خواتین کے حقوق: ایک قومی نقطہ ٔ نظر کی ضرورت

female

خواتین کے حقوق: ایک قومی نقطہ ٔ نظر کی ضرورت

"زیر نظر مضمون ڈائریکٹر جنرل انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) خالد رحمن اور سینیر ریسرچ کوآرڈینیٹر ندیم فرحت گیلانی کے مشترکہ تحقیقی کام Legislation on Women & Family in Pakistan سے ماخوز ہے جو گزشتہ سال انگریزی زبان میں کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے۔کتاب کا اردو ترجمہ ـ’عورت، خاندان اور پارلیمان‘ کے عنوان سے انسٹی ٹیوٹ کی اردو ویب سائٹ www.ipsurdu.com پرعالمی یوم خواتین، ۸ مارچ ۲۰۱۵، کی مناسبت سے شائع کر دیا گیا ہے اور مفت ڈاؤن لوڈ کیا جا ساکتا ہے

 


 

تاریخی طور پر تمام ہی معاشروں میں عورت کا مقام اور مرتبہ بحث کا موضوع رہا ہے لیکن آج کی دنیا میں یہ موضوع بوجوہ زیادہ اہمیت اختیار کرگیاہے۔ مختلف علاقوں اور ادوار میں خواتین بالعموم استحصال اور بے توقیری کا شکار رہی ہیں ، لیکن ان کی مشکلات کا حل اکثریہ نکالا گیا کہ عوامی زندگی میں ان کے کردار میں اضافہ کر کے خواتین کو بااختیار اور خود مختار قرار دے دیا جائے۔ بار بار کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ یہ اضافی کردار عورتوں کے لیے ہمیشہ دوہری مشقت کا باعث ہی بنا ہے۔استحصال اور اختیار پر مبنی ان دونوں ہی صورتوں میں خواتین کی فطرت، احساسات، جذبات، ضروریات اور صلاحیتوں کو کم ہی مدّنظر رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی تحریک یا ان کے حقوق کے لیے تشویش کل کے قدیم معاشروں میں بھی موجود تھی اور آج کی دنیا کی ترقی یافتہ اقوام میں بھی نظر آتی ہے۔

پاکستانی معاشرے میں عورتوں سے متعلق مسائل پرایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں روزمرہ زندگی میں بنیادی ضروریات کی عدم موجودگی یا ناکافی فراہمی خواتین کی زندگیوں کو مشکل بنارہی ہے وہاں سماجی اور اقتصادی میدانوں میں ان کے کردار کے بارے میں ابہام (Confusion)نے معاشرے کو عجیب کشمکش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بالعموم ہر مسئلے کا حل قانون سازی کے ذریعے تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور حکومتیں بھی قانون بنا کر خود کو بری الذمہ سمجھنے لگتی ہیں۔ اگرچہ مسائل کے حل کے لیے قانون سازی کی اپنی اہمیت ہے لیکن اصل اور دیرپا تبدیلی کے لیے عوامی بیداری کی سماجی اورعلمی تحریک، تعلیم، روزگار اور ترقی کے مواقع کی فراہمی ، عدالتی اور پولیس کے نظام میں اصلاحات اور عورتوں کے مسائل کے حوالے سے آگاہی اورحساسیت درکار ہے۔ ان سب کی موجودگی ہی وہ ماحول فراہم کرے گی جس میں قانون بھی مفید ہو گا۔

یہ جاننا مشکل نہیں کہ کوئی بھی قانون ، عوامی بیداری کی تحریک یا اصلاحاتی پروگرام اسی وقت عوام کے لیے قابلِ قبول اور مؤثر ہو گا جب وہ قومی اقدار سے ہم آہنگ اور پاکستانی معاشرے کی ساخت کے مطابق ہو۔ مثال کے طور پر معاشرے کے تمام افراد بالخصوص قیادت کو اس بات کا بھرپور احساس ہونا چاہیے کہ پاکستانی معاشرے میں خاندان کا ادارہ ہی استحکام کی بنیاد اورانفرادی و اجتماعی توانائی کا سرچشمہ ہے۔دستورِ پاکستان میں حکمتِ عملی کے جن اصولوں کی پاسداری ریاست کے ہر عضو اور ادارے پر لازم قرار دی گئی ہے، ان میں ایک اہم اصول ’’شادی، خاندان، ماں اور بچے کا تحفظ ‘‘ ہے۔8مارچ2013ء کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر قومی اسمبلی میں جو قراردادمتفقہ طور پر منظورکی گئی، اس میں بجا طور پرایوان نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ خواتین کوزندگی کے تمام شعبوں میں اس کا حقیقی مقام اس طرح دلایا جائے گا کہ خاندان کے ادارے کی مضبوطی، سماجی طبقات کو قوت دینے اور قوم کی تعمیر کے مقاصد کو حاصل کیاجاسکے۔ یہ ایک سماجی ضرورت ہے کہ معاشرے کا ہر فرد نکاح کو ایک مقدس رشتے کے طور پر دیکھے اور اس سے پیدا ہونے والی ذمہ داریوں سے نہ صرف آگاہ ہو بلکہ انہیں ادا کرنے کے لیے بخوشی آمادہ ہو۔ اس لحاظ سے سماجی زندگی پر اثر انداز ہونے والے تمام اقدامات و مہمات میں خاندان اور اس کے استحکام کو بنیادی اہمیت دی جانی چاہیے۔

قانون سازی اور قومی پالیسیوں کا مقصد ایک ایسے ہم آہنگ معاشرے کاقیام ہونا چاہیے جس میں طبقاتی تقسیم اور احساس محرومی کم سے کم ہو۔ اس لیے جہاں خواتین اور بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے چند ضروری اقدامات لازم ہیں ، وہاں تعمیر و ترقی اور بہتری کی تمام کوششوں کا مقصد معاشرے کی ایسی جامع بھلائی ہونی چاہیے ، جس میں ہر ایک کو اس کا حق مل رہا ہو۔ گویا بنیادی سوچ یہ ہونی چاہیے کہ ’’سب کی بھلائی میں ہر ایک کی بھلائی ہےـ‘‘۔اہم ترین بات یہ ہے کہ عدل کو معاشرتی اصلاح کی بنیاد قرار دیا جائے اور خواتین سمیت ہر ایک کے حقوق کی ضمانت دی جائے ۔ جہاں تک سماجی تعمیر میں صنف کے کردار کا معاملہ ہے تو اس بات کو اہمیت دی جانی چاہیے کہ بہت سے میدان ایسے ہیں جہاں خواتین کے مثبت کردار کو سراہنے، اسے نکھارنے اور پروان چڑھانے کی ضرورت ہے ۔

خاندان کے ادارے کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے سماجی مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی تمام کوششیں معاشرے کے اندر موجود طریقۂ کار کے تحت ہونی چاہییں۔ خاندان کا ادارہ جس قدر کا مضبوط ہو گا اور افرادِ معاشرہ کے نزدیک عدل کی صفت جس قدر اہم ہو گی، اسی قدر یہ امکان بڑھے گا کہ خواتین کو نہ صرف قدر اور اہمیت ملے بلکہ ان سے ہونے والی کسی بھی زیادتی کا ازالہ بھی جلد اور باہم اعتماد کے ماحول میں ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پا کستان کے عائلی قوانین آرڈیننس مجریہ1961ء میں تجویز کردہ ثالثی کونسل خاندانی جھگڑوں کے تصفیے کے لیے ایک اچھا ماڈل ہے۔ یہ ثالثی کونسل کسی گھریلو تنازعہ کے فریقوں کے نامزد نمائندوں اور یونین کونسل کے چئیرمین یا ناظم پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس طرح یہ نہ صرف قرآن کے دیے ہوئے ماڈل سے قریب تر ہے بلکہ پاکستانی معاشرے کے سماجی ڈھانچے سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔ خاندان کے ادارے کو مضبوط اور مستحکم مقالی حکومتوں کے نظام کے ذریعے مضبوط کیاجانا چاہیے۔ یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ بلدیاتی سطح پراہم سیاسی اور سماجی ادارے سالہاسال سے معطل پڑے ہیں اورپارلیمان اس نقصان کا ادراک تک ظاہر کرنے میں ناکام ہے۔

دیکھا گیا ہے کہحالیہ برسوں میں قانون سازی اور فیصلہ سازی میں سماجی تنظیموں کا کردار بتدریج بڑھا ہے۔ کئی معاملات میں دیکھاگیا ہے کہ کسی تنظیم نے ایک خاص موضوع کو اپنا ہدف قرار دیا اوراس موضوع پر قانون کابنیادی مسوّدہ تیار کرکے کسی رکنِ پارلیمان کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کر وادیا۔ بعد ازاں اسی خاص مقصد کو اجاگر کرنے کے لیے مجالسِ مشاورت، تربیتی اجلاسوں، آگاہی وتشہیر کی مہمات اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک کثیرجہتی مہم شروع کردی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قانون سازی کے مختلف مراحل کے دوران بل پرہونے والی بحث پر نگاہ رکھ کرمیڈیامیں اس پر بات چیت اور بحث ومباحثہ کاسلسلہ شروع کیا جاتا ہے تاکہ اس مسئلے کو زندہ رکھا جاسکے۔

اصولی طور پر رائے سازی کی اجتماعی اور منظم کوششوں میں کوئی حرج نہیں، بلکہ جمہوری معاشروں میں انہیں قبول ِعام حاصل ہے۔ ایسی کوششیں قانون سازی میں عوامی شرکت کی ہی ایک قسم شمار کی جاتی ہیں ۔ تاہم ایسے تمام معاملات میں فیصلہ سازوں سے بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ دانا و بینا قائدین کا کردار ادا کریں اور کسی خاص تناظرمیں پیدا کیے گئے ماحول میں اپنی سمجھ بوجھ کو زیادہ باریک بینی اور دیگر نقطہ ہائے نظر کو جاننے کے لیے استعمال کریں۔ انہیں یہ ملکہ حاصل ہونا چاہیے کہ وہ مسائل کا جائزہ لیں، ان سے وابستہ تمام فریقوں کو سنیں اور مسئلے کے تمام پہلوؤں کو نگاہ میں رکھیں۔ قانون سازوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ عملی مسائل سے متعلق مناسب تفہیم حاصل کریں اور مقامی تناظر میں ان کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہوں۔ جب تک ان کی جڑیں معاشرے میں بہت گہری نہیں ہوں گی اور ان کا رابطہ ملک کے عام شہریوں کے ساتھ مؤثر اور مضبوط نہیں ہوگا اس بات کا خدشہ رہے گا کہ وہ کسی بھی پریشر گروپ کی مہم کا شکار ہوجائیں۔ جس کا سادہ مطلب یہ ہوگا کہ وہ نہ صرف پاکستانی معاشرے کے حقیقی مسائل کو نظرانداز کر بیٹھیں گے بلکہ ان میں مزید اضافہ کا سبب بن جائیں گے۔ سب سے بڑھ کر قانون سازوں میں یہ اہلیت ہونی چاہیے کہ وہ بیرونی دباؤ یاغیرملکی پیسے کی بنیاد پر اٹھائے گئے اقدامات کا شکار ہونے سے بچیں اور خود اتنے بااعتماد ہوں کہ قوم کی فلاح وبہبود کی طرف رہنمائی کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔

ایک رجحان یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے مسائل کے لیے وہ حل جوں کا توں اپنانے کا مشورہ دیا جاتا ہے جو کسی دوسرے ملک نے اپنایا ہو۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کے لیے دوسروں کے تجربات اوررویّوں سے سیکھنا ایک مثبت طرزِ فکر ہے لیکن باہمی استفادہ کے اس عمل میں یہ پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ لازم نہیں کہ کوئی ایک ہی حل تمام حالات میں مؤثر ثابت ہو۔ ہر معاشرہ اپنے بنیادی فلسفہ، سماجی تعبیر، ثقافتی علامات، مذہبی اقدار، نظریات اور نقطہ ہائے نظر کے لحاظ سے دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ کسی معاشرے کے لیے بہتر، مؤثر اور دیرپا حل وہی ہو گا جو خود اسی معاشرے کے رجحانات، رویوں، مزاج اور سماجی اقدار کو سامنے رکھ کر تجویز کیا گیا ہو۔چنانچہ پالیسی سازوں اور قانون سازوں کو پروپیگنڈے کی رو میں نہیں بہہ جانا چاہیے ۔ بالعموم پیش کیے جانے والے نظریات اورلائحہ ہائے عمل مغرب کے لیے تو مفید ہو سکتے ہیں لیکن ممکن ہے کہ وہ پاکستان کی مقامی ثقافت کے لیے قطعی اجنبی اور ناقابلِ قبول ہوں۔پارلیمنٹ کو صرف ردّعمل ہی ظاہر نہیں کرتے رہنا چاہیے بلکہ اس کا کردار قائدانہ ہوناچاہیے۔ پارلیمنٹ کے ارکان سے یہ توقع کی جانی چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر مسائل کی نشان دہی کریں گے، ان کا حل تلاش کریں گے اور اس حل پر عمل درآمد کی صورت پیداکریں گے۔

مختلف سماجی مسائل اور حقوق کی بحث میں بین الاقوامی معاہدوں اور اعلامیوں کے حوالے دیے جاتے ہیں اورانہیں بنیاد بنا کر کچھ اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ عالمی سطح پر تشکیل پانے والے بہت سے قوانین نے انسانیت کو کئی طرح سے فائدہ پہنچایا ہے لیکن حقیقت پسندی کا تقاضہ ہے کہ یہ بھی تسلیم کیا جائے کہ بین الاقوامی قوانین پر مشتمل عہد ِحاضر کانظام زندگی کے حوالے سے ایک مخصوص پیرائے (Paradigm)پر استوار ہے ۔ یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ مغرب نے اپنے لیے جو معیارات طے کیے ہیں وہ عالمی معیارات نہیں ہیں،اور نہ ہی انہیں پوری دنیا کے لیے لازم قرار دے کر یہ مطالبہ کیا جا سکتا ہے کہ جس طرزِ زندگی کا انتخاب مغرب نے کیا ہے اسے دنیا بھر میں رائج کرنا ہی ترقی کی معراج ہے۔
اگرچہ توقع تو یہ ہوتی ہے کہ بین الاقوامی معاہدوں اور اعلامیوں میں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے نقطہ ہائے نظر کی مجموعی عکاسی موجود ہو گی،لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ اصولاً ان میں اتنی لچک ہونی چاہیے کہ ہر قوم اپنے مقامی معاملات،خاص طور پر سماجی تعمیر، خاندانی ڈھانچے اور صنفی نقطہ ٔ نظر، کے مطابق ان کی تشریح اور اطلاق کر سکے۔چونکہ مسلم معاشرے مغربی معاشروں کے مقابلے میں ایک الگ طرز رکھتے ہیں اس لیے کئی مواقع پر مسلم معاشروں کے لیے یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ ان معاہدوں کی شقوں یا کنونشن کے مقاصد کو اپنے مذہب اور مقامی ثقافت پرمنطبق کرسکیں۔ اس کا نتیجہ یا تو معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی کی صورت میں نکلتا ہے یا پھر معاشرتی اقدار سے ٹکراؤ کی صورت پیداہوجاتی ہے۔

بہترطریقہ کار یہی ہے کہ بین الاقوامی معاہدات میں تمام تہذیبوں اور ثقافتوں کو احترام دیا جائے اور انہیں فی الحقیقت تکثیریت (Pluralism)کا مظہر بنایا جائے۔ پاکستان نے بہت سے بین الاقوامی معاہدات اور اقدامات پر تحفظات کے ساتھ دستخط کیے ہیں(جیسے: چوتھا جنیوا کنونشن، شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی کنونشن، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازات کے خاتمے کا کنونشن) اور کئی دیگر کے حوالے سے اپنے ہاں موجود تصورات اور اس معاہدے کے مقاصد کے درمیان موجود خلاء کے حوالے سے خدشات کااظہار کیا ہے (جیسے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 18دسمبر2007ء کی قرارداد جو سزائے موت پرپابندی کا مطالبہ کرتی ہے)۔ ایسے میں حالات کو جوں کا توں رہنے دینے اور اپنے تحفظات کے باوجود چلتی لہر کے ساتھ بہتے رہنے کی بجائے پاکستان کو ایک تکثیری بین الاقوامی معاشرے کی تشکیل کے لیے قائدانہ کردار اد کرنا چاہیے۔ پہلے قدم کے طورپر پاکستان کو ان بین الاقوامی فورَمز میں چوکس اور فعال رہنا چاہیے جہاں کسی نئے معاہدے، کنونشن یا پروٹوکول کو تیار کیا جارہا ہو یا ان کی تشریح و تطبیق کے اصول طے کیے جا رہے ہوں۔پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان فورمز پر اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرے تاکہ ان میں ہونے والی گفتگو کا پیش منظر وسیع کیا جاسکے اور متن میں اسلامی اور دیگر خیالات کو مقام مل سکے۔ اس موقع پر پاکستان کو چاہیے کہ وہ دنیا بھر میں موجود ریاستوں، اداروں، لابیز، گروپوں اور محققین (مسلمانوں اور اپنے خیالات سے ہم آہنگ غیرمسلموں)کو اپنے ساتھ لے کر چلے۔ اسی طرح کی تحریک جلد یا بدیر نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ مقامی طور پر بھی ایک صحت مند تبدیلی لے آتی ہے۔ اس صورت میں تمام افراد اپنی تہذیبوں اور ثقافتوں کو برقرار رکھنے اور انہیں مضبوط بنانے کے لیے بین الاقوامی معاہدوں میں ایک نقطۂ اتصال (Convergence Point)ڈھونڈ لیں گے اور ان کی پیروی کریں گے۔

بنیادی سبب کی نشان دہی : خواتین اور خاندانی نظام سے متعلق مسائل کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو جامع اصلاحات اور آگاہی کے متقاضی ہیں ، اور صرف قانون کی نظر سے انہیں دیکھنا اورحل کی کوشش کرنا تمام تر کاوش کو یک رُخا کر دیتی ہے۔ان میں سے ایک مثال جاگیردارانہ نظام کی ہے جو اپنے اصل معنوں میں تو شاید بیشتر علاقوں میں ختم ہوچکا ہے لیکن اس نے ایک ایسی ذہنیت پیدا کردی ہے جو پورے معاشرے میں لوگوں کے رویوں، طرزِزندگی اور طرزِبیان میں جھلکتا ہے۔ اس ذہنیت کی ایک بنیادی خصوصیت مقام، مرتبہ اور دولت کا ناجائز استعمال اور اس کی ہوس میں ہرکمزور اور بے بس انسان کے حقوق سے انکار ہے ۔ صاف ظاہر ہے کہ خواتین اس کالازمی شکار ہوتی ہیں۔ خواتین کے حقوق کو زبردستی اپنے اختیار میں لے لینے، وراثت میں ان کے حصے سے انکار، ان کی مرضی ومنشا کے خلاف شادی، عزت کے نام پر تنازعات، اور واجبات و ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے اِن کا استعمال، خاندانی رسم ورواج حتیٰ کہ مذہب کے معاملات میں بھی ان کا استحصال اسی جاگیردارانہ ذہنیت کی علامات اور توضیحات ہیں۔

ملک میں موجود بیشتر مسائل کا بنیادی سبب کمزورطرزحکمرانیہے۔اس کا حل بھی نئے قوانین میں تلاش کیا جاتا ہے، تاہم یہ قوانین بدعنوانی، بلیک میلنگ اور طاقت اور اختیار کے غلط استعمال کے امکانات کوکئی گنا بڑھادیتے ہیں۔ ایک ہی موضوع پر کئی کئی قانون موجود ہونے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے ۔چنانچہ جس چیز پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے وہ پولیس، عدلیہ اور دیگر عوامی خدمت کے اداروں کاکردار ہے ۔ قانون کی کتابوں میں نئے صفحات کا اضافہ کردینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین اور اداروں کو اس قابل بنایاجائے کہ وہ احساس ذمہ داری سے سرشار اور جواب دہی کے لیے تیارہوں۔

جب تک رویوں اور سوچ کے زاویوں میں تبدیلی نہیں آتی قانون کی مدد سے کسی متعین جرم کی سزا توتجویز کی جاسکتی ہے ، لیکن یہ قانون اس نوعیت کے جرم کے رجحان کے خاتمے کا سبب نہیں بن سکتا۔ ایسی اصلاحات کی جانی چاہییں جن کی مدد سے دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں ہونے سے روکا جاسکے۔ تعزیری اقدامات کے علاوہ انصاف پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے تمام کوششیں بروئے کار لانی چاہییں۔خاص طور پر اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ تعلیم اور روزگار کے مواقع ملک کے تمام علاقوں کے باشندوں کے لیے یکساں ہوں تاکہ لوگوں کو یہ طاقت فراہم کی جاسکے کہ وہ خود سے جاگیرداری کے شکنجے سے چھٹکارا حاصل کرسکیں اورمعاشرے میں وہ تبدیلی لاسکیں جو اسے جاگیردارانہ نظام سے دُور لے جائے۔
 معاشرے کے تمام شعبوں کو حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے جن عوامل کو اہمیت حاصل ہے وہ زیادہ سے زیادہ بیداری،حساسیت، تعلیم اور مشاورت ہیں۔ جب تک معاشرے کے ارکان خود سے ذمہ دار نہ ہوجائیں ، قوانین کاکوئی بھی مجموعہ چاہے وہ کتنا ہی مضبوط ومؤثر کیوں نہ ہو،دوسروں کے حقوق کا احترام کرنے کے لیے انہیں قائل نہیں کرسکتا۔

اب جبکہ سماجی خدمات، شادی اور اس سے متعلقہ معاملات کو اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کی ذمہ داری بنادیا گیا ہے ،اس بات کی ضرورت ہے کہ صوبائی اسمبلیاں خود کو اس قابل ثابت کریں کہ خواتین کودرپیش مسائل کے حل کے لیے صوبے کے مخصوص حالات اوروہاں موجود مؤثر طریقہ کار کو سامنے رکھتے ہوئے قانون سازی کے عمل کو جاری رکھ سکیں۔ تاہم وفاقی دارلحکومت کے لیے کی جانے والی تمام تر قانون سازی اب بھی پارلیمنٹ ہی میں ہونا ہے، لہٰذا پارلیمان کے پاس یہ موقع موجود ہے کہ وہ ہر طرح کے موضوعات پر قانون سازی کے ذریعے اچھی مثال پیدا کرکے راہنما کاکردار ادا کرے اور صوبوں کے لیے تقلیدکا باعث بنے۔ یہ بھی امید کی جانی چاہیے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود قانون ساز اراکین اسمبلی سامنے آنے والے مسائل، معاملات اور معاشرے کی مشکلات سے نبردآزمائی میں زیادہ فکرمندی، آگاہی اور احتیاط کا مظاہرہ کریں گے۔ یہ لوگ خاندان کے ادارے کو مضبوط ومستحکم کریں گے، اچھے اوربرے کی تمیز کرنے والی اخلاقی اقدار کو پروان چڑھاتے ہوئے خواتین کی اس عزت واحترام کوبحال کریں گے جس کی وہ یقینی طورپر مستحق ہیں۔

ڈائونلوڈ ای بک

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے