دورِ جدید اور مسلم خواتین
مسلم دنیا اور مغرب میں خاندان کے ادارے کی کیفیت
یہ امرباعث اطمینان ہے کہ مسلمان معاشروں میں خاندانی نظام اب بھی بڑی حد تک محفوظ ہے۔ عورتوں، مردوں اور بچوں سب کے لیے بالعموم پرسکون گھر کی نعمت برقرار ہے اور ماں باپ مل جل کر بچوں کی پرورش کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہیںاوردوسری جانب بچے بڑے ہوکر ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل ہوں تو والدین کی خدمت کو اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ جبکہ مغرب میں خاندان کا ادارہ بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکا ہے اور ایسی عورتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جنہیں روزی کمانے کی جدوجہد اور بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا بوجھ تنہا اٹھانا پڑتا ہے۔اس صورت حال نے وہاں ’’سنگل پیرنٹ‘‘ کی اصطلاح کو جنم دیا ہے جن میں بھاری اکثریت عورتوں کی ہوتی ہے۔
بی بی سی کی ویب سائٹ پر۱۱ اپریل۲۰۰۷ء کو برطانیہ کے قومی شماریاتی ادارے( آفس آف نیشنل اسٹیٹسٹکس ) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں "One-parent families on the rise” کے عنوان سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں صرف ماں یا صرف باپ کے ساتھ رہنے والے بچوں کی تعداد۱۹۷۲ء کی نسبت۲۰۰۷ء میں تین گنا ہوچکی تھی۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ۲۰۰۶ء میں ماں یا باپ میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے والے بچوں کا تناسب برطانوی بچوں کی کل تعداد کے ایک چوتھائی تک پہنچ چکا تھا جبکہ ان میں سے۹۰فی صد بچے صرف ماؤں کے ساتھ رہتے تھے۔
مغربی تہذیب کے دوسرے بڑے مرکز امریکہ میں بھی کم و بیش یہی صورت ہے۔یو ایس سنسس بیورو کی جانب سے نومبر۲۰۰۹ء میں "Custodial Mothers and Fathers and Their Child Support: ۲۰۰۷”کے عنوان سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق۲۰۰۷ء میں امریکہ میں۷ء۱۳ملین عورتیں اور مرد۸ء۲۱ملین بچوں کی’’ تنہا والدین‘‘ کی حیثیت سے پرورش کررہے تھے۔ صرف ماں یا صرف باپ کی نگرانی میں پرورش پانے والے بچوں کی تعداد اس وقت امریکی بچوں کی مجموعی تعداد کا۳ء۲۶فی صد تھی جبکہ تنہا والدین میں عورتوں کا تناسب۸۴فی صد اور مردوں کا صرف۱۶فی صد تھا۔
ان اعداد و شمار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خاندان کا ادارہ مغرب میں کس درجہ شکست و ریخت کا شکار ہے اور اس کے نتیجے میں عورتوں پر ذمہ داری کا بوجھ کس طرح بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس کیفیت کا ایک بڑاسبب باقاعدہ شادی کے بندھن کے بجائے گرل فرینڈز اور بوائے فرینڈز کی حیثیت سے وقتی پارٹنر شپ کا رواج ہے چنانچہ بی بی سی کی مذکورہ بالا رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں شادی کے بغیر ہونے والے بچوں کا تناسب۲۰۰۷ء میں۴۴فی صد تک پہنچ چکاتھا جبکہ انیس سو ستر کی دہائی میں یہ تناسب۱۲فی صد تھا۔ اس طرح کے صنفی تعلق میںاول تو مرد اور عورت دونوں اولاد سے بچنے کے خواہشمند ہوتے ہیں لیکن اولاد ہوہی جائے تو عموماً وہ عورت ہی کی ذمہ داری قرار پاتی ہے ۔ باقاعدہ شادیوں کے بعد بھی طلاق اور علاحدگی کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح اولاد کے حوالے سے عورت ہی کی ذمہ داری بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔ ان حالات میں بچوں ، عورتوں اور مردوں سب کو جن نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے، مغربی معاشروں اوران کی تقلید میں مبتلا مسلمان معاشروں کے اعلیٰ طبقات میں ان کا اظہار ذہنی و اعصابی امراض میں روزافزوں اضافے کی شکل میں بہت بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔
جواب دیں