دورِ جدید اور مسلم خواتین
سماجی سطح پراصلاحی اقدامات کی ضرورت
مکمل اسلامی نظام بلاشبہ حکومت و ریاست کو شریعت کے سانچے میں ڈھالے بغیر برپا نہیں ہوسکتا اور اس کے لیے اقتدار کی طاقت ناگزیرہے۔ متعدد اسلامی ملکوں میں اسلامی تحریکیں اس مقصدکے لیے ابلاغ و دعوت کے ذریعے سرگرم عمل ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ اشتراکیت کے خاتمے کے بعد اب سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنے ہی تضادات کی بناء پر ناکامی سے دوچار ہے جبکہ اس نظریاتی خلاء میں صدیوں کے انحطاط کے بعد اسلام ازسرنو ایک قطعی معقول و منطقی فلسفہ حیات او ر جامع و مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے ایک نئی قوت بن کر ابھر رہا ہے ۔
پوری دنیا خصوصاً ترقی یافتہ ملکوں میں قبول اسلام کا بڑھتا ہوا رجحان اور کئی عر ب ریاستوں میں عوام کی بھرپور تائید سے عشروں طویل سیکولر آمریتوں کا خاتمہ اور اسلامی فکر کے حامل عناصر کی انتخابی فتوحات اس حقیقت کے روشن مظاہر ہیں۔ لیکن حقیقی اورمثالی اسلامی معاشرہ کے قیام میں ابھی کتنا وقت اور لگے گا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم معاشرتی سطح پرخاندانی نظام کے استحکام اور عائلی زندگی کی بہتری کے لیے بیشتر اسلامی احکام پر عمل اور غیر اسلامی طریقوں سے اجتناب اسلامی حکومت کی عدم موجودگی میں بھی ممکن ہے ۔ اس لیے کم از کم اس حد تک اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے مسلمانوں کو نتیجہ خیز عملی اقدامات میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھنی چاہیے۔
جواب دیں