خواتین اور میڈیا : نفسیاتی حربوں کا فہم
اسٹڈی گروپ برائےصنفی مسائل کی تیسری میٹنگ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیزمیںمنعقد ہوئی جس کی صدارت رفاہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیا سائنسز کےچیئر مین ڈاکٹرمسرور عالم خان نےکی۔پروگرام کا تعارف کراتےہوئےآئی پی ایس کےڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نےکہاکہ قوموںاورنظریات کےدرمیان مقابلےاور جدوجہد کا انداز موجودہ دنیا میںتبدیل ہو گیا ہے۔اب پروپیگنڈےاوراپنےنظریات کےحق میںذہن سازی کےلیےمیڈیا کو مختلف طریقوںسےاستعمال کیا جا رہا ہے۔وسیع تر پہنچ اورکسی خیال کےحق میںفضا بنانےکی غیر معمولی صلاحیت کےباعث میڈیا کےذریعےنفسیاتی حربوںکا استعمال بڑھتا جا رہا ہےتاکہ قلیل المدت اورکثیرالمدت کےمتعین اہداف حاصل کیےجا سکیں۔
ممتاز ماہر نفسیات محترمہ شازیہ حارث نے”خواتین اورمیڈیا:نفسیاتی حربوں کافہم”کےموضوع پر پریزنٹیشن دی۔
محترمہ شازیہ میڈیا مینجمنٹ اورا سکےتجزیہ کےحوالےسےوسیع تجربہ اورمہارت رکھتی ہیں۔آج کل وہ زلزلہ سےمتاثرہ علاقوںکی تعمیرنواوربحالی کےادارہ(ERRA)میںایڈوائزر نالج مینجمنٹ سیل کی حیثیت سےکام کر رہی ہیں۔
ان کی پریزنٹیشن اوراس کےبعد سوال و جواب اوربحث کےنتیجےمیںجو اہم نکات سامنےآئےوہ درج ذیل ہیں:
٭ عالمگیریت کےفروغ میںمیڈیا کاعالمگیرکردارسب سےاہم ہے،اس نےافراد کی زندگیوں کےساتھ ساتھ معاشروںپر بھی گہرےاثرات ڈالےہیں۔ میڈیا کو استعمال کرنےوالے، لوگوں کی نفسیات سےکھیلتےہیںاورسمعی و بصری حساسیت کو لوگوں کےذہن بدلنےاورکسی خیال کو ذہن میں بٹھانےکےلیےایک اوزار کےطور پر استعمال کرتےہیں۔
٭ اس عالمگیریت کےماحول میںمیڈیا (خصوصاً ورچول میڈیا) نےایک طرح کا جنریشن گیپ پیدا کر دیا ہےجس پر قابو پانےمیں بحیثیت قوم ہم ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ نئی نسل ایسےچلتےمحاورےاورغیر روایتی زبان کثرت سےاستعمال کر رہی ہےجس سےبڑی نسل کےلوگ بالکل ناواقف ہیں۔ اس کےنمونےآپ چیٹنگ اورایس ایم ایس پیغامات میں استعمال ہونےوالی تحریروں میںدیکھ سکتےہیں۔ اس طرح ان دونوں نسلوں کےدرمیان ایک طرح کی اجنبیت کاماحول پیدا کر دیا گیا ہے۔
٭ زندگی کےپبلک اورپرائیویٹ دائروںمیںمیڈیا جس طرح غیر معمولی طور پر اثر انداز ہونےکی صلاحیت رکھتا ہے،اس نےاسےقوم کی نفسیات سےکھیلنےکا ایک اہم ذریعہ بنادیا ہےجس کےذریعےلوگوںکو کسی خاص زاوئیےہی سےچیزیںدکھائی جاتی ہیں۔
٭ خواتین چونکہ زیادہ وقت گھروںمیںمیڈیا کےسامنےگزارتی ہیںاس لیےمردوں کےمقابلہ میںوہ میڈیا کی نشریاتی یلغار کازیادہ شکار بنتی ہیں۔
٭ ہمارے سامنےاب سب سےبڑا چیلنج یہ ہےکہ قومی شناخت اوراجتماعی مقاصد و حکمتِ عملی کےحوالہ سےقوم میں ہم آہنگی پیداکی جائےتاکہ موجودہ صورتِ حال سےبچاجا سکےجو ہمیں کنفیوژن، بےسمتی، بےیقینی اورباہمی شکوک و شبہات کی طرف لےجا رہی ہے۔ اس جنریشن گیپ کو پرکرنےاوربےیقینی کی کیفیت کو اعتماد اوریقین کی کیفیت میںبدلنےکےلیےمیڈیا ہی سب سےاہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
٭ درحقیقت جب کوئی قوم یافرد خود آگےبڑھ کر اپنےآپ کو منوانےکےجذبےسےتہی دامن ہوجائےتو پھر میڈیا کو اس پر اپنا رنگ چڑھا نےکا موقع مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ میڈیا اس قابل ہو گیا ہےکہ وہ پاکستانی قوم کو ایک مایوس، ناکام، غیر دوستانہ بلکہ بدمعاش قوم کےطور پر پیش کرےاور دنیا کےدیگر خطوں کو نظر انداز کر کےاکثراوقات پاکستان ہی کو دنیا کی دہشت گرد ریاست قرار دےاورخاص حوالوںسےپاکستان ہی کو نشانہ پر رکھے۔
٭ میڈیاکا بنیادی کام موجود تاثرات کو منظم کرنا ہےنہ کہ نفسیاتی طورطریقےآزمانا۔یہ لوگوں کےتاثرات اورآراء سےکھیلنا ہے۔میڈیا کسی موضوع پر بکھری ہوئی معلومات میں تعلق جوڑتا ہےاورایک تصویر تراشنےکی کوشش کرتا ہےپھر یہ باور کراتا ہےجیسےاس کےناظرین یہی تصویر دیکھنا چاہتےہیں۔یہ لوگوں کےتاثرات کو غلط طور پر استعمال کرتےہوئےان کی سوچ کےدھارےکو ایک خاص رخ پر آگےبڑھانےکی کوشش کرتا ہے۔ ایسا کرنےکےلیےمیڈیا منیجرز بعض اوقات جان بوجھ کر کسی ایک واقعہ کو نظر انداز کرنےاورکسی دوسرےواقعہ کو حقیقی اہمیت سےزیادہ بڑھاچڑھا کر پیش کرتےہیں۔وہ لوگوں کی ناراضی کو نظر انداز کرتےہوئےاپنی تخلیق کا زیادہ زور دار تاثر ذہنوں میںبٹھانےکےلیےوقت اورطرز کا انتخاب بھی بہت احتیاط سےکرتےہیں۔
٭ "عالمگیریت اور آزاد منڈی” کےتصور نےترقی پذیر ممالک کو معاشی لحاظ سےبری طرح متاثر کیا ہے۔میڈیا نےکامیابی کےساتھ یہ ثابت کیا ہےکہ وہ کسی ملک میںسماجی ،سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کرنےکی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔اس طرح "چوتھی نسل کا طرزِجنگ”تشکیل پا رہا ہےجس میںمیڈیا کا استعمال اورنفسیاتی حربوںکا استعمال ایک اہم ہتھیار کےطور پر سامنےآئےہیں۔
٭ معاشرے کی بنیادوں کو ہلانےکےلیےمیڈیا ان ستونوں کو ہدف بناتا ہےجس پر اس معاشرےکی عمارت کھڑی ہوتی ہےاوران شخصیات پر حملہ آور ہوتا ہےجو اس معاشرےمیںمثالی اورہیروکی حیثیت رکھتی ہیں۔یہ ان اعتقادات اوراصولوںہی کو بحث کاموضوع بنادیتا ہےجو دراصل معاشرےمیں مقدس اورغیر متنازعہ ہوتےہیں اوراس لحاظ سےمعاشرےکی مضبوطی کاباعث ہوتےہیں۔براہِ راست یا بالواسطہ طور پر اسلام کو بدنام کرنا اورمسلم معاشرےمیں”خاندان”کی کڑیوں کو کمزورکرنا نیز پاکستان کو غیر مستحکم کرنےکی کوشش کرنا یہ سب کچھ اس پسِ منظر میںدیکھا جاناچاہیے۔
٭ میڈیا میں عورت کی تیارکردہ تصویر اور حیثیت دراصل اس تصور کا عکس ہےجو مرد عورت کےبارےمیںاپنےذہنوںمیںرکھتےہیں۔ میڈیا کےتقریباًتمام بڑےادارےمردوں کےزیرِتسلط ہیں اوریہاں گنتی کی چند خواتین کےعلاوہ فیصلہ ساز پوزیشن پر خواتین نہیں ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہےکہ اگر ایگزیکٹوپوسٹ پر خواتین آبھی جائیںتو وہ مختلف انداز میں سوچنےاورنئےانداز سےمعاملات کو لےکر چلنےمیں دشواری محسوس کرتی ہیں اورلگےبندھےروایتی طریقوں پر چلنا ان کےلیےآسان ہوتا ہے۔
٭ میڈیا انفرادیت پسندی کےتصور کو فروغ دےرہا ہے۔لوگوںکےذہنوںمیںاپنی خودمختارانہ حیثیت اورمعاشی ذمہ داریوںکےدباؤ سےآزادی کا احساس پیداکیا جا رہا ہے۔اس سوچ کا لامحالہ یہ نتیجہ نکلےگا کہ مرد اورخواتین اپنی ان ذمہ داریوںکو مشکل اورایک لحاظ سےبوجھ محسوس کرنےلگیںگےجو خاندان کی طرف سےان پر عائد ہوتی ہیں۔
٭ جب ایک مرتبہ خاندان کا ادارہ کمزور ہوجائےتو معاشرےمیںبہت سی سماجی اوراخلاقی برائیاںجڑپکڑلیتی ہیں۔صنعتی اقوام میںیہ مظہر واضح طور پر نظر آتا ہے۔اس مسئلہ کی اہمیت کا ادراک ہونےکےبعد ان معاشروںمیںکئی تنظیمیںخاندان کےادارہ کی بحالی اورتعمیر کےکام ہی کےمقاصد کےساتھ سرگرم عمل ہیں۔
٭ جاپان ،آسٹریلیا،امریکہ اوردیگر بہت سےممالک کےعلاوہ خود پاکستان میںطلاق اورعلاحدگی کا تناسب گزشتہ چند برسوںمیںبہت بڑھ گیا ہے۔اس سےمعلوم ہوتا ہےکہ نفسیاتی حربوںکےذریعےنرم انقلاب برپا کرنےکی غرض سےخواتین کو نشانہ بنالیا گیا ہے۔
٭ عموماًیہ محسوس کیا جاتا ہےکہ ہمارا قومی میڈیا اپنی قوم اوراجتماعی قومی مقاصد کےساتھ مخلص نہیںہےاوروہ آسانی سےمختلف اسٹیک ہولڈرز کےایجنڈےکو آگےبڑھانےکےلیےاستعمال ہوجاتا ہےحتیٰ کہ بعض اوقات قومی مفادات
پر بھی مصالحت کر لی جاتی ہے۔کئی مرتبہ بہت زیادہ قیمت والی پیش کش پر انکار نہیںکیا جاتا اورکوئی بھی ان سےوقت خرید سکتا ہےیا اپنےمقصد کےلیےانہیںاستعمال کرسکتا ہے۔غیر تعلیم یافتہ یا غیر تربیت یافتہ میڈیا اسٹاف کا نفسیاتی حربوںکا شکار بننےکےامکانات زیادہ ہوتےہیںاورپھر انہی خطوط پر آگےبڑھتےہوئے یہ لوگ ہمارےسماجی استحکام، قومی سالمیت اورحتیٰ کہ اقتدارِاعلیٰ کےلیےشدید خطرات پیدا کرنےکا باعث بن جاتےہیں۔
٭ بس شعور اورآگہی اس قسم کی دراندازیوںسےحفاظت کا بہترین ذریعہ ہے۔ہمیںاپنےعوام کو میڈیا کی اس طرز جنگ کا شعور دینا چاہیے۔ مردوں اورخواتین دونوں کو بہت باشعور ہونا چاہیےتاکہ وہ اس طرح کےنفسیاتی ہتھیاروںاورحربوںکابہتر طور پر مقابلہ کرسکیں۔اس مقصد کےلیےہمیںنوجوان نسل کی گہری نظریاتی بنیادوںکو استوار کرنا ہو گا اوریہ کام تعلیم کےذریعےہو سکتا ہے۔
٭ یونیورسٹی کی سطح پر "نفسیاتی جنگ”کا خصوصی مضمون متعارف کروایا جائے۔افراد اوراداروںکو قومی ایجنڈےکےساتھ آگےآنا چاہیےاورایک ایسا نیٹ ورک قائم کرنا چاہیےجو موجود غلط سوچ اورعملی رویوںکا مقابلہ کرےاورمثبت طور پر مشترکہ قومی مقاصد سےہم آہنگ اقدارکو فروغ دے۔
٭ ایک ایک فرد بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہےکہ وہ میڈیا کےذریعےپھیلائےگئےان رجحانات،سوچ اورخیالات پر نظر رکھےجو ہمارےمعاشرےکو تباہ کرنےکےلیےپھیلائےجا رہےہیں۔لوگوںکی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیےکہ وہ میڈیا میںشائع شدہ ان تحریروںاورنشری پروگراموںکےخلاف اپنی آواز بلند کریںاوراپنےجذبات کا اظہار کریںجو انہیںپریشان کر رہی ہیں۔ہر سمجھ دارفرد کوخواہ مرد ہو یا عورت ، اپنےاپنےدائرہ ٔاثر میںاپنا کردار پور ی طرح ادا کرنےکی بہت ضرورت ہے۔یہ انفرادی کوششیںیقینی طور پر ایک دوسرےکی کوششوںکو مؤثر بنائیں گی اوربالآخرایک مضبوط اتحاد سامنےآئےگا۔
٭ نظریات ،خیالات اورمنصوبوںکی جنگ نہایت اعلیٰ سوچ اورتحقیق کےساتھ لڑی جانی چاہیے۔ہمیں ذہنوں کو ہم خیال بنانےکےلیے مضبوط دلائل اورپروپیگنڈے کو غیر مؤثر بنانےکےلیےٹھوس ثبوت فراہم کرنےکی ضرورت ہے۔
جواب دیں