وفاقی بجٹ ۱۳۔۲۰۱۲ء : ایک جائزہ
بجٹ اور مالیاتی پوزیشن
۱۱۔۲۰۱۲ءکے دوران کارکردگی کا جائزہ
جاری مالی سال (۱۱۔۲۰۱۲ء )کے دوران میں مالیاتی کارکردگی توقعات سے کم رہی۔ مالیاتی خسارہ جس کے لیے اندازہ تھا کہ یہ مجموعی قومی پیداوار (GDP)کا 4.0فی صد رہے گا، GDP کے 7.4فی صد تک بلند ہوگیا جس کی بنیادی وجوہات محصولات میں توقع سے زیادہ کمی اور اخراجات میں اضافہ تھا۔ نتیجتاً قرض پر انحصار کرنا پڑا۔ سب سے بڑا سبب اخراجات جاریہ میں نمایاں اضافہ تھا۔ مجموعی ملکی قرضے GDPکے 60فی صد تک پہنچ گئے جبکہ قرض کی ادائیگی اخراجات کی سب سے بڑی مد بن گئی ہے۔
۱۱۔۲۰۱۲ءکے نظر ثانی شدہ بجٹ میں بھی یہی تصویر نظر آئی۔ نظر ثانی شدہ تخمینہ جات میں ٹیکس اور دیگر محصولات میں 13فی صد کی کمی سامنے آئی جس کو بینک اور دیگر ذرائع سے بھاری قرض حاصل کرکے پورا کرنے کی کوشش کی گئی۔ بیکنگ سسٹم سے حاصل کیا گیا قرض ابتدائی اندازوں سے 3گنا زیادہ تھا جس کے خطرناک نتائج افراط زر میں اضافے اور نجی شعبے کو دینے کے لیے بینکوں کے پاس سرمایہ کی کمی کی صورت میں سامنے آئے۔ بیرونی دنیا سے تعلقات کے پیش نظر بیرونی وصولیوں میں بھی 45%کمی دیکھنے میں آئی، اور نتیجتاً بینکوں یا دیگر ذرائع سے قرض کی ضرورت بڑھتی گئی۔ اس طرح، ایک ایسا بجٹ جس کی منصوبہ بندی 56فی صد ٹیکس اور دیگر مقامی ذرائع اور 44فی صد قرض کے ذرائع پر کی گئی تھی، بالکل الٹ (یعنی 44فی صد حکومتی ذرائع اور 56فی صد قرض )ثابت ہوا ۔
اخراجات کی مد میں بھی اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اخراجات جاریہ بجٹ اندازوں سے 10.4فی صد زیادہ ہوگئے جبکہ ترقیاتی اخراجات میں بھی 4.7فی صد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اخراجات جاریہ کا ایک بڑا حصہ قرض اور سود کی ادائیگی، دفاع، سبسڈیز اور سول انتظامیہ کے اخراجات پر مبنی تھا۔ اس طرح بجٹ کے اندازے اور مالیاتی کارکردگی توقعات سے کم رہی جس سے نہ صرف غیر موثر طرز حکمرانی اور انتظام کی نشان دہی ہوتی ہے بلکہ اس کے اثرات افراطِ زر میں اضافے اور قرض پر خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے انحصار کی شکل میں بھی سامنے آرہے ہیں۔
پارلیمنٹ میں وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کیا جانے والا مالی سال ۱۲۔۲۰۱۳ءکا بجٹ، جیسا کہ اعلان کیا گیا ہے، میکرواکنامک استحکام کو یقینی بنانے کے مقصد کے ساتھ سامنے لایا گیا ہے۔ بجٹ کا کل حجم 3203ارب روپے ہے جوکہ گزشتہ سال کے نظر ثانی شدہ تخمینوں سے معمولی زیادہ ہے۔ بجٹ میں توقع رکھی گئی ہے کہ ٹیکس اور غیر ٹیکس محصولات میں اور اس کے ساتھ ساتھ بیرونی ذرائع سے حاصل ہونے والی رقوم میں نمایاں اور دیرپااضافہ ہوگا جبکہ بینکوں اور دیگر ذرائع سے لیے جانے والے قرض میں کمی واقع ہوگی!
ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ اخراجات جاریہ کو رواں مالی سال کے نظر ثانی شدہ تخمینوں کی سطح سے قدر ے نیچے رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ترقیاتی اخراجات میں %23.7 اضافہ کیا گیا ہے۔ ماضی کے ریکارڈ اور حکومت کے خرچ کرنے کے رحجان کو دیکھتے ہوئے، یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ان رقوم میں اضافہ نہیں ہوگا۔
ٍ جہاں تک اخراجات جاریہ کا تعلق ہے، ان کی تمام مدات (قرض و سود کی ادائیگی، دفاع اور سول انتظامیہ) کے لیے مختص رقوم میں اضافہ کیا گیا ہے جبکہ کمی صرف سبسڈی میں کی گئی ہے اور اس کو ۱۱۔۲۰۱۲ءکے نظر ثانی شدہ تخمینے 512ارب روپے سے کم کر کے 208.5ارب روپے پر لایا گیا ہے۔بجٹ میں کفایت شعاری کا کوئی عنصر نظر نہیں آتا اور ایوان صدر، وزیراعظم ہاؤس اور اعلیٰ حکومتی اداروں کے لیے مختص رقوم میں نمایاں اضافہ کیا گیا۔
بجٹ میں ٹیکس اور دیگر حوالوں سے ریلیف کے کچھ اقدامات شامل ہیں جن میں سے نمایاں درج ذیل ہیں:
- حکومتی ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنوں میں %20اضافہ
- بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP)کے لیے مختص رقوم میں اضافہ
- یوٹیلٹی اسٹورز کے ذریعے روزمرہ استعمال کی ضروری اشیاء پر سبسڈی
- تکنیکی تربیت اور انٹرن شپ پروگرام
- انکم ٹیکس سے مستثنیٰ رقم کی حد 3سے 4 لاکھ روپے
- کسٹمز ڈیوٹیز میں کمی
بجٹ میں تجویز کیے گئے مندرجہ بالا اور دیگر اقدامات ملک میں سرمایہ کاری اور شرح نمو کی بحالی، معاشی استحکام کو یقینی بنانے اور عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے واضح طور پر نا کافی ہیں۔
پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام (PSDP)کا حجم بڑھا کر 871ارب روپے کر دیا گیا ہے جس میں صوبوں کا حصہ 513ارب روپے اور وفاق کا حصہ 360ارب روپے ہوگا۔
دفاعی اخراجات کے لیے مختص رقم (545ارب روپے)قرض اور سود کی ادائیگی کے لیے رکھی جانے والی رقم (926 ارب روپے) کے بعد دوسری سب سے بڑی مد ہے۔ یہ رقم گزشتہ سال دفاع کے لیے رکھی جانے والی رقم سے 10فی صد زیادہ ہے۔ افراط زر کو دیکھتے ہوئے حقیقی معنوں میں یہ کوئی اضافہ نہیں ہے۔ دفاعی بجٹ کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں اور آپریشنل اخراجات پر خرچ ہوتا ہے اس طرح اثاثہ جات اور ترقیاتی اخراجات کے لیے صرف 120ارب روپے کی رقم بچتی ہے جو ان حقائق کو دیکھتے ہوئے نہایت کم ہے کہ Coalition Support Fund (CSF)کی رقوم رکی ہوئی ہیں اور علاقائی تناظر یہ ہے کہ بھارت اپنے دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافے کے ساتھ اس کو 42ارب ڈالر تک لے جا چکا ہے۔ صرف جاری مالی سال میں بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں 17فی صد اضافہ کیا ہے اور یہ 2007سے 2011کے عرصے کے دوران ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ اس وقت دنیا بھر میں درآمد ہونے والے ہتھیاروں کا 10فی صد صرف بھارت درآمد کرتا ہے
جواب دیں