عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات

عالمی معاشی بحران اور اسلامی معاشیات

 

بگاڑ کے اسباب
     اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خواہ آپ علمِ معاشیات کودیکھیں یا معاشی نظام کو، جب اس کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو نظامِ سرمایہ داری اور موجودہ معاشی اور مالیاتی نظام کے بگاڑکے پانچ بنیادی اسباب ہیں۔ ان کو اچھی طرح سمجھ لیجیے اور اسی کے تقابل میں پھر ہم دیکھیں گے کہ اسلامی معاشیات اور اسلام کے سوچنے کا رویہ کیا ہے۔
    اخلاقیات کا انکار: بگاڑ اور ناکامی کا پہلا سبب زندگی کی تقسیم ہے یعنی مذہبی اور غیر مذہبی، اخلاقی اور اخلاق سے عاری، دنیاوی اور اُخروی کی تقسیم۔ جس کے نتیجے کے طورپر، خواہ وہ علمِ معیشت ہو، خواہ وہ معاشی معاملات ہوں، خواہ وہ حکومت کی کارکردگی ہو، خواہ وہ معاشی پالیسیوں کا بنانا ہو، ان کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے سامنے صر ف مادی فلاح اور مادی فلاح کا پیمانہ بھی پیداوار کی اضافت، دولت میں اضافہ، بلالحاظ اس کے کہ اس کی تقسیم منصفانہ ہے یا نہیں، اور یہ سارا کام بس فراہمی اور طلب کے قوانین کے تحت ہونا چاہیے، اس کے لیے کوئی اخلاقی حدود، کوئی الہامی ہدایت، کوئی بالاتر ضابطہ، نہیں۔ یہ سب سے پہلی خرابی ہے۔
    زندگی کی وحدت کو نظر انداز کرنا: دوسری خامی یہ ہے کہ انسانی زندگی کی وحدت کا تصور نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ دراصل انسانی زندگی مجموعہ ہے بے شمار پہلووں کا: روحانی، جسمانی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی، سیاسی، قانونی، نفسیاتی۔ یہاں بھی specialization کے نام پر زندگی کی اس وحدت کو پارہ پارہ کردیا گیا ہے اور ہر علم نے کوشش کی ہے کہ زندگی کی پوری اکائی کو صرف اپنے محدود نقطہ نظر سے دیکھے، اُس کی تعبیر کرے اور اُس کو بدلنے کی کوشش کرے۔معاشیات میں بھی زندگی کے باقی تمام پہلو، خواہ اُن کا تعلق نفسیات سے ہو، اخلاقیات سے ہو جس کی بات تو ہم نے پہلے ہی کی ہے سیاست سے ہو، معاشرت سے ہو، ادارات سے ہو،نظر انداز کیے گئے تو اس کے نتیجے کے طور پر ایک غیر فطری نظام بنا اور محض و ہ لوگ جن کے ہاتھ میں مالی قوت تھی، جو ٹیکنالوجی پر حاوی تھے، وہ اس پورے نظام کے کرتا دھرتا ہوگئے ۔ یہ دوسری خرابی ہے۔
    منڈی کی غیر منصفانہ اہمیت: تیسری خرابی یہ ہے کہ منڈی اور مارکیٹ کو ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ انسانی زندگی میں کیا آپ چاہیں، کیا آپ نہ چاہیں، کیا پسندیدہ ہے کیا پسندیدہ نہیں ہے، اس کا فیصلہ قیمتوں پر نہیں ہوسکتا۔ اس کا فیصلہ محض اس چیز پر نہیں ہوسکتا کہ کس کے پاس قوتِ خرید ہے اوروہ چیزوں کو خرید سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں مارکیٹ ایک اہم ادارہ ہے، اس سے انکار نہیں، مارکیٹ وسائل کو ترقی دینے اور distributeکرنے کے لیے ایک مؤثر چیز ہے، لیکن اگر ہم صرف مارکیٹ کو ہر معاملے کو طے کرنے کا کام سونپ دیں تو یہ زندگی کو بگاڑ دیتا ہے۔ تو تیسری بنیادی خرابی یہ ہے کہ سوسائٹی کو محض معیشت اور معیشت کو محض مارکیٹ تک محدود کردیا گیا ہے، اور پھر ساری پالیسی سازی، انفرادی اور سرکاری سطح پر، اسی پر ہورہی ہے۔
    صلاحیت اور عدل میں عدم توازن: چوتھی خرابی یہ ہے صلاحیت اور عدل میں توازن برقرار نہیں رکھاگیا۔بلاشبہ انسان کی معاشی زندگی میں کارکردگی، اہلیت، پیداآوری (productivity)اہم ہیں، جسے معاشیات کی اصطلاح میں efficiency کہتے ہیں۔ لیکن efficiencyسب کچھ نہیں ہے۔ efficiency کے ساتھ ساتھ عدل، انصاف، حقوق کی پاسداری اور اس اہلیت کا، اس صلاحیت کا ایسا استعمال جس کے نتیجے کے طور پر انسانی معاشرہ بہتر ہوسکے، ضروری ہے۔ محض دولت کی فراوانی مطلوب نہ ہو بلکہ تمام انسانوں کی خوشحالی مطلوب ہو۔ تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ efficiency اور equity ایک دوسرے سے کٹ گئے، عدل کو بھی ٹکسال باہر کردیا گیا۔
    پیسے سے پیسا بنانا: اس سلسلے میں پانچویں اور آخری چیز، جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا، وہ یہ تھی کہ مالیات کا اصل کام پیداوار کو، معاشی وسائل کو، وسائلِ حیات کو مناسب مقدار میں مرتب اور منظم کرکے مفید تر بنانا تھا۔ اب ترتیب اُلٹی ہوگئی ہے۔ اب اصل چیز دولت ہے۔ زیادہ سے زیادہ مال بنانا، جائز اور ناجائز ہی نہیں بلکہ بلالحاظ اس کے کہ ان مالی وسائل سے حقیقی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے یا کمی ہوتی ہے۔ توبگاڑ کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ یہاں پیسے سے پیسہ بنتا ہے۔
    یہاں میں اشارتاً عرض کردوں کہ اسلام کا یہ ایک بڑا انقلابی تصور ہے کہ زر اور مالیات انسانی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے، لیکن زر سے زر پیدا نہیں ہوتا، محض مالیات سے مزید مالیات پیدا نہیں ہوتیں، مالیات سے فوائد پیدا ہوتے ہیں اگر اس کو حقیقی پیداوا ریا خدمات کو بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے ۔ قرآن نے ایک چھوٹے سے جملے میں اس پورے انقلابی اصول کو بیان کردیا کہ
 وَأَحَلَّ اللَّـہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا
’’حالانکہ اﷲ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ۔‘‘ (۲:۲۷۵)
 رِبا یہ ہے کہ مالیات سے مالیات پیدا ہوں، بلالحاظ اس کے کہ یہ مالیات پیداواری عمل میں کوئی کردار ادا کریں۔ اور بیع یہ ہے کہ مالیات استعمال ہوں شے کو خریدنے، اسے پیدا کرنے، بنانے، اُسے فروخت کرنے میں۔ اس طرح گویا اشیاء اور خدمات کو جنم دینے سے مالیات اپنا اصل کردار ادا کرتی ہیں اور اس طرح سوسائٹی کے اندر value added ہوتا ہے۔ یہ ہے بنیادی نظام۔ مغربی معیشت اور معاشیات دونوں نے آہستہ آہستہ زر اور مالیات کا تعلق، حقیقی معیشت، حقیقی پیداوار اور معاشرے میں اشیائے صرف اور خدمات کے فروغ اور فراوانی سے توڑ دیا۔
    یہ پانچ بنیادی خرابیاں ہیں۔ جب تک ان کی اصلاح نہ ہو۔ یہ چھوٹی موٹی چیزیں جو ہورہی ہیں کہ bail out کردو یعنی مزید قرض دے دو اور بنکوں کو کسی طرح بچالیا جائے، یہ اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ حتیٰ کہ اب تو حکومتوں کو بچارہے ہیں، اور کھربوں ڈالر اس کے لیے خرچ ہوئے ہیں، عام انسانوں کے۔ اور ظلم یہ ہے کہ اُسی عمل میں امریکہ میں جو دو ملین گھرانے رہن (mortgage) کی بناء پر بے گھر ہوئے، انہیں کسی نے bail outنہیں کیا۔ لیکن بڑے بڑے بنک جن کے مینیجرز اور چیئرمین billions ڈالر بطور تنخواہ اور بونس کے وصول کرتے ہیں اُن بنکوں کو bail out کیا گیا ہے، ٹیکس دہندگان کے پیسے سے۔ اور اب یہ کام حکومتوں کے لیے ہورہا ہے۔ سب سے پہلے آئس لینڈ کو کیا، آئرلینڈ کو کیا۔ اس وقت یونان کو کیا جارہا ہے۔ پھر اسپین اور اٹلی ہیں۔ یعنی یہ بڑے بڑے ممالک ہیں جو اس وقت bail out ہورہے ہیں۔ اس سارے بحران کی بنیادی وجوہات وہ ہیں جو بیان کی گئیں۔ جب تک اصل جڑ تک نہیں پہنچیں گے معاملات درست نہیں ہوں گے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے