اسلام کی تعبیر ،جدیدیت اور پاکستان میں خواتین کے حقوق
24دسمبر 2014ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں’’اسلام کی تعبیر، جدیدت اور پاکستان میں خواتین کے حقوق ‘‘کے موضوع پر ایک نشست منعقدہوئی۔ خاص مہمان ڈاکٹر انشا وائس تھیں جو امریکہ میں یونیورسٹی آف آریگون کے شعبہ بین الاقوامی امور کی سربراہ اور پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے کردار کے لیے مشترکہ امور کی تلاش اور ان پر اتفاق رائے قائم کرنے میں حکومتی سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے نزدیک یہ اس طرح ممکن ہے کہ معاشرے کے تمام طبقات کو اعتماد میں لیاجائے اور ان امور پر قانونی اصلاحات اور پالیسیاں مرتب کی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین دہائیوں میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں لوگوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کے ذریعے انہوں نے جتنا کچھ پاکستانی معاشرے کو سمجھا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ معاشرے میں خواتین کے کردار اور مرتبے پر مختلف نوعیت کے نقطۂ ہائے نظر مروج ہیں تاہم ان تمام تر آراء میں اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق اور کردار کا تعین اسلام کی روشنی میں ہی طے کیا جانا چاہیے۔ان کی رائے میں مسئلہ اس وقت کھڑا ہوتا ہے جب ہر گروہ اسلام پر اپنی تعبیرہی کو درست تسلیم کرنے پر اڑ جاتا ہے۔
مختلف النوع اور بعض اوقات متضاد تعبیریں مختلف طبقات کے درمیان بداعتمادی کے باعث مزید تقویت پا جاتی ہیں جو تضاد کے رحجان کوپروان چڑھاتی ہیں اور اس کا نتیجہ چپقلش کی صورت میں سامنے آتاہے۔ ڈاکٹر وائس کی تقریر کے بعد سوال و جواب کی نشست ہوئی جس سے اس موضوع کے دیگر مختلف پہلو بھی سامنے آئے۔
آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے صدارت کے فرائض ادا کرتے ہوئے باہمی تبادلہ خیال کی اس نشست کا اختتام اس رائے پر کیا کہ خواتین کے کردار اور حقوق سمیت ہر سماجی پہلو کے مطالعے کے لیے مذہب کے ساتھ ساتھ ثقافتی، اقتصادی، سماجی اور تزویراتی پہلوئوں پر جامع تفہیم کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے میں کمزور طبقات کی ناگفتہ بہ صورت ِ حال کو گہرا کرنے ،انہیں ان کے حقوق سے محروم کرنے اور ان کی حیثیت کو مجروح کرنے میں جاگیرداری نظام، جاگیر دارانہ سوچ اور حکمرانی سے متعلق مسائل نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
جواب دیں