جنگ اور اسلام کا تصّورِجہاد
مسلم اور غیر مسلم ریاستوں کے مابین تعلقات کی نوعیت
جہاد کے حوالے سے اسلام کے تصورِجنگ پر گفتگو کرنے سے قبل ایک بنیادی سوال پوچھناضروری ہے: دو ممالک کے مابین فطری اور حقیقی تعلق کیا ہے؟ خاص طور پر اس صورت میں جبکہ ایک ملک مسلمان اور دوسرا ملحقہ یا ہمسایہ ملک غیر مسلم ہو؟
یہ سوال دو وجوہات کی بنا پر اہم ہے۔ تاریخ انسانی کے چند نمایاں مفکرین نے یہ قاعدہ بیان کیا ہے کہ دو ممالک کے مابین تعلقات کی حقیقی نوعیت امن نہیں بلکہ جنگ ہے۔ وہ افراد جنہوں نے یہ تصور پیش کیا ان میں افلاطون (Plato)جیسے افراد بھی شامل ہیں۔ اسلام پر لکھنے والے چند مغربی اہلِ علم بشمول عراق کے ایک عیسائی عالم ماجد خدوری(۱۹۰۹ء۔۲۰۰۷ء)اور امریکہ کے ایک یہودی عالم بر نارڈلیوس (پیدائش۱۹۱۶ء)نے اس رائے کوچند مسلمان فقہاء۔ جس میں امام ابو حنیفہ بھی شامل ہیں۔ سے منسوب کیا ہے۔ اپنی کتاب ’’اسلام کے قانون میں جنگ اور امن۸ ‘‘میں خدوری کے بیان کے مطابق امام ابوحنیفہ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مسلمان اور غیر مسلم ملک کے مابین تعلق کی نوعیت صرف اور صرف جنگ کی ہے۔ ماجد خدوری کی پیش کردہ دلیل بڑی دلچسپ ہے وہ کہتا ہے ، کیونکہ امام ابو حنیفہ نے پوری دُنیا کو بالعموم دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا تھا: دارالاسلام یعنی اسلام کا علاقہ اور دارالحرب یعنی جنگ کا علاقہ ۔ چنانچہ انہوں نے یہی سمجھا ہوگا کہ غیر مسلم دنیا کے ساتھ فطری تعلق حرب یا جنگ کے علاوہ ہو ہی نہیں سکتا۹۔ لیکن اس نتیجے تک پہنچنے میں، خدوری نے اس تقسیم کی اصل خاصیت کو نظر انداز کردیا اور ان تمام وضاحتوں کو بڑی آسانی کے ساتھ ایک جانب رکھ دیا جو کہ دوسرے حنفی فقہاء نے اس معاملے میں بالخصوص حنفی فقہاء اور بالعموم مسلمان فقہاء کی پوزیشن کے حوالے سے کی ہیں۔
"دارالاسلام اور دارالحرب کی اصطلاحیں نہ تو قرآن اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں کہیں بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ ان اصطلاحات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تقسیم کی مستقل اور معیار قائم کرنے والی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اصطلاحیں تو وہ ہیں جنہیں مختلف فقہاء نے اپنے اپنے زمانے اور علاقے میں درپیش حالات پر گفتگو کرنے کے لیے استعمال کیا۔”
دارالاسلام اور دارالحرب کی اصطلاحیں نہ تو قرآن اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں کہیں بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ ان اصطلاحات اور ان کے نتیجے میں ہونے والی تقسیم کی مستقل اور معیار قائم کرنے والی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اصطلاحیں تو وہ ہیں جنہیں مختلف فقہاء نے اپنے اپنے زمانے اور علاقے میں درپیش حالات پر گفتگو کرنے کے لیے استعمال کیا۔ امام ابو حنیفہ کے زمانے میں، اس وقت موجود دونوں مسلمان ریاستیں۔ یعنی مشرق میں بنو عباس اور مغرب میں بنو امیہ کی حکومتیں۔ یا تو ہمسایہ طاقتوں کے ساتھ عملی طور پر مصروف جنگ تھیں یا ان کے مابین ایک قسم کی عارضی جنگ بندی تھی۔ اس لیے دوسری صدی ہجری کے مسلمانوں نے یقیناًیہی محسوس کیا ہوگا کہ غیر مسلم طاقتوں کے ساتھ ان کے تعلقات کا خاصہ یا تو حقیقی جنگ یا پھر جنگ بندی کے درمیانی عرصے میں دبی ہوئی عداوت ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ تعلقات کی صرف انہی دو اقسام کا حوالہ دیتے ہیں۔
دوسری وجہ کہ ایک مسلمان ملک اور اس کے غیر مسلم ہمسایے کے مابین فطری تعلق کی بابت اس طرح سے۔ جیسا کہ اسلامی قانون اور فقہ میں اسے تصور کیا گیا ہے ۔ جاننا اس لیے ضروری ہے کہ مغربی مصنفین کی توجہ اس جانب بھی نہیں گئی کہ حنفی فقہاء سمیت مسلمان فقہاء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ اگر ایک مسلما ن مُلک کسی دوسرے ملک کے ساتھ دوستی یا تعاون یا باہمی سمجھوتے کے معاہدے کے ذریعے ایسے پُر امن تعلقات میں داخل ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں مستقل یا عارضی طور پر عداوت ختم ہو جاتی ہے تویہ دارالعہد یا عہدو پیمان کا علاقہ بن جاتا ہے۔ عہدو پیمان یا معاہد علاقے کی وہی قانونی حیثیت ہے جو کہ دارالاسلام کی ہے جہاں کے لوگوں کو مستقل بنیادوں پر امن و سلامتی اور تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۱۰۔ بعدازاں اس نکتے کی مزیدوضاحت کی جائے گی۔
قرآنِ پاک کے مطابق ایک مسلمان ملک اور اس کے ہمسایوں کے مابین تعلقات کی خاصیت نہ صرف پُر امن بقائے باہمی بلکہ انصاف اور شفاف معاملات ہیں۔ قرآنِ کریم کے الفاظ ہیں: ’’تعالو الی کلمۃ سواء‘‘ جس کا مطلب ہے ’’ایسی بات کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے۱۱‘‘ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین اس یکساں بنیاد کو حاصل کرنا اوراسے قائم رکھنا ہی ان کے مابین تعلقات کی مستقل اور حقیقی نوعیت ہے۔ قرآن میں آتا ہے، ’’اللہ تمہیں سلامتی کے گھر کی جانب دعوت دیتا ہے۱۲‘‘سلامتی کے گھر یا دارالسلام کو بنانا اسلامی شریعت کا بنیادی اور حتمی مقصد ہے جب تک یہ مستقل تعلق قائم نہیں ہو جاتا، جہاد کو حقیقت کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔
۸۔ خدوری، ۱۹۶۰ء
۹۔ ’دار‘ کے تصّور پر مختصر نوٹ کے لیے ملاحظہ تھانوی، ۱۹۹۶ء،صفحات۷۷۸،۷۷۹۔ مزید تفصیل کے لیے آگے دیے گئے کام کا حوالہ ملاحظہ ہو۔
۱۰۔ زیدان، ۱۹۶۳ء، ص۱۸
۱۱۔ القرآن، آل عمران۳:۶۴
۱۲۔ القرآن، یونس۱۰:۲۵
جواب دیں