مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورتِ حال اور مستقبل کا منظرنامہ
لیبیامیں امریکہ اور مغربی قوتوں کی تازہ مداخلت نہ صرف لیبیا کی علاقائی خودمختاری، آزادی، انصاف اور انسانی حقوق کے خلاف ہے بلکہ یہ عالمِ اسلام کو نقصان پہنچانے اور مسلمانوں کے تیل کے وسائل پر قبضہ کرنے کی پرانی پالیسی کا تسلسل ہے۔
پاکستان کو بحرین یا کسی اور مسلم ملک میں عوامی بیداری کو کنٹرول کرنے کے لیے یہاں سے مسلح افراد بھرتی کر کے لے جانے کی خطرناک پالیسی سے باز رہنا چاہیے۔ عرب ممالک میں عوامی بیداری کی تحریک سے فلسطین کی آزادی کے مقصد کو تقویت ملے گی۔ امریکہ اور مغرب خصوصاً فرانس اوربرطانیہ کی سراسر غیر قانونی فوجی مداخلت اور منافقانہ پالیسیاں، مسلمانوں کو آپس میں لڑانا اور پھر ان کے ہمدرد بن کر ان کے ملکوں پر قبضہ کرنا سابقہ کالونی نظام کا ایکشن ری پلے ہیں۔ عالمِ اسلام خصوصاً پاکستان کو اس نئے خطرے کا بھر پور احساس کرتے ہوئے اپنی خارجہ حکمتِ عملی کو مؤثر اور محتاط خطوط پر استوار کرنا چاہیے۔
ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیزاسلام آباد کے زیرِ اہتمام منعقدہ سیمینار میں مختلف اسکالرز، تجزیہ کاروں، سفارت کاروں اور ماہرین نے کیا۔ سیمینار کا موضوع "مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی صورتِ حال اور مستقبل کا منظرنامہ” تھا۔
اس سیمینار کا اہتمام انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ اسٹریٹیجک اسٹڈیز نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ اس سیمینار میں ایران، لیبیا اور فلسطین کے سفیروں کے علاوہ جناب تنویر احمد خان صدر نشین انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیزاسلام آباد، پاکستان کے سابق سفیر جناب طارق فاطمی، معروف دفاعی تجزیہ کار جنرل طلعت مسعود، جنرل حمید گل، جنرل اسد درانی، بیرسٹر سعدیہ عباسی، سابق سفارت کار جناب طیب صدیقی، پریسٹن یونیورسٹی کے استاد اور نائیجریا کے اسکالر جناب بکر نجم الدین، قائداعظم یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر رفعت حسین، آئی پی ایس کے صدر نشین پروفیسر خورشید احمد، ڈائریکٹرجنرل خالد رحمن اور دیگر نے اظہار خیال کیا ۔ ڈاکٹر رفعت حسین نے موڈریٹر کے فرا یض انجام دیے۔
جناب تنویر احمد خان نے کہا کہ عرب اور افریقہ کے مختلف ملکوں میں عوامی بیداری کی مہم کے پیچھے اگرچہ استبدادی اور آمرانہ حکمرانی کی مشترکہ وجہ نمایاں طور پر موجود ہے۔ جس کے ساتھ عوام کے سیاسی حقوق کی پا مالی اور اس کی بازیابی کا جذبہ بھی موجود ہے۔ تاہم معاشی وجہ تمام ممالک میں مشترکہ نہیں ہے۔ لیبیا میں امریکی مداخلت کی نمایاں بات یہ ہے کہ برطانیہ اور فرانس کو آگے کیا جا رہا ہے یہ ماضی میں برطانیہ اور فرانس کی توسیع پسندی کا عکس ہے۔
جناب طارق فاطمی نے کہا کہ ہمیشہ کی طرح مشرقِ وسطیٰ میں مغربی قوتوں کے مقاصداب بھی یہ ہیں کہ کسی بھی حالت میں مغربی مفادات کو نقصان نہ پہنچے، قدرتی وسائل پر ان کا قبضہ برقرار رہے، سابقہ سویت یونین کے اثرات ختم کیے جائیں اورفوجی وسیکیورٹی معاملات اُن کے ہاتھ میں رہیں۔ لیبیا میں مغرب کو خدشہ ہے کہ القاعدہ نیٹ ورک یہاں اپنے اثرات بڑھا رہا ہے۔ امریکی مداخلت سے لیبیاکی تقسیم کا خدشہ پیدا ہوگیاہے۔ یہ خطرناک صورت حال ہے۔ چین نے برملا اس امریکی مداخلت کو ناپسند کیا ہے۔ روس میں اس مسئلہ پر اختلاف رائے ظاہر ہوا ہے۔ ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔
جنرل طلعت مسعود نے کہا کہ لیبیا، مصر، تیونس اوردیگر عرب اورافریقی ممالک میں عوامی بیداری کی تحریک عوام کی جانب سے اپنے سیاسی حقوق کے حصول کے لیے ہے نہ کہ غیر ملکیوں کو مداخلت کی دعوت دینے کے لیے۔ انہوں نے کہاکہ اطلاعات یہ ہیں پاکستان بحرین میں وہاں کے حکمرانوں کی مدد کے لیے مسلح افراد بھرتی کررہاہے۔ یہ بہت خطرناک پالیسی ہوگی۔ پاکستان کو اس سے باز رہنا چاہیے۔ عرب ملکوں میں عوامی بیداری کی تحریک بالآخر فلسطین کاز کے لیے مددگار ثابت ہوگی۔
جناب بکر نجم الدین نے کہا کہ مغربی قوتوں کی مداخلت نے لیبیا کے عوام کے اقتدار اعلیٰ کو چیلنج کردیا ہے۔ اس امریکی جنگ کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے۔ لیبیا، نائیجیریا اور دوسرے مسلمان ملکوں میں جہاں سے تیل نکلتا ہے مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کردار اور رویّہ ناپسند یدہ ہے۔ مسلمان ملکوں کے عوام اپنے حکمرانوں سے ناخوش ہیں وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں، لیکن اس عوامی تحریک میں امریکہ یا مغرب کی سر پرستی تلاش کرنا درست نہ ہوگا۔
پروفیسر خورشید احمد احمد نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کی پیچیدہ صورتِ حال کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی پالیسیوں کو ٹھوس بنیاد پر استوار کر سکیں۔ اکثر لوگوں کے نزدیک عرب ملکوں میں عوامی بیداری کے مظاہر غیر متوقع اور اچانک تھے تاہم اہلِ نظر جانتے تھے کہ حالات اسی رُخ پر جا رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی بیان کردہ پالیسیوں اور جمہوری اور انسانی حقوق جیسے خوش نما الفاظ سے زیادہ ان کی عملی پالیسیوں کی اہمیت ہے اقوام متحدہ کی قرار داد میں انسانی حقوق کے لیے مداخلت کے الفاظ شرمناک منافقت ہے۔ عرب ملکوں میں عوامی تحریک وہاں کے مقامی حالات کے جبر کا ردِّ عمل ہے تاہم بحرین، یمن، اور لیبیا میں بیرونی اثرات بھی نظر آتے ہیں۔ یہاں خفیہ ادارے، یورپی طاقتیں اور ان کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ مغربی طاقتیں اس صورتِ حال کو فرقہ واریت کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس نئے خطرے کا سب کو احساس ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیموکریسی اور اسلامائزیشن ایک سکے کے دو رُخ ہیں۔ سیکولرازم یا لبرل ازم کبھی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہو سکتے مغرب یہ سمجھتا ہے کہ سیکولر قوانین مسلم ممالک میں آمریت کے سہارے کے بغیر نافذ نہیں کیے جاسکتے۔
اس سیمینار میں ایران کے سفیر جناب ماشاء اللہ شا کری لیبیا کے سفیر جناب ابراہیم العابد مختار اور فلسطین کے سفیر جناب حازم حسین ابو شناب کے علاوہ جن دیگر نمایاں شخصیات نے اظہار خیال کیا اُن میں جنرل حمید گل، جنرل اسد درانی، محترمہ سعدیہ عباسی، سابق پاکستانی سفیروں جناب نذر عباس، جناب جاوید حفیظ اور آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار محمد انور خان بھی شامل تھے۔
نوعیت: روداد سیمینار
6 اپریل 2011
جواب دیں