دورِ جدید اور مسلم خواتین

vailed-women

دورِ جدید اور مسلم خواتین


غیراسلامی رسوم و رواج کے خاتمے کی تحریک

مسلمان معاشروں میں مقامی ثقافتوں کے زیر اثر یا معاشرے کے بااثر طبقوں کے مفادات کی تکمیل کے لیے بہت سے جاہلانہ اور غیراسلامی طور طریقے رائج ہیں۔ مثلاً پاکستان میں وَٹہ سٹہ، کاروکاری، قرآن سے شادی، عورتوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا، عزت کے نام پر قتل،لڑکیوں کی شادی میں ان کی رضامندی کو لازمی تصور نہ کرنا، دولہا اور اس کے گھر والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ، بیوی کا مہر ادا نہ کرنا، بتیس روپے آٹھ آنے کو شرعی مہر قرار دینا،مردوں کا خود بے کار بیٹھے رہنا اور عورتوں کو روزی کمانے پر مجبور کرنا، یہ سب ایسے طریقے ہیں جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں مگر یہ صدیوں سے رائج ہیں اور ان کے خلاف کوئی طاقتور اصلاحی تحریک شروع نہیں کی جاسکی ہے۔ پاکستان میں ملک کے قیام کے بعد آئین و دستور کی حد تک اسلامی قوتوں نے بڑی کامیاب جدوجہد کی لیکن معاشرے میں رائج ان غیرمنصفانہ اور ظالمانہ رسوم و رواج کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے اور عوام کی ذہنی تربیت کے لیے نہ سیاسی جماعتوں، عوامی تنظیموں اور ذرائع ابلاغ نے کوئی قابل ذکر جدوجہد کی نہ علمائے کرام اور دینی طبقوں کی طرف سے اس سمت میں کسی منظم اور پرعزم تحریک کا آغاز ہوسکا۔اس اہم کام کو اب مزید نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے اور معاشرتی اصلاح کی ایک بھرپور اور منظم تحریک جلد سے جلد شروع کی جانی چاہیے۔ دوسرے مسلمان ملکوں میں بھی اس جانب فوری توجہ دی جانی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف گھر اور خاندان کی سطح پر مسلمان معاشروں کے حالات بہتر ہوں گے اور یوں زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی اسلام کی پیش رفت کے لیے راہ ہموار ہوگی اور دوسری جانب پوری دنیا کے سامنے بھی اسلام کے عائلی نظام کا،غلط طور پر اسلام کے کھاتے میں ڈال دی جانے والی مقامی ثقافتی خامیوں سے پاک،زیادہ سے زیادہ حقیقی نمونہ پیش کیا جاسکے گا ۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے