مباحث جنوری ۲۰۱۱ ء
مزاراتِ اولیاء پر خود کش حملے
دہشت گر دی کے خلاف جاری جنگ کا حصہ بننے کے بعد سے پاکستا ن کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔ پاکستان میں فوج اورپولیس کے مراکز، عوامی مقاما ت ، غیر ملکی کونصل خانےاور حتی ٰ کہ مساجد اور مزارات بھی دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ بنے۔مزارات پر خود کش حملو ں کے حالیہ واقعات میں یکم جولائی ۲۰۱۰ ء کو [11] لاہور میں داتا دربار پر خودکش حملہ ، ۷ اکتوبر ۲۰۱۰ کو کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حملہ اور ۲۵ اکتوبر ۲۰۱۰ء کو پاک پتن میں بابا فرید گنج شکر کے مزار پرحملہ شامل ہیں ۔ دینی جرائد اس حوالے سے اپنی آرا ء کا اظہار تواتر کے ساتھ کرتے آئے ہیں ۔ رواں دوماہی میں بریلوی اور شیعہ جرائدنے مزارات اولیاء پر ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کو موضوع بحث بنایا ہے ۔ کراچی میں جاری ہدفی قتل ( ٹارگٹ کلنگ) کے واقعات پر بھی ایک جریدے کا تبصر ہ سامنے آیا ہے ۔
بریلوی جریدہ ماہنامہ ” ضیائے حرم ” اور "نوید سحر” نے مزارات پر حملوں کو اہل سنت (بریلوی مسلک ) کے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے ، جرائد اس بات پر متفق ہیں کہ مزارات پر حملے کی ذمہ داری انہی لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو ان مزارات پر حاضری کو شرک وبدعت گردانتے ہیں ۔” ضیائے حرم "لکھتا ہے "یہ حملے دشمنان ِ دین ووطن کی جانب سے غداری کا نیا طریقہ ہے جو اہل تصوف پر حملے کرکے ملک میں اضطراب کی کیفیت پیدا کر کے ملک کے امن وسکون کو برباد کرنا چاہتے ہیں ۔ جو لوگ مزارات پر حاضری کو شر ک وبدعت گردانتے ہیں وہ افغان طالبان نہیں ۔۔۔۔ خودہمارے ملک کے فرقہ پرست ہیں "[12] جریدے نے ملکی ایجنسیوں کو مور د الزام ٹھیراتے ہوئے لکھا کہ "آپ کا لگایا ہوا پودا اب توانا ہو گیا ہے اس کی کانٹ چھانٹ بھی آپ کی ذمہ داری ہے، اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں ، اپنے دفاعی اداروں کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور جہاں جہاں منفی رجحانات رکھنے والے عناصر موجود ہیں ان سے فورسز کو پاک کریں ۔”۔ "نویدسحر ” نے حکومت پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بات کا کھوج لگائے کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ۔ کیا یہ لوگوں کو مزارات پر حاضری سے روکنا چاہتے ہیں ؟ یا ان کا مقصد روپے پیسے کاحصول ہے ؟” جریدے نے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔[13]
شیعہ جریدہ ” افکارالعارف "مزارات پر حاضری کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے "ان مقدس مزارات پر حاضری ہمارا کلچر ، ہمارا معمول زندگی ، ہمارا طرز معاشرت اور ہمارے تمدن کاقدیم حصہ ہے ، ہم اس سے کسی صورت چھٹکارہ نہیں پاسکتے…..عقیدت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا ،چاہے کسی کو اچھا نہ لگے”۔ جرید ہ مزارات پر دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے "مزارات پر حاضری دینے والوں کو نشانہ بنانے والے دراصل طاغوت کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں ۔ پاکستان میں آج کل زی اور بلیک واٹر کا شہر ہ ہے، حالات کے عمیق جائزے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ القاعدہ اور اس کے ساتھ منسلک تکفیری گروہ ہی درحقیقت بلیک واٹر ہیں ۔استعماری طاقتیں ایسے گروہوں کو مستحکم کرتی ہیں جو اس طرح کی کارروائیاں کرتے ہیں القاعدہ ، طالبان اور ان سے منسلک گروہ یہی کا م تو کر رہے ہیں۔”[14] "نوائے اسلام ” لکھتا ہے کہ ” جو کوئی بھی یہ گھناؤنا فعل کر رہا ہے وہ ملک ہی نہیں اسلام کا بھی دشمن ہے ، دہشت گر دی میں ملوث ان عناصرکو کون نہیں جانتا ، مگر حکومت نہ جانے کیوں ان دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی ۔ جہاں ان مزارارت کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے وہیں ان مزارات کو نقصان پہنچانے والوں کو بے نقاب کر نا بھی حکومت کافرض ہے ۔”[15]
دہشت گردی کے دیگر واقعات میں کراچی میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے "اہلحدیث”نے اداریہ تحریر کیا ہے ۔ جریدہ لکھتا ہے ” کراچی کے موجودہ سنگین حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی طاقتیں پاکستان کو مزید عدم استحکام اور کٹھن مسائل سے دوچار کرنا چاہتی ہیں ۔لیکن مقام افسوس ہے کہ پیپلزپارٹی ، ایم کیو ایم اور اے این پی جو مرکز اور صوبے میں شریک اقتدار ہیں وہ اپنے مفادات کی خاطر مجرموں کو پکڑنے اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے میں مجرمانہ کوتاہی کی مرتکب ہورہی ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی ودینی جماعتوں سے مشاورت کے بعد اس مسئلے پر ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔”[16]
جواب دیں