دورِ جدید اور مسلم خواتین

vailed-women

دورِ جدید اور مسلم خواتین


جدید مسلم معاشرے میں خواتین کے لیے روزگار کے مواقع

خواتین کی تعلیم ، صلاحیتوں اور مختلف میدانوں میں ان کی مہارت سے قومی سطح پر فائدہ اٹھانے کے لیے دور جدید کے اسلامی معاشرے میں کیا طریقۂ کار اختیار کیا جانا چاہیے، یہ سوال مسلم دانشوروں سے سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے۔ اسے حل کرنے کی بعض ممکنہ صورتوں میں سے ہمارے نزدیک ایک یہ ہے کہ پرائمری اسکول تک تدریس کا سارا کام خواتین کے سپرد کردیا جائے۔ اس کے بعد طلبہ و طالبات کے لیے الگ الگ تعلیمی ادارے ہوں۔ طالبات کے تعلیمی اداروں میں یونیورسٹی اور پیشہ ورانہ کالجوں کی سطح تک خواتین ہی تدریس کا کام انجام دیں۔اسی طرح خواتین کے الگ اسپتال بھی ان کے لیے جداگانہ روزگار کے مواقع مہیا کرتے ہیں۔ معیشت میں خدمات کے شعبہ (Services Sector)کی اہمیت دن بدن بڑھتی جارہی ہے اس شعبہ میںخواتین کے لیے تعلیم اورکام کے مواقع فراہم کیے جانے چاہییں۔ پاکستان میں ویمن بینک کا تجربہ اس سمت میں ایک اچھی مثال تھا ، دیگر شعبوں میں بھی ایسے تجربات کیے جائیں اور انہیں ان کی حقیقی روح کے مطابق آگے بڑھایا جائے تو کامیابی یقینی ہے۔ خواتین کے اپنے بازار مینا بازاروں کی شکل میں کامیابی سے چل رہے ہیں، ان سے نہ صرف خواتین کو روزگار حاصل ہوتا ہے بلکہ خریدار خواتین بھی بسہولت خریداری کرسکتی ہیں۔ اس سلسلے میں مزید پیش رفت کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ بہتر سہولتوں کے ساتھ ایسے بازاروں کو مستحکم بنایا جانا چاہیے اور ان کی تعداد میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔خواتین کے انڈسٹریل ہومز کے تجربات بھی بہت کامیاب رہے ہیں۔ کم پڑھی لکھی خواتین بھی مختلف دستکاریوں کی تربیت حاصل کرکے اپنی روزی خود کماسکتی ہیں۔ ان دستکاریوں کی اندرون ملک بھی اور بیرون ملک بھی مارکٹنگ کا بہتر انتظام کرکے بہت بڑی تعداد میں خواتین کو محفوظ روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔چین اورجاپان سمیت دنیا کے مختلف ملکوں سے اس قسم کا سامان بہت بڑی مقدار میں برآمد کیا جاتا ہے۔ مسلم ممالک کے لیے بھی اس کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے خواتین کے لیے روزگار کے بہت سے نئے مواقع پیدا کردیے ہیں، مناسب تربیت حاصل کرکے مسلمان خواتین ان سے بھرپور استفادہ کرسکتی ہیں اور مخلوط ماحول سے محفوظ رہ کر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی آمدنی اورقومی آمدنی میں معقول اضافہ کرسکتی ہیں۔

پالیسی کے طور پر عام دفاتر یا کارگاہوں میں خواتین کے بیٹھنے اورکام کرنے کی جگہ مردوں سے الگ رکھنے کا اہتمام کیا جائے تو اس سے مجموعی اخلاقی ماحول بہتربنانے میں مدد ملے گی، خواتین زیادہ احساسِ تحفظ پائیں گی جس کے نتیجے میں ان کے کام کے معیار اوررفتار میں بہتری آئے گی۔ انتظامی لحاظ سے ادارے یا دفتر کے کسی ایک یا چند مخصوص شعبوں کاتمام کام صرف خواتین کے حوالے ہوتو توقع ہے کہ مقابلتاً اس شعبہ میں معیار میں بہتری کے ساتھ ساتھ مقدار میں بھی زیادہ کام ہوگا۔

مسلمان خواتین کے لیے جدید دور میں اسلام کی مقرر کردہ حددو میں رہتے ہوئے اپنا سماجی کردار ادا کرنے کے حوالے سے یہ چند باتیں مسلم دنیا کی حکومتوں، اہل علم و دانش اورغیر سرکاری سطح پر سرگرم تنظیموں اوراداروںکے لیے دعوت فکر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مسلم دنیا کو اپنی اجتماعی دانش سے اس مقصد کے لیے مکمل اور جامع لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تاکہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ مغربی دنیا کی ان خواتین کو بھی رہنمائی مل سکے ،اسلام کے نظام عدل و رحمت نے جن کے دل جیت لیے ہیں اور جو ایسے ماڈل کی تلاش میں ہیں جسے اپنا کر وہ اسلام پر کاربند رہنے کے ساتھ ساتھ جدید زندگی کے تقاضوں کی تکمیل بھی کرسکیں۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے