مباحث جنوری ۲۰۱۱ ء
امریکی صدر باراک اوباما کا دورہ بھارت
امریکی صدر بارا ک اوباما ۶ نومبر ۲۰۱۰ ء کو تین روزہ دورے پر بھارت پہنچے ۔دورے کے دوران انہوں نے بھارت کے ساتھ ۱۰ ارب ڈالر کے تجارتی اور دفاعی معاہدے کیے ۔ پاکستان کے حوالے سے اگرچہ انہوں نے محتا ط بیانات دئیے تاہم انہوں نے امریکہ کے دیرینہ مطالبے کا اعادہ بھی کیا کہ پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف مزید کارروائی کرنی ہوگی ۔ دینی جرائد اوباما کے اس دورے کو بھارت کے لیے کامیاب دور ہ قرار دیتے ہیں البتہ پاکستان کے حوالے سے دورے کے دوران اوباما کی طرف سے اختیار کی گئی پالیسی پر تحفظات کا اظہا ر کیا گیا ہے۔
"ضرب مومن ” دورے کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے "خدشہ تھا کہ اوباما ہندوانتہا پسندوں کے دباؤ میں آکر برطانوی وزیر اعظم [41]کی طر ح پاکستان کو بمبئی حملوں کا ذمہ دار قر ار دیں لیکن انہوں نے بالغ نظر ی کا ثبوت دیتے ہوئے اس موقع پر اپنے الفاظ کو کنٹرول میں رکھا ۔اس بات کا قوی امکان ہے کہ انہوں نے بھارت کی جانب سے غیر معمولی رجحان پر پاکستان کے رد عمل کو روکنے کے لیے فی الحال سکوت اختیا ر کیا ہو” +جریدہ بھارت کے ساتھ معاہدوں اور بھارت کے حوالے سےاوباما کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ "بھارت کے ساتھ ۱۰ ارب ڈالر کے اقتصادی و دفاعی معاہدوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امریکہ بھارت کو کس نظر سے دیکھتا ہے ،نیز اوباما کا یہ کہنا کہ” بھارت عالمی سیاست میں جلد اہم کردار ادا کرے گا "امریکہ کی کمزور پوزیشن ، بھارت پر غیر معمولی انحصار کا عندیہ اور اس بات کی امید ہے کہ امریکہ جلد یا بدیر بھارت کو سلامتی کونسل کی نشست کے لیے قبول کر لے گا”۔ جریدے کے خیال میں” ہمیں پاکستان کے حوالے سے امریکی صدر کے بیانا ت پر خوش ہونے کی سطحیت سے گریز کرنا ہوگا ۔محض پر یس کا نفرنس کے ذریعے اس اسٹریٹیجک اور اقتصادی اہمیت کے حامل دورے کو پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں ۔” جریدہ حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتا ہے ” خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ملکی مفاد ہوتا ہے، امریکہ اور بھارت جائز کریں یا ناجائز ان کے پیش نظر اپنے ملک کا مفاد ہے ۔ پاکستان کو بھی اب دوسروں کے لیے جینے کا رویہ ترک کرنا ہوگا ۔”[42]
بھارت کے لیے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے حوالے سے نظر آنے والے امریکی موقف کا ذکر کرتے ہوئے "حق چار یار ” ادار یے میں لکھتا ہے "بھارت جس نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہا کر رکھی ہے ، امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے اس کی حمایت اور سلامتی کونسل میں اس کی رکنیت کا عندیہ، خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی ایک مذموم سازش ہے …… پاکستانی حکمرانوں کو سمجھ لینا چاہیے یہود و ہنود و نصاریٰ مسلم ممالک اور خصوصاً ایٹمی صلاحیت کےحامل پاکستان کے خلاف متحد ہوچکے ہیں ۔”[43]
نوائے اسلام اپنے تجزیے میں لکھتا ہے کہ ” اوباما کا ایشیا کے دورے میں سب سے پہلے بھارت پہنچنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت امریکی خارجہ پالیسی میں نمایاں اہمیت اختیا ر کر گیا ہے ، امریکہ کو خطے میں چین کے اثر رسوخ کو کم کرنے کے لیے بھارت جیسے کسی بڑے ملک کی ضرورت تھی جو اس کے سیاسی واقتصادی مقاصد کی بھی تکمیل کر سکے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی تما م قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت سے تعلقات بڑھانے کو ترجیح دی ہے ، یہ دورہ امریکہ کی بے وفائی اور دوغلی پالیسیوں کا عملی نمونہ ہے ، وہ پاکستا ن سے دوستی کا دم بھر تا ہے لیکن فوائد بھارت کو پہنچانا چاہتا ہے ۔اس لیے ہمارے حکمرانوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ امریکہ کی نظر میں پاکستا ن کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، وہ ہمیں کرائے کے فوجی سمجھتے ہیں اور برابری کی حیثیت دینے کے لیے تیا ر نہیں، اس لیے ہمیں بھی امریکہ سے تعلقات پر نظر ثانی کر نی ہوگی ۔” [44]
جواب دیں