حدود و تعزیرات:چند اہم مباحث
محمد عمار خان ناصر(مؤلف) | المورد،۱۵۔کے،ماڈل ٹاؤن۔ لا ہور | جولائی۲۰۰۸ء | ۳۶۵صفحات | مجلد مع گردپوش| ۱۱۰روپے
برصغیر پاکستان وہند کی تحریک ِ آزادی اورمطالبۂ پاکستان کی تاریخ سےآگاہ افرادپر یہ بات روزِروشن کی طرح عیاںہےکہ وطن عزیز کےنظریاتی مقصدِوجود کی تکمیل اس خطےمیںشریعتِ اسلامیہ کےنفاذ کےبغیر ممکن نہیں۔ قیام پاکستان کےفوراًبعد اسلامی دستور کی تدوین اوراسلامی قوانین کےنفاذ کےمطالبات سامنےآ گئےتھے، مگر حکمران ان مطالبات کو اصولاًتسلیم کرنےکےباوجود کسی ٹھوس اقدام سےگریزاں رہے، وقت گزرتا رہا، حتیٰ کہ ۱۹۷۷ء میں ایک بار پھر پوری قوم نےنظامِ مصطفی کےنفاذ کےلیےبھرپورتحریک چلائی۔ یہ تحریک وقت کے’’ذہین‘‘اور’’مضبوط‘‘حکمرانوں کواپنےساتھ بہالےگئی، مگر اقتدار کی کرسی ایک فوجی آمر نےاُچک لی۔ جنرل محمدضیاء الحق نےجن حالات میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا،اس کاتقاضا تھاکہ وہ نفاذِشریعت کواپنےایجنڈےمیں شامل کرتے، چنانچہ انہوں نےنفاذِشریعت کےحوالےسےکچھ نیم دلانہ اقدامات کیے۔ان ہی اقدامات میں سےایک ’’حدودآرڈی نینس‘‘ (۱۹۷۹ء)کا نفاذ تھا۔
’’حدود آرڈی نینس‘‘کی تسویدمیں اسلامی نظریاتی کونسل اوربعض دوسرےاہل علم نےحصہ لیا تھا،اور اپنےطورپر بہت غور و خوض کےبعد اسےنافذکیا گیا تھا،تاہم آرڈی نینس میں انسانی فکرودانش کا ایک عنصرشامل تھا، اورکوئی بھی قانونی نظام اس انسانی عنصر سےخالی نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سےحدود آرڈی نینس کےبارےمیں اختلاف رائےچنداں تعجب انگیز نہیں تھا،اوربالخصوص اس لیےکہ ایک طویل تعطل کےبعد گلوبلائزیشن کےدورمیںیہ حدودو تعزیرات نافذ کی جا رہی تھیں۔’’حدودآرڈی نینس‘‘کی مخالفت میںاُٹھنےوالی ان آوازوںکی تو چنداںاہمیت نہیںجن میںوطن عزیز کی نظریاتی اساس ہی کو تسلیم نہیںکیا جاتا،البتہ حدودو تعزیرات کےنفاذ کو مؤثر بنانےاورشریعت اسلامیہ کےمقاصد کی تکمیل کےحوالےسےمتبادل تجاویز پر غورو فکر ضروی ہےاور یہ سلسلہ علمی سطح پرجاری ہے۔کچھ عرصہ پہلےاسلامی نظریاتی کونسل نےحدود وتعزیرات کےحوالےسےاپنی نئی سفارشات مرتب کیںجن کاجائزہ جناب محمد عمار خان ناصر نے لیا۔(’’حدود و تعزیرات:اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کاجائزہ‘‘،اسلام آباد:اسلامی نظریاتی کونسل حکومت پاکستان،ستمبر۲۰۰۷ء)۔اب جناب ناصر نےاسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کےجائزےکو پھیلا کر زیر نظر کتاب پیش کی ہے۔زیر نظر کتاب کےموضوعات کےچند عنوان یہ ہیں:
- شرعی سزاؤںکی ابدیت و آفاقیت
- سزاکےنفاذ اوراطلاق کےاصول
- قصاص و دیت کی بحث
- قصاص و دیت میںمسلم اورغیر مسلم میںامتیاز
- زنا کی سزا
- قذف کی سزا
- سرقہ کا نصاب
- حرابہ اورفساد فی الارض
- ارتداد کی سزا
- توہینِ رسالت کی سزا
- شہادت کا معیاراور نصاب
- غیر مسلموںپر شرعی قوانین کا نفاذ
- قضا اورشہادت کےلیےغیر مسلموں کی اہلیت
جناب محمد عمار خان ناصر اورکتاب کےمقدمہ نگار جناب ابو عمار زاہد الراشدی نفاذِ شریعت کےحوالےسےامت مسلمہ کےعلمی و رثےاورفقہی سرمائےکی بنیاد پر ،اوراس کےمسلّم اصولوںکےدائرےمیںرہتےہوئےجدید دور کےمسائل حل کرنےکی خواہش رکھتےہیںاورجدید قانون سازی کےتقاضوںکی تکمیل چاہتےہیں۔جناب مصنف کےبقول انہوںنےاپنی سابقہ اورزیر نظر تحریر میںکوشش کی ہےکہ ’’زیر بحث امور کےحوالےسےروایتی فقہی موقف کےبالمقابل جو نئی آراء و تعبیرات پیش کی گئی ہیں،ان کےعلمی پس منظر اوراستدلال کو واضح کیا جائےاوران نکات کو متعین کیا جائےجن کی تنقیح بحث و مباحثہ کو علمی انداز میںآگےبڑھانےکےلیےضروری ہے۔‘‘(ص۱۶)
جناب مصنف کےزاویۂ نظر سےان بزرگوںکو شاید ہی اتفاق ہو گا جو ’’اکابر‘‘کی ذاتی آراء سےسرِموانحراف کو ’’صراطِ مستقیم ‘‘سےانحراف کےمترادف قرار دیتےہیں۔جناب مؤلف کےبیان کردہ واقعی پس منظر کو ذہن میںرکھتےہوئےکتاب کےمطالعےسےواضح ہوتا ہےکہ ’’اجماع امت‘‘اور’’جمہور کےمسلک ‘‘کےخلاف کوئی موقف اختیارکرنا کوئی اتناسنگین جرم نہیںکہ’’اکابر‘‘کےمزاج کی دہائی دیتےہوئےاس کی مخالفت کی جائے۔مقصودتو یہ ہےکہ شریعتِ اسلامیہ کا نفاذ ہوجائےاورصاحب ِشریعت کی نظر میںجو فوائد تھے،ان سےبنی نوع انسان فائدہ اٹھا سکیں۔جناب محمد عمار خان ناصر کےزاویۂ نظر اورطرزِاستدلال سےجزوی اختلاف کا حق کسی بھی صاحب ِ نظر کو حاصل ہے،مگر حقیقت یہی ہےکہ انہوںنےسنجیدگی سےاپنےموضوع پرقلم اٹھایا ہےاوردلیل و برہان کےساتھ بات کی ہے۔
کتاب کی ورق گردانی کرتےہوئےکہیںکہیںتشنگی محسوس ہوتی ہے،اورقاری وضاحت کی توقع رکھتا ہے۔مثال کےطورپر مقدارِ دیت کی بحث میںجناب مؤلف سو اونٹوںکو زمانۂ جاہلیت سےرائج چلی آنےوالی مقدارِدیت کےطورپر دیکھتےہیںجسےبنی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نےبرقرار رکھا تھا۔پھر اس بحث کو اصولی سطح پر سمجھنےکےلیےدو مقدمات کا ذکر کرتےہیںجن میںسےدوسرےمقدمےکےالفاظ یہ ہیں:’’جہاںنبی صلی اللہ علیہ وسلم کےقول و فعل اورتصویب سےثابت بہت سےاحکام ابدی تشریع کی حیثیت رکھتےہیں،وہاںان کی ایسی قسم بھی موجود ہےجو اصلاً’قضا‘اور’ سیاسہ‘ کےدائرےمیںآتی ہےاورجن میںزمان و مکان کےتغیر سےتبدیلی ممکن ہے۔ان اصولی مقدمات پر اتفاق کےبعد اہل علم کےمابین بعض مخصوص احکام کےحوالےسےیہ اختلاف پایا جاتا ہےکہ ان کو پہلی قسم کےدائرےمیںرکھا جائےیا دوسری قسم کے۔۔۔‘‘(ص۹۰)
یہاںجناب مؤلف نےنبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کےاحکام کو دو قسموںتشریعی احکام و غیر تشریعی احکام میںتقسیم کیا ہے،اورپھر اس پر اجماع و اتفاق کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ہمیںاس تقسیم و تفریق کی دلیل معلوم نہیں۔جناب مؤلف نےکتاب کےعمومی نہج سےہٹ کر اپنےاس دعوےاورتقسیم پر کوئی دلیل یا حوالہ بھی ذکر نہیںکیا۔
شریعت و قانون اوربالخصوص وطنِ عزیز میںنفاذشریعت سےعلمی اورعملی دلچسپی رکھنےوالوںکےلیےاس کتاب میںغور و فکر کاخاصا سامان موجود ہے۔کتاب نہایت خوبصورت انداز میںشائع کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ سےدُعا ہےکہ جناب مؤلف کی عمر،اُن کےوقت اورصلاحیتوںمیںمزید اضافہ فرمائے۔آمین
ماخذ: نقطہ نظر، شمارہ ۲۸، اپریل، ستمبر ۲۰۱۰ء ۔
نوعیت: کتاب پر تبصرہ
جواب دیں