عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات
ان تینوں چیزوں کو اگر ہم سامنے رکھیں تو مجھے توقع ہے کہ ان شاء اﷲ آپ اپنی ذمہ داری ادا کرسکیں گے۔
سوال و جواب
سوال: اسلامی معاشیات یا Islamic economics کی تعریف فرمادیں، جو کم از کم فقہ کی نظر سے سمجھنا آسان ہو۔
پروفیسر خورشید احمد: بڑا مشکل سوال آپ نے کیا ہے، بظاہر بہت آسان بھی ہے۔ جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے، دنیا میں علوم پہلے develop ہوتے ہیں اور اُن کی تعریف بعد میں متعین ہوتی ہے۔ اسی طریقے سے مباحث اور مواعظ اور دروس برسوں ہوتے رہتے ہیں، ٹیکسٹ بک بعد میں آتی ہے۔ مثلاً میں آپ کو معاشیات ہی کی ایک مثال دوں، کہ معاشی اُمور پر تو بحث شروع سے ہوتی رہی ہے لیکن مغرب میں یہ کہا جاتا ہے کہ معاشیات پر سب سے پہلی کتاب ۱۷۷۶ ء میں آدم سمتھ نے لکھی جس کا عنوان تھا: The Wealth of Nations یعنی یہاں سے معاشیات کا آغاز ہوا، لیکن سو سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد غالباً ۱۸۹۰ء میں الفریڈ مارشل نے Principles of Economics کے نام سے پہلی ٹیکسٹ بک یا درسی کتاب تحریر کی۔ تو ہمارا مسئلہ بھی یہ ہے کہ اسلامی معاشیات الحمد لِلّٰہ develop ہورہی ہیں، مباحث بھی اُس میں آرہے ہیں، رہنمائی بھی آرہی ہے، عمل بھی ہورہا ہے، لیکن کوئی متعین تعریف اور کوئی متعین درسی کتب ابھی وجود میں نہیں آئی ہیں، گو ہم اُس کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن ایک working definition جو ہم نے بنائی ہے وہ یہی ہے کہ ’’انسان کے معاشی مسائل کا اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں مطالعہ اور حل‘‘۔ جس میں یہ بھی شامل ہے کہ معاشی مسئلہ ہے کیا۔ یہ نہیں ہے کہ معاشی مسئلہ وہ define کریں اور پھر ہم بتائیں کہ اسلام نے کیا کہا ہے۔ بلکہ یہ بھی ہم ہی بتائیں کہ دراصل معاشی مسئلہ ہے کیا، اور پھر جو مسئلہ ہے اس کے حل کے لیے اسلام نے کیا راستہ اختیار کیا ہے۔ اب مثال کے طور پر یہ جو پورا تصور ہے معاشیات کا کہ وسائل کم ہیں، انسان کی ضروریات لامحدود ہیں، اور ہم نے سارا کھیل ان دونوں کے درمیان ایک رشتہ قائم کرنے میں کرنا ہے، یہ تصور قابل بحث ہے۔ ایک خاص وقت میں کچھ وسائل محدود ہیں، اس سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا ۔ لیکن یہ بات کہ وسائل ناکافی ہیں اور ہمیشہ ناکافی رہیں گے، یہ بات صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح ضروریات بھی لامحدود نہیں ہیں، نہ صرف محدود ہیں بلکہ ترجیحات ہیں ۔ اور آپ یہ دیکھیے کہ سوچ میں کتنا فرق ہے کہ جب مغرب کے معاشی مفکرین نے انسان کی ان ضروریات کو متعین کیا تو اُنہوں نے تین نوعیتیں یا categories رکھیں: necessities, comforts and luxuries یعنی وہ چیزیں جو ضروری ہیں، وہ چیزیں جو سہولت ہیں اور وہ چیزیں جن کے اندر تعیش شامل ہے۔ مسلمان مفکرین نے جب اسی مسئلے پر غور کیا تو انہوں نے یہ کہا کہ کیا چیز ضرورت ہے، کیا چیز حاجت ہے اور کیا چیز تحسین ہے۔ یعنی کوئی تصور تعیشات کا اُس کے اندر نہیں لایا گیا۔ تو یہ سوچنے کا فرق ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ انسان کے معاشی مسئلے کی تعریف بھی، اُس کا تعین بھی اور پھر اُس کے حل کے ذرائع اور طریقے قرآن و سنت کی روشنی میں۔ یہ ہے اسلامی معاشیات، اور یہ اسلامی معاشیات اسلام کا ایک حصہ ہے، اسلام سے کٹ کر خود معاشی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ یعنی معاشی مسائل کے حل کے لیے بھی غیر معاشی عوامل کی ضرورت ہوگی، اور یہی ہمارا نقطۂ نظر ہے، جسے آپ holistic یا ایک مجموعی یا ایک ایسا تصور کہہ سکتے ہیں جو انسان کی پوری شخصیت کو، انسانی معاشرے کے تمام پہلوؤں کو بیک وقت لے کر چلنا چاہتا ہے۔ یہ اسلامی معاشیات کا تصور ہے۔
سوال: آپ نے اپنی گفتگو میں فرمایاکہ موجودہ معاشی نظام میں مالیاتی مسائل سے زیادہ اخلاقی مسائل ہیں جو اس کو تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔ تو اخلاقی زوال تو ہمارے معاشرے میں بھی پایا جاتا ہے۔اگر اسلامی نظام والے معاشرے میں بھی اخلاقی خرابی کام کرتی رہی اور کچھ مالی نقصان ہو گیا تو الزام تو اسلامی نظام پر آئے گا۔ اس اخلاقی مسئلہ کو ٹھیک کیے بغیر ہم کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟
پروفیسر خورشید احمد:آپ نے بہت اہم مسئلہ کی نشان دہی کی ہے ۔دیکھیے، مسئلے کا حل کیا ہے؟ پہلی بات جو میں آپ سے کہہ دوں کہ بلاشبہ ہمارے ہاں بھی اخلاقی مسائل ہیں، اس حوالے سے ہم مسلسل رُوبہ زوال ہیں۔ بگاڑ بڑھ رہا ہے، کرپشن بڑھ رہی ہے اور ہم اس سے چشم پوشی نہیں کرسکتے۔ ساتھ ہی یہ ذہن میں رکھیے کہ ہر دور میں اخلاق سے ہٹ کر کام کرنے والے لوگ بھی رہے ہیں، اور اسی لیے آپ کو پتہ ہے کہ تعزیری نظام بھی ہے، احتساب کا نظام بھی ہے، اصلاح کا نظام بھی ہے، یہ سب چیزیں ہماری پوری تاریخ میں رہی ہیں۔ لیکن اپنے اس سارے بگاڑ کے باوجود میں آپ سے پوری دیانت داری سے کہتا ہوں کہ آج بھی اخلاقی اعتبار سے ہمارا معاشرہ نام نہاد مہذب اور مغربی معاشرے سے بہت بہتر ہے۔ ہاں یہ ہے کہ ہم بھی بگاڑ کی طرف بڑھ رہے ہیں، اسے روکنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اب بھی بہت بہتر ہیں۔ اب بھی اس معاشرے میں بڑا خیر موجود ہے۔ ایک مثال آپ کو دیتا ہوں۔ حکومت کے ذرائع سے غربت کو کم کرنے کے لیے جو کام کیا جارہا ہے، اگر اُس کا مقابلہ آپ اُس سے کریں جو زکواۃ، صدقات، خاندانوں میں ایک دوسرے کی مدد کی بناء پر کیا جارہا ہے، تو اس سلسلے میں خود اہلِ مغرب کے اداروں نے جو studiesکی ہیں وہ بھی یہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں نجی سطح پر خیرا ور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے کا بہت رحجان پایا جاتا ہے۔ یہ میں آپ کو سات آٹھ سال پہلے کی بات بتا رہا ہوں،جب کہ اُس وقت کی حکومت کی طرف سے تعلیم اور صحت کے لیے مرکزی بجٹ میں بیس، اکیس بلین روپے رکھے جاتے تھے، جب کہ تحقیقی اداروں کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں صدقات، خیرات اور دین کی بنیاد پر نوے سے سو ارب روپے تک خرچ ہورہے ہیں، اور اس رقم میں اُن افراد کی محنت کا معاوضہ شامل نہیں ہے جو اپنا وقت رضاکارانہ طور پر دیتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں ہارورڈ سے بھی اسٹڈی آئی ہے کہ اگرچہ امریکہ میں امیروں کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن امریکہ کی جو پاکستانی کمیونٹی ہے، یہ پاکستانی کمیونٹی سب سے زیادہ سخاوت کرنے والی کمیونٹی ثابت ہوئی ہے۔
تو ہمارے معاشرے کے اندر آج بھی خیر ہے، الحمد لِلّٰہ! لیکن بات آپ کی بالکل درست ہے ۔ اور یہ میری اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہم ہر ممکن طریقے سے اخلاقی زوال کو روکنے کی کوشش کریں۔ اس کا پہلا مرحلہ تو تعلیم و تلقین ہے۔ اس لیے کہ اخلاق کی بنیاد ہے، اﷲ کا خوف، آخرت کی جواب دہی کا احساس۔ یہ احساس جتنا زیادہ ہم پیدا کریں گے، اپنے گھر میں، اپنے بچوں میں، اپنے طلبہ میں، اپنے معاشرے میں، مسجد کے ذریعے سے اور دیگر ذرائع سے، اتنا ہی ہم اس زوال کو روک سکیں گے۔ دوسری توجہ طلب چیز ہے، میڈیا۔ آج میڈیا بگاڑ کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ اس پر گرفت کرنے کی، اس کے اصلاح کرنے کی، اور اس کو صحیح رُخ دینے کی بے حد ضرورت ہے۔ اس کے بعدنظامِ تعلیم، سیاسی قیادت، دینی قیادت، پھر حکومت، یہ سارے ذرائع اس میں ذمہ دار ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود میں یہ بات کہتا ہوں کہ مالی معاملات کو تحریر میں لانے کا پابند کر دیا جائے تو پھر قانون کی خلاف ورزیوں اور بداخلاقیوں کا دروازہ اگر بند نہیں ہوتا تو کم از کم محدود ضرور ہوجاتا ہے۔ قرآن کا حکم بھی یہی ہے کہ مالی معاملات کو تحریر میں لایا جائے۔ اسی طریقے سے میں نے یہ بات لکھی بھی ہے اور کہی بھی ہے کہ اس ملک کے قوانین کے اندر بھی بڑی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی اس وقت معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ سود کمائیں تو وہ آپ کی cost of production کا حصہ بن جاتا ہے، لیکن اگر آپ نفع کا حصہ لیں تو وہ taxable کہلاتا ہے۔ یہ قانون کی خرابی ہے۔ اس لیے کہ ایک آدمی مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنے نفع کو نہ دکھلائے، ایک غلط کام کرے۔ تو اخلاقی اصلاح کی بھی ضرورت ہے اور قانونی اصلاح کی بھی ضرورت ہے۔ ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارے بنک جو اسلامی کام کررہے ہیں، وہ اس بات کی کوشش کریں کہ عوام میں ایک اخلاقی احساس بھی بیدار کریں کہ ہم آپ کو حلال کی طرف لارہے ہیں، حرام سے بچارہے ہیں، تو اس میں آپ بھی اس بات کا پورا احساس کریں کہ کوئی چیزاگر آپ ہم سے چھپاتے ہیں تو یہ صرف دنیاوی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ اُخروی اعتبار سے بھی ایک خسارے کا سودا ہوگا۔ اگر یہ سارے پہلو آپ اختیار کریں تو حالات بدلیں گے۔ اوریہ بات واضح ہے کہ اخلاق کی اصلاح کے بغیر صرف معیشت یا سیاست ہی نہیں، کسی چیز کی بھی اصلاح نہیں ہوسکتی۔
سوال: اسلامی بنکاری کے نام سے جو کچھ ہو رہا ہے اس میں جید علماء پیش پیش ہیں۔ تا ہم کراچی کے چند دیگر جید علماء کی یہ رائے بھی سامنے آئی ہے کہ وہ فقہ اور اجتہاد کی بنیاد پر ہونے والے اس کام کو اسلامی نہیں مانتے۔ عام مسلمان جو اسے اسلامی سمجھ کر اس کی طرف آ رہے ہیں یا ایسے بنکوں میں ملازمت کر رہے ہیں وہ تردد کا شکار ہیں۔ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
پروفیسر خورشید احمد: میں نے دبے الفاظ میں اشارہ کردیا تھا اُس بات کی طرف جس کی طرف آپ نے متوجہ کیا ہے۔ مجھے دکھ ہوا اُس بحث سے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ہی گروپس کے جو علماء ہیں وہ بڑے قابل عزت ہیں، قابل احترام ہیں۔ لیکن تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ وہ بحث ذاتیات پر پہنچ گئی ہے اور اس کی وجہ سے ایک بڑے مقصد کو نقصان ہوا ہے، اعتماد متأثر ہوا ہے۔ لیکن بڑے ادب سے میں عرض کروں گا کہ میری نگاہ میں جن افراد نے اس قیمتی کام کی تنقیص کی ہے اُن کے دلائل زیادہ قوی نہیں ہیں۔ اور اسی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ جو مثبت کوشش ہوئی ہے اور جس کے پیچھے صرف پاکستان ہی کے نہیں پوری دنیا کے علماء موجود ہیں اُس کو میں ایک زیادہ قابل قدر، زیادہ بہتر اور دلائل کے لحاظ سے زیادہ قوی سمجھتا ہوں۔ ہمیں اس کا خیال کرنا چاہیے۔
سوال: آپ نے بڑی خوبصورت بات کی کہ ہمارے ہاں وراثت میں مال و دولت کا حصہ حاصل کرنے پر تو زور ہوتا ہے لیکن کفالت کی ذمہ داریوں میں جو حصہ ہوتا ہے اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ان شرعی تعلیمات کو منبر و محراب سے بھی بیان کیا جانا چاہیے۔کیا اس طرح کچھ شعور و بیداری پیدا کی جاسکتی ہے؟
پروفیسر خورشید احمد: بہت شکریہ، جزاک اﷲ خیر! میں نے خود بھی اس طرف اشارہ کیا تھا اور جو علماء کی ذمہ داریاں ہیں اُس کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ اُس میں شعور و بیداری (awakening)کو ایک بڑے اہم نکتے کی حیثیت سے میں نے آپ لوگوں کے سامنے رکھا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ شریعت کے تمام احکام کو، خصوصیت سے اجتماعی زندگی سے متعلق جو چیزیں ہیں، اُن کی تعلیم کا فریضہ ادا کریں۔ اس معاملے میں، میری رائے میں، بہت غفلت برتی جارہی ہے۔ چند موضوعات ہیں جن پر صبح و شام اور ہر جمعہ کی خطبے میں بات کی جاتی ہے لیکن جو دوسرے پہلو ہیں جو اُتنے ہی اہم ہیں اُن کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اگر آپ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے ملفوظات دیکھیں، تو آپ یہ پائیں گے کہ سوسائٹی کے چھوٹے چھوٹے مسائل میں بھی، جہاں کہیں اُن کو بگاڑ نظر آیا انہوں نے اُن سب کو لیا۔ بلکہ کبھی کبھی پڑھتے ہوئے آدمی محسوس کرتا ہے کہ یہ انہی جیسے بلند درجہ آدمی کا کمال تھا جو ان معمولی چیزوں کو بھی بیان ضرور کردیتا تھا۔ اور اسی سے پھر ’’شریعت میں کوئی شرم نہیں‘‘ کا محاورہ بھی وجود میں آیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس زمانے میں بڑی غفلت ہے۔ خود وراثت کو آپ لے لیجیے۔ وراثت میں یہ ہے کہ اسلام نے عادلانہ تقسیمِ دولت کا نظام بنایا ہے، ایک بہت بڑی تعداد اُس پر بھی عمل نہیں کرتی۔ نفقۃ العقارب تو دوسری چیز ہے۔ ہمیں اس کو بھی ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ خود زکواۃ و صدقات، انفاق، ہمسائے کے حقوق، رشتے داروں کے حقوق، سگے بھائیوں کے حقوق ادا نہیں ہورہے ہیں اور لوگوں کو احساس نہیں ہے اس بات کا۔ اسلام تو یہاں تک گیا ہے کہ اگر ایک محلے میں یا بستی میں ایک شخص قتل ہوجاتا ہے اور اُس کے مجرم نہیں پکڑے جاسکے، تو اُس پوری بستی پر دیت عائد کی گئی ہے۔ ہماری تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی، خدانخواستہ اگر کہیں فاقے سے کوئی شخص کسی محلے میں مرجائے تو اُس کی ذمہ داری اس علاقے کے لوگوں پر ہے۔ یہ محض اخلاق نہیں، قانون کا حصہ ہے، لیکن لوگوں کو اس کا علم نہیں ہے۔ تو ان چیزوں کو پھیلانے کی، سمجھانے کی ضرورت ہے۔ جوکچھ لوگوں کو پتہ ہے اس سے الحمد لِلّٰہ بہت خیر رونما ہورہا ہے۔ لیکن اگر ہم پوری تعلیمات لوگوں تک پہنچائیں اور اس پر عمل کریں تو آپ دیکھیں گے کہ پورا معاشرہ خیر سے بھر جائے۔ تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسے پہنچائیں۔ اور اسی لیے میں نے یہ بات آپ سے کہی تھی کہ آگہی اور awareness پیدا کرنا میری اور آپ کی ذمہ داری ہے۔ مجھے دکھ ہوتا ہے کہ آج ٹی وی پر جو دینی پروگرام ہوتے ہیں اُن میں ایسی ایسی چیزیں پیش کی جاتی ہیں جو اُلجھاؤ پیدا کرتی ہیں، اُن پر غیر ضروری بحثیں ہوتی ہیں، اور وہ جو کھلی کھلی اور دو اور دو چار کی طرح واضح ہدایات ہیں دین کی، جس کے ذریعے سے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی بالکل ایک دوسرا نمونہ بن سکتی ہے، اُس کی طرف کوشش نہیں کی جاتی۔ اس لیے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان چیزوں کو اہمیت دیں اور اُن کو پھیلائیں۔
سوال: کیا آپ نے عربوں کی تاریخ کا حوالہ دے کر آج کی کاغذی کرنسی کو جواز فراہم کیا ہے؟
پروفیسر خورشید احمد: دیکھیے، کاغذی کرنسی ایک چیز ہے، اور کاغذی کرنسی کو کسی basis کے بغیر جاری کرنا اور چیز ہے۔ اگر وہ ذریعہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن جب وہ خود money creation کا ذریعہ بن جائے تب اُس سے خرابی پیدا ہوتی ہے۔
سوال: موجودہ دور میں جو financial crisis چل رہے ہیں اس میں اسلامی بنک کہاں تک کامیاب ہو سکتے ہیں؟ کیا ایسے ماڈل ہیں جن میں پورے اطمینان سے لوگ اپنی بچتوں کی سرمایہ کاری کر سکیں؟
پروفیسر خورشید احمد: میں نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ یعنی بحیثیت مجموعی اس سمت میں قدم تو اٹھایا گیا ہے، لیکن جس تناسب سے ہونا چاہیے وہ صحیح نہیں ہے۔ اس وقت مرابحہ کی بنیاد پر تقریباً ۸۰سے۸۵ فیصدی تک بچتوں کا استعمال ہورہا ہے۔ مضاربت اور مشارکت مشکل سے چار سے آٹھ فیصدی ہیں۔ باقی سرمایہ دیگر قسموں میں استعمال ہورہا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اس کا تناسب برابر بڑھے۔ صرف سوڈان ایک ایسا ملک ہے جس میں مضاربت اور مشارکت کی بنیاد پر معاشی سرگرمیوں کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے، اور جو آخری رپورٹ میں نے پڑھی تھی اُس میں کوئی ۳۸ فیصد اُن کے ہاں اس شکل میں آگیا تھا۔ جو میری نگاہ میں بہت ہی اچھی developmentہے۔ تمام مسلم ملکوں میں ہمیں اس سمت میں بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اور جہاں تک مغربی معاشرے کا تعلق ہے، مغربی معاشرہ مجبور ہورہا ہے کہ اس طرف آئے۔ لیکن میری نگاہ میں اب جس مقام پر وہ پہنچ چکے ہیں اُس میں ان کے لیے بڑا مشکل ہے کہ وہ دوبارہ سارے وسائل کو real economy کی طرف لاسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل معاشی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔
جواب دیں