پاکستان اسٹڈی سنٹر شوآن یونیورسٹی چین کا دورہ

پاکستان اسٹڈی سنٹر شوآن یونیورسٹی چین کا دورہ

 نئی حکومت کو جو چیلنج درپیش ہیں ان سے ہٹ کر پاکستان میں جمہوری عمل کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا عمل بذاتِ خود تبدیلی کی جانب ایک سفر ہے۔ جوں جوں یہ سفر آگے کی سمت بڑھے گا پاکستان کے عوام بھی تبدیلی کی خواہش پوری ہوتے دیکھیں گے اور جو آج بڑی بڑی رکاوٹیں مسائل کے انبار کی شکل میں سامنے کھڑی ہیں وہ دور ہوتی چلی جائیں گی۔‘‘

ان خیالات کا اظہار ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس خالد رحمن نے اپنے حالیہ دورہ چین کے موقع پر شوآن یونیورسٹی کے شعبہ پاکستان اسٹڈی سنٹر میں تقریر کرتے ہوئے کیا۔ ان کی تقریر کا عنوان تھا ’’پاکستان کا ابھرتا ہوا منظر نامہ‘‘۔
پاکستان ا سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر شین جے ڈونگ نے سیمینار میں میزبانی کے فرائض سرانجام دیے جب کہ پاکستان کے قونصل جنرل جناب حسن حبیب بھی اس موقع پر موجود تھے۔
ڈائریکٹر جنرل آئی پی ایس نے شرکاء کو موجودہ عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی منظر نامے کے مختلف پہلوؤں اور ان کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہوئے ان حالات اور مشکلات پر روشنی ڈالی جو پاکستان کو داخلی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر درپیش ہیں۔

انہوں نے ان کاروباری مواقع کو اجاگر کیا جو پاکستان علاقائی ممالک کو فراہم کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ۱۸۰ ملین سے زیادہ آبادی والا یہ ملک بہت بڑی تعداد میں ایسے صارفین اور صنعت کاروں پر مشتمل ہے جو ۲۰۰۰ڈالر فی کس سے زائد آمدنی کے باعث اچھی قوت خرید رکھتے ہیں۔ پاکستان کا محلِ وقوع ایسا ہے کہ چین، وسطِ ایشیا، بھارت، مغربی ایشیا اور خلیج میں رہنے والی دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو راستہ فراہم کرتا ہے۔
ورلڈ بنک کے ’کاروبار میں تشویش سے آزاد ‘ انڈیکس سے ملک میں معاشی خوشحالی کے انتہائی روشن امکانات کا پتہ چلتا ہے۔ اس پہلو سے پاکستان کو روس، بھارت، برازیل اور انڈونیشیاجیسے ممالک سے آگے قرار دیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ خصوصی اقتصادی زون ( SEZs) ایکٹ ۲۰۱۲ کے نفاذ سے مختلف شعبوں خاص طور پر ٹیلی مواصلات، کیمیکل، ادویات سازی، کھاد، تیل، گیس، بنکنگ اور مالیات میں گزشتہ دس برس میں۲۳ بلین امریکی ڈالر پاکستان آئے ہیں۔ یہ وہ انتہائی اہم عوامل ہیں جن سے ملک میں کاروبار کے امکانات کی نشاندہی ہوتی ہے۔
خالد رحمن نے اس جانب توجہ مبذول کروائی کہ اگرچہ ملک کے اندر بعض حقیقی خدشات موجود ہیں تاہم لگتا ہے اس ضمن میں ایک مبالغہ آمیز صورت حال پیدا کر دی گئی ہے جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ انھوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کے پاکستان میں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ حکومت پاکستان، اس کے معاشی منتظمین اور پاکستان کے کے کاروباری حلقوں کے رہنماوں کی سطح پر پائیدار کوشش کی ضرورت ہے جس کا مطمح نظر ملک کی ساکھ بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ مقامی طور پر تیار قابل اعتماد معلومات اور اعدادوشمار سامنے لانا ہو۔
پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی تعلقات کے حوالہ سے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی ممکنہ اور موجودہ سطح پر ایک طویل المدت اور جامع فریم ورک کی ضرورت ہے جواگلی دو سے تین دہائیوں کے اہداف طے کرے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور چین کے درمیان باہمی اعتماد متزلزل کرنے کے لیے خطے میں موجود ممالک اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے کی جانے والی سازشوں کا توڑ کرنے کی ضرورت ہے۔

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے