ازبکستان کے سفیر کو الوداعیہ
نومبر۲۰۱۱ء کو پاکستان میں ازبکستان کے سبک دوش ہونے والے سفیر عزت مآب ایبک عارف عثمانوف کے اعزاز میںایک الوداعیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئر مین پرفیسر خورشید احمد، آئی پی ایس کی نیشنل اکیڈمک کونسل کے رکن اورسابق سیکرٹری جنرل وزارتِ خارجہ جناب اکرم ذکی اورپاکستان کے سابق سفیر جناب ایاز وزیر نے اظہار خیال کیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جناب ایبک عارف عثمانوف نے کہا کہ پاکستان اورازبکستان جغرافیائی مشابہت رکھنے کے ساتھ ساتھ بہت مضبوط تاریخی ، مذہبی اورثقافتی رشتہ رکھتے ہیں جسے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے اوراس سلسلہ میں مزید بلندیوں تک پہنچنے کے لیے بھرپور طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے شرکائے تقریب کو یقین دلایا کہ وہ ازبکستان میں وزارتِ خارجہ میں اپنی نئی ذمہ داری کے ساتھ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط تر بنانے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔
انہوں نے زور دیا کہ دونوں ملکوں میں باہمی اعتماد کی سطح کو بلند کرنے کے لیے دونوںملکوں کے عوام سے عوام کے رابطے اوراداروں سے اداروں کے رابطے کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان کا خیال تھاکہ’’غیر سرکاری سطح پر اداروں کے درمیان روابط نہ ہونے کے باعث جو خلاپیدا ہوتاہے، اُسے کچھ بین الاقوامی تنظیموں کو جھوٹ یا آدھے سچ کے ذریعے پر کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔‘‘
افغانستان کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ازبک سفیر نے واضح کیا کہ افغان مسئلہ کے بارے میں پاکستان اور ازبکستان کی سوچ اور نقطۂ نظر یکساں ہے۔ اس بحران کا کوئی فوجی حل ممکن نہیں ہے اورخود افغانوں کی قیادت میںامن اورمصالحت کا لائحہ عمل ہی اس حل کی بنیاد بن سکتی ہے۔
سفیر نے آئی پی ایس میںپالیسی کے حوالہ سے تحقیق کے فروغ کی پالیسی کو سراہتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ اس ادارہ نے اہم موضوعات پر وقیع تحقیقی مطالعے تیار کیے ہیں جن میں علاقائی دفاع اورخطے کے پڑوسی ممالک کے باہمی تعلقات کے موضوعات بھی شامل ہیں۔ ازبکستان میںموجود ایسے ہی اداروں سے آئی پی ایس کے روابط دونوں ممالک کے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
جناب اکرم ذکی نے کہا کہ پاکستان نے دسمبر ۱۹۹۱ء میں ازبکستان سے سفارتی تعلقات قائم کیے اورنومبر۱۹۹۲ء میں معاشی تعاون تنظیم (ECO) کادائرہ کار وسطی ایشیا کی چھ نئی آزاد ریاستوں اورافغانستان تک وسیع کردیاگیا تاکہ خطے کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک فعال علاقائی معاشی فورم موجود ہو۔انہوں نے کہا کہ ازبکستان پاکستان کی تاریخ ، ثقافت اورروایات پر دور رس اثرات رکھتاہے۔ مغل حکمران ازبکستان کے جنوبی حصے ہی سے تعلق رکھتے تھے، اورامام بخاری اورمسلمانوں کے بہت سے دوسرے درخشاں علمی ستارے بھی ازبکستان کی سرزمین سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ دونوںملکوں میں مشترکہ ثقافتی مظاہر رکھنے والے کئی نشانات اب بھی موجود ہیں۔ جیسے پاکستان میں قدیم تاریخ رکھنے والا شہر ملتان اورازبکستان میں سمرقند، بخارا اورتاشقند جیسے شہر۔پاکستان کے سابق سفیر جناب ایاز وزیر نے کہا کہ سفیرمحترم جناب عثمانوف نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اورتوقع کا اظہار کیا کہ پاکستان بھی ان تعلقات کو مستحکم کرنے میں اپنا فرض اداکرے گا۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئر مین پرفیسر خورشید احمد نے خیال ظاہر کیا کہ تاریخ کے ایسے موقع پر جب قوت کے مراکز مغرب سے مشرق میں منتقل ہورہے ہیں، ایشیا کو آئندہ برسوں میں اہم کردار ادا کرناہوگا۔علاقائی ممالک کو ان تبدیلیوں کا احساس کرتے ہوئے نئی صورتِ حال کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیارہونا چاہیے۔ انہوں نے سبک دوش ہونے والے سفیر کی ان کوششوں کو سراہا جو انہوں نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے کیں۔ دونوں ممالک کے اداروں کے باہمی روابط کو بڑھانے کی حمایت کرتے ہوئے انہوںنے جناب عثمانوف کے لیے نئی ذمہ داریوں کی بہتر طورپر ادائیگی کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہارکیا۔
تقریب کے آخر میں آئی پی ایس کے سینئر ایسوسی ایٹ اورپاکستان کے معمر ترین سفارت کاروں میں سے ایک ڈاکٹر ایس ایم قریشی نے آئی پی ایس کی جانب سے مہمان کو ایک یادگاری تصویرکا تحفہ (سووینیر) پیش کیا۔ آئی پی ایس کے ڈائریکٹرجنرل جناب خالد رحمن نے شرکاء تقریب کا شکریہ ادا کیا اوراس توقع کا اظہار کیا کہ عزت مآب ایبک عارف عثمانوف وزارتِ خارجہ میںاپنے نئے منصب پر رہتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط تر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
جواب دیں