مباحث جنوری ۲۰۱۱ ء
قانون انسدادِ توہین رسالت میں تبدیلی کا مطالبہ
صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب کی رہائشی عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والی توہین رسالت کی مبینہ ملزمہ آسیہ کو شیخوپورہ کی مقامی عدالت کی طرف سے ۸ نومبر ۲۰۱۰ ء کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵سی[1] کے مطابق سزائے موت سنائے جانے کے بعد قومی سطح پر بعض حلقوں کی جانب سے اس قانون میں ترمیم کا مطالبہ سامنے آیا ہے ۔ اگرچہ یہ مطالبہ اقلیتی برادری کی طرف سے کیاگیا ہے تاہم بعض سیکولر سوچ کے حامل مسلمانوں کی طرف سے بھی اس مطالبے کی تائید کی گئی ہے اخباری اطلاعات کے مطابق حکومت نے اس سلسلے میں غور وفکر کرنے کے لیےمشاورت کاسلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔آسیہ کو سزا سنائے جانے کے بعد گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ان کی سزا معافی کے لیے کافی جدوجہد کی اور صدر پاکستان کو اس سزا کو کالعدم قرار دینے کے لیے بھی کہا ،تاہم مذہبی حلقوں کی طر ف سے آسیہ کی سزا کی معافی اور اس ضمن میں توہین رسالت ایکٹ میں ترمیم کی ہر طرح کی کوششوں کی بھر پو ر مزاحمت کا عندیہ دیا گیا ، ملک بھر میں اس ممکنہ تبدیلی کے خلاف جلسے جلوس اور ریلیاں منعقد کی گئیں جن میں آسیہ کیس میں عدالت پر غیر ضروری طور پر اثرانداز ہونے کی کوششوں کی مذمت اور مذکورہ قانون کو اپنی حالت پر بر قرار رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ،اوراس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کرنےکے عزم کا اظہار بھی کیا گیا ۔ داخلی اختلافات کے باوجود تمام دینی جرائد کی رائے اس حوالے سے کافی یکساں نظرآتی ہے ۔ جرائد کے خیال میں آسیہ بی بی کو بالائی عدالتوں میں رجوع کا حق حاصل ہے ، تاہم اس جرم کی معافی کسی فرد ( اس سے قطع نظرکہ اس کی حیثیت کیا ہے ) کے اختیار میں نہیں ۔توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کا ایجنڈا مغرب سے آیا ہے اس لیے اس پر کسی طور عمل درآمد ممکن نہیں ۔
جرائد کی آرا میں حسب ذیل مشترک نکا ت سامنے آئے ہیں ۔
- توہین رسالت قانو ن کے تحت سزائے موت پانے والی آسیہ بالائی عدالتوں میں اپیل کا حق رکھتی ہے اسے وہاں رجوع کرنا چاہیے ۔صدر مملکت یا کسی دوسرے فرد کے پاس اسے معاف کرنے کا اختیار نہیں۔ اس ضمن میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی طرف سے آسیہ کی معافی کے لیے کی جانے والی کوششیں شرمناک ہیں ۔[2]
- توہین رسالت کے اس قانون کو صرف اقلیتوں کے خلاف سمجھنا صحیح نہیں ہے اس لیے کہ یہ صر ف مسیحی برادری یا کسی اور اقلیت کے خلاف نہیں ، بلکہ اگر کوئی مسلمان بھی اس جر م کا ارتکاب کرے تو وہ بھی اسی سزا کا مستحق قرار پائے گا ۔
- محض اس بنیاد پر کہ اس قانون کا استعمال صحیح نہیں ہوتا اس لیے اسے بدل دیا جائے یہ بات اس لیے درست نہیں کہ اور بھی قوانین ایسے ہیں جن کا استعما ل صحیح نہیں ہوتا تو کیا انہیں بھی بدل دیا جائے گا؟ ، ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون کو بدلنے کی بجائے اس کے صحیح اور شفاف استعمال کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے تاکہ کوئی گنہگار بچ نہ سکے اور کسی بے گنا ہ کو سز ا نہ ملے ۔ [3]
- قانو ن توہین رسالت میں تبدیلی سے ماورائے عدالت و قانون بدلہ لینے کا رجحا ن بڑھے گا ، اس لیے اس قانون میں ترمیم نہ کی جائے ۔[4]
مذہبی جماعتوں نے اس صورت حا ل مشترکہ مقصد کے لیے مشترکہ کوششیں کر نے پر اتفاق کیا ہے ۔ اس ضمن میں "ضرب مومن ” لکھتا ہے "اس قانون میں ترمیم کی کوشش امریکی ایجنڈا ہےجسے روکنے کے لیے متفقہ پلیٹ فارم سے جد و جہد کی ضرورت ہے ۔ دینی جماعتوں کی طرف سے تحفظ ناموس رسالت محاذ کا فیصلہ انتہائی بروقت اور موثر ہے ، دینی قیادت سے گزارش ہے کہ اتحا د کی اس نعمت کو ناگہانی حالات کے لیے مختص نہ رکھیں بلکہ آپس میں تحمل اور اتحاد کی فضا کو برقرار رکھیں۔”[5]
ملکی میڈیا پر اس واقعے کے تناظر میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کے حوالے سے ایک بحث چل رہی ہے ، اس ضمن میں "دعوت تنظیم الاسلام”اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتا ہے ” اسلامی ملک میں حکمرانوں کی ناک کے نیچے توہین رسالت کی سزا کو ختم کرنے کا پرپیگنڈا ہورہا ہے ۔ ہمارے ہی میڈیا پر غیرت ایمان سے محروم اور بد نصیب لوگ اپنے خبث باطن کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں ” [6]
اس قانون کےغلط یا سیاسی ضرورت کےلیے استعما ل کی طر ف "نوائے اسلام ” نے شذرے میں اشار ہ کیا ہے ۔جریدےکےخیا ل میں مذہبی جماعتوں کا اس اہم نکتے پر اتفاق رائے خوش آئند ہے تاہم خدشے کا اظہار کرتے ہوئے جریدہ لکھتا ہے ” چونکہ اس اتحاد میں شامل جماعتیں (سوائے مولانا فضل الرحمن کے ) حکومت مخالف سیاسی جماعتیں ہیں اور وہ حکومت کی مشکلات میں یقیناً اضافہ کریں گی اس لیے حکومت کے لیے ترمیم کے حوالے سے مزید پیش رفت میں مشکل ہو گئی ہے جو ایک اچھی بات ہے ۔ لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ اس قانون کا استعما ل سیاسی مقاصد کے لیے ہوتا ہے اسی لیے اس قانون پر انگلیا ں اٹھتی ہیں،حکومت کو چاہیئے کہ وہ علماء کرام سے مشاورت کر کے کوئی ایسا حل نکالے کہ توہین رسالت ایکٹ کو چھیڑے بغیر ا س کے غلط استعمال کی روک تھا م کی جاسکے۔”[7]
غیر ملکی عدالتوں میں قید پاکستانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ” الاعتصام ” اپنے حکمرانوں سے گلہ کرتے ہوئے لکھتا ہے "غیر مسلم ممالک اور ان کی حکمران جماعتیں اپنی فکر اور نظرئیے کا کس قدر خیال رکھتے ہیں کہ اب تک جن غیر مسلموں پر توہین رسالت کا الزام لگا ان کی حفاظت کے لیے صلیب سات سمند ر پار کر کے یہاں آیا ، جبکہ ہمارے حکمر ان سالوں سے غیر ملکی جیلوں میں پھنسے ہوئے بے گناہ مسلمانوں کا پوچھنا تک گوارہ نہیں کرتے ۔”[8]
ماہنامہ "میثاق ” نے ایک اور پہلو کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "اسلام جو ایک دین ہے اگر ہم اسے غالب اور قائم نہیں کرتےتو محض نعروں اور جلوسوں سے ہم رسول اللہﷺ کی توہین کرنے والوں کی زبانیں بند نہیں کراسکتے، شعائر اسلام اور حضورﷺ کی شان میں گستاخی اگر حکومتی سرپرستی میں ہو رہی ہے تو اصل مجر م یہ معاشرہ ہے ، اگر پاکستان میں اسلام کا عادلانہ نظام زندگی نافذ نہ ہو ا تو سلمان رشدی ، تسلیمہ نسرین اور آسیہ پیدا ہوتی رہیں گی اور ہم نعروں سے دل بہلاتے رہیں گے اور ٹائر جلا کر فضا کو زہر آلود کرتے رہیں گے ۔”[9]
” چراغ اسلام ” تحفظ ناموس رسالت کے قائدین کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتا ہے ” احتجاج کے ساتھ ساتھ مغربی دنیا کے پر وپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی کوئی جامع پر وگرام بنائیں …. پاکستا ن کے روشن خیا ل دانشوروں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اہل صلیب کی ہمیشہ کو شش رہی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف گر وہ آپس میں لڑتے رہیں ، اس لیے انہیں عیسائیوں کے ہاتھوں استعما ل ہونے سے گر یز کر تے ہوئے اپنا راستہ بدلنا چاہیے ۔”[10]
جواب دیں