاجائے تو ہفت روزہ "ندائے خلافت” اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "تمام تر وسائل کے باوجود ہم اس قدر بے وقعت کیوں ہو گئے ہیں کہ اعدائے اسلام عسکری، تہذیبی اور فکری یلغار کے بعد اب براہ راست ہمارے ایمان پر ڈاکے ڈالنے لگے ہیں”۔ جریدے کے خیال میں اس کا واحد سبب دنیا پرستی اور اسلامی شریعت سے انحراف ہے اور اسلامی طرز حکومت” خلافت "کی عدم موجود گی ہے جو کہ اسلام کی شان و شوکت کا مظہر ہے۔”[40]
ہفت روزہ "اہلحدیث” اداریے میں رقم طراز ہے کہ "گستاخی کی مرتکب سائٹس کا بائیکاٹ پہلا مرحلہ ہے لیکن اگر انٹر نیٹ پر بھی پابندی لگانی پڑے تو لگا دی جائے کیوں کہ یہ چیزیں ہمیں ہمارے نبی ﷺ کی محبت اور ذات گرامی سے زیادہ عزیز نہیں ہیں۔”[41] پندرہ روزہ "صحیفہ اہلحدیث” ایک دوسرے زاویہ کو سامنے لاتے ہوئے لکھتا ہے ” ان خاکوں کی اشاعت کا مقصد نعوذ باللہ نبی کریمﷺ کو شدت پسند دکھانا ہے تاکہ لوگوں کو اسلام سے متنفر کر سکیں، لہذا اس کا حل یہ نہیں کہ بینر لگائے جائیں اور سڑکیں بلاک کی جائیں، بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ یوٹیوب یا فیس بک کے مقابلے کی ویب سائٹ بنائی جائیں یا دستیاب ویب سائٹس پر رسولﷺ کا وہ امیج اجاگر کیا جائے جو رحمت للعالمین ﷺکا ہے۔ جس میدان میں دشمن آیا ہے اس میدان میں مقابلہ کریں، نیٹ کا مقابلہ سڑکوں پر نہیں ہوتا۔”[42]
ہفت روزہ "ضرب مؤمن” حالیہ گستاخانہ خاکوں اور مغرب کی جانب سے دیگر شعائر اسلام کی توہین کے حوالے سے لکھتا ہے کہ” فیس بک پر پابندی اگرچہ ایک احسن اقدام ہے لیکن اس کا مستقل حل مسلمانوں کی طرف سے شعائر اسلام کی پابندی ہے۔ جس دن ہم شعائر اسلام پر مکمل عمل پیرا ہو گئے وہ دن ان گستاخوں کی بد ترین شکست کا دن ہوگا۔”[43]
ماہنامہ "دعوت تنظیم الاسلام” لکھتا ہے کہ” گستاخانہ خاکوں کی اشاعت صلیبی جنگ کا حصہ ہے، اور اس کا حل صرف فیس بک کو بلاک کرنا نہیں ہے بلکہ اس سلسلے کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے۔ اور اگر اس طرح کی گستاخیاں نہ رکیں تو ڈیڑھ ارب آبادی کا ہر کلمہ گو غازی علم الدین اور عامر چیمہ بننے کو بیتاب ہے۔”[44] ماہنامہ "سوئے حجاز” لکھتا ہے کہ” او آئی سی اپنا ہنگامی اجلاس طلب کرے اور اتفاق رائے سے اقوام متحدہ پر دباؤ ڈال کر بین الاقوامی سطح پر توہین رسالت کو ناقابل معافی جرم قرار دلوائے۔ جب ہولو کاسٹ پر بات کرنا اس کا مذاق اڑانا یا اسے مسترد کرنا جرم ہے تو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کیا اتنا حق بھی نہیں رکھتے کہ ان کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کیا جائے؟ جانوروں کے حقوق کی محافظت کے داعیان آخر کیوں اتنے انسانوں کو اذیت دینے پر تلے ہوئے ہیں۔”[45]
جواب دیں