ای- جمہوریت: ایک جائزہ
سماجی، سیاسی اور مذہبی بحث مباحثے کے لیے سوشل میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال لوگوں کو سیاسی عمل کے لیے متحرک رکھنے سے زیادہ پر سکون بنانے پہ مائل ہے۔
اس رائے کا اظہار برطانیہ میں رہائش پذیر ڈاکٹر زاہد پرویز نے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی فیکلٹی میں خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر پرویز مارک فیلڈ انسٹی ٹیوٹ آف ہائیر ایجوکیشن لیسٹر میں ڈائریکٹر کے عہدے پہ فائز ہیں اور انہوں نے برمنگھم یونیورسٹی سے ای-جمہوریت پر پی ایچ ڈی کیا ہے۔
انہوں نے دنیا بھر میں جمہوریت کے موجودہ ترقی پذیر ماڈل پر ماہرانہ رائے دیتے ہوئے خصوصی طور پر ای جمہوریت کے ابھرتے ہوئے تصور کا گہرائی سے جائزہ پیش کیا جس نے دنیا کے مختلف حصوں میں ٹیکنالوجی کے ذریعے شراکتی جمہوریت کا تصور اجاگرکیا ہے۔ انہوں نے بہتر اسلوبِ حکمرانی کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کو وقت کی ضرورت قرار دیا کیونکہ اس سے حکومت اور لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست اور بالواسطہ بات چیت کا موقع میسر ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ باوجود اس کے کہ ٹیکنالوجی غیرجانب دار نہیں ہوتی اور اقتدار میں موجود لوگ اس کا کنٹرول ہاتھ میں لیے ہوتے ہیں، یہ عام افراد کے لیے ایسے ذرائع اور مواقع فراہم کر دیتی ہے جس سے ان کی آراء بھی عوامی ہو جاتی ہیں۔ اس طرح وہ بھی اتنے بااختیار ہو جاتے ہیں کہ اپنے نقطۂ نظر کو متعقلہ حکام تک پہنچا سکیں۔
جمہوریت کی صورت گری، اس کی حمایت اور اثراندازی میں جدید ٹیکنالوجی کے کردار پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زاہد نے کہا کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر لوگوں کی شرکت میں اضافہ کے باوجود خاص طور پر مغرب میں طاقت اب بھی بڑے اور اہم کرداروں کے ہاتھوں میں مرتکز رہتی ہے۔اپنی دلیل کی حمایت میں انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ برطانوی سیاسی نظام میں کسی بھی ای پیٹیشن کو پارلیمنٹ میں قابل بحث بنانے کے لیے ایک لاکھ افراد کے دستخطوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عراق جنگ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے معاملات پر سوشل میڈیا کے ذریعے کی گئی بھرپور تحریک اور بہت بڑی تعداد میں ای پیٹیشن پر دستخطوں کے باوجود برطانوی پارلیمنٹ نے انہیں یکسر نظر انداز کر دیا۔
مقرر نے اپنے پی ایچ ڈی کورس کے دوران برطانوی ارکان پارلیمنٹ کے انٹرویوز کا حوالہ دیا جس میں انٹرویو دینے والے چند افراد نے برطانیہ کے موجودہ جمہوری نظام کو ایک ’منتخب شدہ آمریت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں شراکتی جمہوریت کو برداشت کیے جانے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں۔
سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کو رائے عامہ کو کنٹرول کرنے والے افراد کے لیے ایک چیلنج قرار دیتے ہوئے تحقیق کار نے کہا کہ جہاں ٹیکنالوجی پر لوگوں کا انحصار بڑھتا چلا جا رہا ہے وہاں وہ عالمی سطح پر اس ٹیکنالوجی کی تشکیل میں کار فرما رازوں سے بھی آگاہی حاصل کرتے جارہے ہیں۔ چنانچہ تمام خوبیوں اور خامیوں کی موجودگی میں اس کی اہمیت کسی بھی طرزِ حکمرانی کے لیے نہ تو کم کرکے دیکھی جا سکتی ہے اور نہ اسے بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے بھی خطاب کیا۔
جواب دیں