مباحث جنوری ۲۰۱۱ ء
مہنگائی
اشیائے صر ف کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی میں کافی حد تک اضافہ ہوچکاہے ، بجلی ، گیس ، تیل سمیت بنیادی استعما ل کی اکثر اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے عوامی سطح پر بھی بے تابی میں اضافہ ہو رہا ہے اور مجموعی طور پر یہ تاثر پختہ ہورہا ہے کہ حکومت مہنگائی قابو کرنے میں ناکام ہوچکی ہے ۔ دینی جرائد اس حوالے سے حکومت پر تنقید کرتے رہتے ہیں اور وہ وسائل کی قلت سے زیادہ حکومتی اخراجات کی زیادتی کو مہنگائی کا باعث سمجھتے ہیں ۔
پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے کے حو الے سے "ضرب مومن ” نے اداریہ تحریر کیا ہے ۔ جریدہ لکھتا ہے "پٹرول کی قیمتیں بڑھانا منی بجٹ پیش کرنے کے مترادف ہے کیونکہ اس سے تما م صنعتوں کے دیگر اخراجات میں اضافہ ہو گا جس سے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جو بالآخر عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا …. ہمارے ہاں بے روزگاری ، تنخواہوں میں کمی اور سہولیات کا فقدان ذرا سی مہنگائی بھی ناقابل برداشت بنا دیتے ہیں ۔ عوام حکومت اور مختلف مافیاؤں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہیں اور اس کی وجہ حکومت کا ٹھوس منصوبہ بندی سے گریز ہے ۔”[27] ہفت روزہ” اہلحدیث ” اپنے تبصرے میں لکھتا ہے "مہنگائی کا یہ عالم اُس حکومت کے دور میں ہورہا ہے جو بہترین آمریت پر بدترین جمہوریت کو ترجیح دیتی ہے اور جس کا نعرہ روٹی کپڑا اور مکان تھا ،لیکن اب یہ نظریہ ” جئے بھٹو ……..رج کے لٹو” میں بدل چکا ہے …..ملک میں وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن ان سے استفادے کے لیے کرپٹ نہیں صالح اور عادل حکمرانوں کی ضرورت ہے ۔”[28]
"نوائے اسلام ” شذرے میں لکھتا ہے کہ ” ایسا لگتا ہے کہ ملک میں ہر چیز کا کنٹرول مافیا کے ہا تھوں میں ہے اور ا ن پر قابو پانا حکومت کے بس میں نہیں …. اور اگر حکومت کہتی ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے تو ان کی بات پر یقین کرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ حکومت تین سال سے عوام سے اتنقام ہی تو لے رہی ہے ۔ اس تین سالہ دور میں سوائے کرپشن کے ہر چیز زوال پذیر ہے ….. مہنگائی کے مسئلے پر اپوزیشن کا کردار بھی مایوس کن ہے وہ دیگر معاملات پر تو لانگ مارچ کی دھمکیاں دیتی ہے مگر مہنگائی جیسے عوامی مسئلے پر احتجاج صرف بیان تک محدود رہتا ہے ۔”[29]
"ندائے خلافت "عوام کے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے "اس ملک کے حکمرانوں نے جموریت کے نا م پر عوام کو غلام بنالیا ہے اور ان پر زندگی اس قدر تنگ کر دی ہے کہ غریب تو غریب کہ وہ خودکشیاں کر کے اپنے تئیں زندگی کی مصیبت سے نجات حاصل کر رہے ہیں ، متوسط طبقہ بھی مایوسیوں اور محرومیوں کی اتھا ہ گہرائیوں میں گرتا چلا جارہا ہے ۔ حکومت عوام دشمن کے روپ میں کبھی عوام پر بجلی بم ، کبھی پٹرول اور کبھی گیس بم گرا رہی ہے ۔”[30]
” الخیر ” حکومت سے شکایت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ” عوام نے ۱۸ فروری ۲۰۰۸ کے انتخابا ت میں اور حکومت کو اس لیے منتخب کیا تھا کہ وہ اسے مشر ف کی پالیسیوں اور غربت و مہنگائی اور دیگر مسائل سے نجات دلائے گی لیکن یہ حکومت ان توقعات پر پوری نہیں اتری بلکہ جرنیلی آمریت کے پیدا کردہ مسائل اور زیادہ گھمبیر اور تلخ ہو گئے ہیں، اور عوام خود کشیوں پر مجبور ہوگئے ہیں ، خود کشیوں کا یہ بڑھتا ہوا رجحان جمہوری حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔”[31]
جواب دیں