دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قانونی حیثیت

دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قانونی حیثیت

ایک طرف صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا کو امن، انصاف اور تحفظ کا منبع بنا دینے کی جستجو ہے تو دوسری طرف دہشت گردی ختم کرنے کی حکمت عملی کی تشکیل انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے والے منصوبوں کی بنیاد پرکی گئی ہے اور خود فریبی یہ کہ انہیں امن اور سلامتی کے حصول کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے۔ غیر قانونی اسیریوں اور انسانوں کے قتل عام کو ایک ایسے دور میں روا رکھا گیا ہے جس میں لبرل ازم ، بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی اداروں کی موجودگی کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور جہاں ایسے تمام معاملات کے حل کے لیے بنیادی اخلاقیات اور انسانی اقدار کی ضرورت کا درس دیا جاتا ہے۔آزادی کے نام پر ناانصافیوں اور جرائم کا ارتکاب جس مضحکہ خیز انداز میں انجام دیا گیا ہے وہ 9/11 کے واقعہ کے بعد گوانتا ناموبے اور بگرام جیسے عقوبت خانوں کی شکل میں دنیا کے سامنے ہے۔ ایک بین الاقوامی ضابطے کی بنیاد اتفاقِ رائے سے تشکیل کردہ اصولوں ‘ روایات ‘عزائم اور ان توقعات سے عبارت ہوتی ہے جن پر تمام ریاستیں عمل درآمد پر رضا مند ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ نے بہت سے سیاسی اور قانونی سوالات اٹھائے ہیں۔
’’دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قانونی حیثیت‘‘ ایک رپورٹ ہے جو اوپر بیان کیے گئے پس منظر میں منعقد کردہ ایک کانفرنس کی روداد ہے ۔یہ کانفرنس انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز اور ایک برطانوی تنظیم Reprieve کی مشترکہ کاوش سے منعقد ہوئی۔
درج ذیل لنک پریہ رپورٹ الیکٹرانک کتاب کے طور پر موجود ہے۔ اس میں سیمینار کے شرکاء کے پیش کردہ خیالات ان کے اپنے الفاظ میں (معمولی ادارت کے ساتھ) شامل ہیں۔ نیز رپورٹ کا خلاصہ بھی پیش کیا گیا ہے۔
(http://www.ips.org.pk/publication/101-books/1434-litigating-the-war-of-terror.html)

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے