اسلامی مائیکروفنانس: ‘اخوت’ ایک جائزہ

اسلامی مائیکروفنانس: ‘اخوت’ ایک جائزہ

 

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں ۲۰ فروری ۲۰۱۳ کو منعقدہ ایک سیمینار میں مقررین نے کہا کہ پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لیے بنکاری کے اداروں کے ذریعے مائیکروفنانس کی بہت سی اسکیمیں متعارف کروائی گئی ہیں لیکن سود پر مبنی ہونے اور استحصالی پہلووں کی بنا پر انہیں پاکستانی معاشرے میں قبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ انہوں نے اسلامی مائیکروفنانس کو ایک بہتر متبادل نظام قرار دیتے ہوئے رضاکارانہ انسانی خدمات کی بنیاد پر وضع کردہ اخوت فاؤنڈیشن کے ماڈل کی اپروچ اور طریقہ کار کی تعریف کی ۔

"اسلامی مائیکروفنانس: ‘اخوت’ ایک جائزہ” کے عنوان سے منعقدہ سیمینار کی صدارت نامور ماہر معاشیات، اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد نے کی جبکہ ڈائریکٹر جنرل شریعہ اکیڈمی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر طاہر منصوری نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ دیگر مقررین میں اخوت فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر محمد امجد ثاقب، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں شعبہ اسلامی بنکاری کے چیئرمین پروفیسر خلیق الزماں، الہدایہ سنٹر برائے اسلامی معیشت کے محمد صارم غازی اور آئ پی ایس کی سینئر ایسوسی ایٹ امینہ سہیل شامل تھیں۔ سیمینار میں اسلامی طریقے سے چھوٹے قرضوں کی اسکیموں کے لیے کیے جانے والے بہت سے پاکستانی تجربات اور ان کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ان میں سب سے بڑے اور نمایاں تجربے، اخوت فاؤنڈیشن، پر ایک کیس اسٹڈی کی حیثیت سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔

 

1

 

پروفیسر خورشید احمد نے اس موقع پر کہا کہ بنکنگ سیکٹر میں غیر معمولی ترقی کے باوجود اس کی خدمات کی فراہمی معاشرے کے امیر طبقے پر مرکوز رکھی گئی ہے۔انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے روایتی بنکوں کو دی گئی ان واضح ہدایات کو بڑے پیمانے پر نظر انداز کیا گیا ہے کہ وہ اپنی خدمات کا 20فیصد غریبوں کے لیے مختص کریں۔
پروفیسر خورشید احمد نے "اخوت” کے کامیاب تجربے کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اسے وقت کی اہم ترین ضرورت کو پورا کرنے والا اقدام اور قوم میں ایمان، امید اور تحرک پیدا کرنے کا سامان قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ معاشی دنیا میں سود کی بنیاد رکھنے والی روایتی مائیکروفنانس نے اگرچہ کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں لیکن سود کے عنصر نے اس کی مجموعی تصویر میں استحصالی پہلو ہی کو نمایاں کیا ہے۔ اسلامی معاشیات میں پہلے "اوپر سے نیچے کی طرف” کی اپروچ نمایاں تھی لیکن اب "نیچے سے اوپر کی طرف” والی اپروچ بھی نمایاں ہورہی ہے۔ اخوت کا تجربہ اس کی ایک مثال ہے اوریہ ایک خوش آئند پہلو ہے۔ قرضِ حسنہ اسلامی تعلیمات کا ایک اہم گوشہ ہے جسے لوگ عام طور پر انفرادی نیکی کا کام خیال کرتے تھے۔ تاہم اخوت نے اس تصور کو صحیح اسپرٹ کے ساتھ منظم کیا ہے اور اسے اداراتی شکل دی ہے اور پیشہ ورانہ انداز اپنایا ہے۔

انہوں نے توجہ دلائی کہ اسلامی معاشی نظام میں قرض حسنہ ایک ماڈل ہے۔ اسلامی معاشیات میں شراکت اور حصہ داری کے لیے بھی کئی ماڈل ہیں۔ اسلامی بنکوں نے ان ماڈلز پر کام کیا ہے، اسے نچلی سطح پر بھی اپنانے اور منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر ادارہ میں شریعہ بورڈ کا اداراتی تصور مناسب نہیں۔ ہمیں اپنا ہرکام شریعت کے مطابق کرنے کا اہتمام تو ضرور کرنا چاہیے لیکن اس کے لیے ایک لگا بندھا نظام بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔جب شرعی اصول و قواعد کے ماہرین اور کاروبار چلانے کے ماہرین مِل جل کر خلوص کے ساتھ کسی پراجیکٹ پر کام کریں گے تو ایسے پراجیکٹ کی کامیابی کا امکان زیادہ ہو جائے گا۔

 

4 3

 

اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کہا کہ ہم نے مدینہ منورہ کے اسلامی بھائی چارہ کے تصور کو عملی زندگی میں اپنانے اور دوسروں کے دکھ درد کو بانٹنے کے لیے اپنی زندگی کو ایثار کا نمونہ بنانے کی ایک کوشش کی ہے۔ اخوت فاؤنڈیشن قوم میں خود داری، سادگی، خدا خوفی اور رزقِ حلال کے لیے محنت و خلوص سے کام کرنے کی عادت ڈالنے کی ایک تحریک ہے۔ سود سے بچنے ، بچانے، غریبوں کی خدمت کرنے اور معاشی طور پر انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا ایک انداز ہے۔ بارہ سال قبل چند ہزار روپے سے کام کا آغاز کر کے اخوت نے اب تک 3.6 ارب روپے کی رقم غریب لوگوں کو قرضوں کے طور پر جاری کی ہے۔ جس سے دو لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد خاندانوں نے استفادہ کیا ہے۔ اس وقت بھی ایک لاکھ چالیس ہزار قرضے گردش میں ہیں۔ قرضوں کی وصولی کا تناسب 99.8 فی صد ہے۔ پاکستان کے 105 شہروں اور قصبوں میں اخوت کی 155 برانچیں قائم ہیں۔

 

7 5 8 10

 

ڈاکٹرامجد ثاقب نے کہا کہ سود سے پرہیز، مسجد کی بنیاد پر سرگرمی، رضاکارانہ کام اور قرض لینے والوں کو یہ ترغیب کہ وہ خود قرض دینے والے بنیں ہمارے بنیادی اصول ہیں۔ معاشرے میں بھلائی اور خیر کو فروغ دینے اور نچلے طبقات میں معاشی استحکام پیدا کرنے میں اخوت نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے اپنے پُرخلوص کام کے ذریعے حکومت کو بھی غریبوں کے لیے کچھ ٹھوس کام کرنے پر آمادہ کیا۔ ڈیڑھ سال پہلے حکومتِ پنجاب نے دو ارب روپے کا قرضہ حسنہ فنڈ بنایا اور شفاف طریقے سے یہ رقم بھی اخوت کے ذریعے، اخوت کی اسکیم کے مطابق غریبوں میں تقسیم کی جارہی ہے۔ اس سرکاری رقم کا حساب کتاب الگ رکھا جاتا ہے۔

 

6
12

 

ڈاکٹر طاہر منصوری نے کہا کہ اس بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عالم اسلام خصوصاً پاکستان میں مسلمان سود پر مبنی معیشت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ اور اس کا ثبوت اسلامی اداروں کی وہ تیز رفتار ترقی ہے جو حالیہ برسوں میں ہوئی ہے۔ غربت کے خاتمہ کے لیے روایتی سودی بنکنگ کمپنیوں کے بعض اقدامات پرسوالات بھی اٹھتے رہے ہیں اور انہوں نے معاملات کو گھمبیر بھی بنایاہے تاہم ان کے خدشات کا کافی حد تک ازالہ اسلامی مائیکروفنانس اداروں اور منصوبوں نے کیا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سب کچھ کے باوجود زیادہ پائیدار فریم ورک اور اثاثہ جات کی بنیاد پر کاروبار پر زور دینے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر خلیق الزماں نے اس موقع پر مائیکروفنانس اور اسلامی مائیکرو فنانس کا ایک مکمل تقابلی جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے چند ایسے پہلوؤں کی نشاندہی کی جن میں بہتری کی ضرورت ہے اور کچھ سفارشات بھی پیش کیں جن کی مدد سے اسلامی مائیکرو فنانس اداروں کے طریقہ کار کو مزید ترقی دی جاسکتی ہے اور انہیں مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔

اس سیمینار میں مالیات اور بنکاری کے پیشہ ور ماہرین، تحقیق کاروں، اساتذہ اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

نوعیت:   روداد سیمینار

تاریخ:     ۲۰ فروری ۲۰۱۳ء

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے