سیمینار: فاٹا-فوجی آپریشن کے بعد
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں منعقدہ ایک سیمینار میں ماہرین نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے معاملات کو درست سمت دینے اور وہاں کے رہائشیوں کو حکومت میں شامل کرنے سے ہی فوجی آپریشن کے بعد کے حالات سنوارے جا سکتے ہیں۔
’’فاٹا-فوجی آپریشن کے بعد ‘‘کے موضوع پر ہونے والے سیمینار سے سابق سفیر ایاز وزیر، تجزیہ کار سلیم صافی، فاٹا کے صحافی ناصر داور نے خطاب کیا جبکہ نظامت کے فرائض آئی پی ایس کے سینئر ایسوسی ایٹ بریگیڈئر (ریٹائرڈ) سید نذیر نے ادا کیے۔
ماہرین نے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے اسے ایک المیہ قرار دیا کہ فاٹا کے لوگوں کی اپنے علاقے اور اپنے معاملات کے بارے فیصلہ سازی کے امور پر توکہیں نمائندگی موجود نہیں ہے لیکن ان کے ارکان پارلیمنٹ اپنے علاقے کے سوا سارے ملک سے متعلق مسائل پر ہونے والی قانون سازی میں حصہ لے سکتے ہیں۔
ایاز وزیرنے زور دیتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کے مطابق فاٹا کے لوگوں کو خود سے فیصلہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ کس طرح کی حکومت چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خطے کو صوبہ خیبر پختون خوا میں شامل کیا جاسکتا ہے یا بلتستان کی طرح وفاق کے ماتحت الگ آئینی مقام دیا جاسکتا ہے تا کہ ان کے پاس ایک فرض شناس گورنر ہو جو ہر قبائلی ایجنسی سے منتخب شدہ نمائندوں پر مشتمل ’’فاٹا کونسل‘‘ کے ذریعے علاقے پر حکومت چلا سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے برعکس پاک افغان بارڈر کے اُس پاروزیر، محسود، مہمند اور دیگر قبائل انہی آئینی اور قانونی حقوق سے لطف اٹھاتے ہیں جیسا کہ کابل، مزار شریف اور باقی کے افغانستان میں لوگ اٹھا رہے ہیں۔
سابق سفیر نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ اس سال کے آغاز میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے گورنر کے نامزد کردہ افراد میں قبائلی علاقے کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا حالانکہ وہ اس سارے مسئلے میں بنیادی فریق ہیں۔
ان کے اس دعوے کی تائید سلیم صافی نے بھی کی جن کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات غلط وقت اور کمزور منصوبہ بندی سے شروع کیے گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جنگجو آپریشن شروع ہونے سے پہلے ہی علاقہ چھوڑ کر جا چکے تھے اور یہ فاٹا کے عام لوگ تھے جنہوں نے آپریشن کے نتائج کو بھگتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شمالی وزیرستان کے رہائشیوں کو علاقہ چھوڑنے کے لیے بہت کم وقت دیا گیا تھا حتیٰ کہ حکومت کے دعوؤں کے برعکس انہیں نقل مکانی کے لیے حکومتی مدد فراہم نہیں کی گئی تھی۔
سلیم صافی نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اقتصادی، سیاسی اور سماجی پہلوئوں کے بجائے فاٹا کی صورت حال پر نظر یاتی اور تزویراتی اثرات زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے سفارتی محاذ کو مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس خطے میں دوسروں کے لیے لڑی جانے والی جنگ اوربین الاقوامی سازشوں کا پردہ فاش کیا جاسکے۔
ناصر داور نے فوجی آپریشن سے پہلے اور بعد کی زمینی صورت حال کا بصیرت افروز جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن کے باعث فاٹا میں جنگجو گروپوں کے درمیان لڑائی سے فائدہ اٹھانے کا موقع ضائع ہوگیا۔
آئی ڈی پیز کیمپوں پر گفتگو کرتے ہوئے داور نے بتایا کہ شمالی وزیرستان کے بے گھر افراد کی حالت بہت بری ہے اور کیمپوں میں ان کی زندگی مسائل سے بھری ہوئی ہے۔ ان کے نزدیک اگر 2009ء میں بے گھر ہوئے جنوبی وزیرستان کے لوگوں کی موجودہ صورت حال کا حوالہ سامنے رکھاجائے تو شمالی وزیرستان کے لوگوں کا مستقبل اچھا نظر نہیں آرہا۔
بریگیڈئر (ریٹائرڈ) سید نذیر کاکہنا تھا کہ سیاسی منصوبہ سازی اور فوجی آپریشن کے درمیان رابطے کا شدید فقدان تھا۔ فوجی آپریشن کے ذریعے صاف کیے گئے سوات اور جنوبی وزیرستان کے علاقے کا مکمل کنٹرول سول انتظامیہ سالہا سال گزر جانے کے باوجود ابھی تک نہیں لے سکی۔
بحث سمیٹتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صورت حال ابھی بھی گرفت میں ہے ضرورت صرف سیاسی عزم کی ہے۔ فاٹا کے لوگوں کے دل اور دماغ جیت کر ہی اس چیلنج سے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے۔
نوعیت: روداد سیمینار
تاریخ: ۲۰ اکتوبر ۲۰۱۴ء
جواب دیں