’’دہشت گردی‘‘ اور مسلمان
مشہور امریکی ماہر لسانیات نو ام چومسکی (Noam Chomsky) نےاپنےایک حالیہ انٹرویو میںانگریزی میں”War on Terror” کی اصطلاح کو لسانی نقطہ نظر سےمنطقی طور پر ناممکن قرار دیتےہوئےامریکہ کےبارےمیںیہ الفاظ استعمال کیے کہ "The US is one of the leading terrorist states in the world”1 ۔اس سےجہاںیہ بات واضح ہو جاتی ہےکہ امریکی باشندوںکی ایک بڑی تعداد امریکی حکومت کی تشدد پسند پالیسیوںکی حمایت نہیںکرتی اور خصوصاً جو لوگ پڑھےلکھےاور دانشور ہیںوہاںیہ بات بھی ابھر کر سامنےآتی ہےکہ حق گوئی اور اس کےلیےنتائج سےبےپرو ا ہو کر آواز بلند کرنےکی روایت آج بھی پائی جاتی ہے۔ ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کےسانحےکو دہشت گردی قرار دینےکےباوجود یہ حقیقت نظر انداز نہیںکی جا سکتی کہ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ نےگزشتہ ۲۰ سال کےعرصےمیںجو دہشت گردی سمندر پار ممالک میںپھیلائی ہےاس کی مثال پوری گزشتہ صدی میںنہیںملتی۔ چومسکی کا کہنا ہےکہ گو امریکہ نےوسطی امریکہ میںتباہی پھیلائی اور جنوبی افریقہ میںلاکھوںافراد کےقتل کا باعث بنا لیکن ۱۱ ستمبر کےواقعےنےامریکہ اور یورپی ممالک کو عالمی سطح پر دہشت گردی کا عذر فراہم کر دیا۔ چومسکی کا یہ بھی کہنا ہےکہ جو حضرات اس وقت امریکی انتظامیہ کی ناک کا بال ہیںوہ عالمی عدالت کی نگاہ میںبذات خود دہشت گردی کےملزم ہیں۔
لیکن کیا امریکہ کو دہشت گرد قرار دےکر مسئلہ کا حل کیا جا سکتا ہےیا امریکی سرمایہ داری اور عالمی جارحیت کےعلاقائی اداروں’’عالمی تجارتی مرکز‘‘ یا ’’جڑواںمیناروں‘‘ کو نشانہ بنا کر امریکی سامراجیت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے؟ مزید یہ کہ آخر دہشت گردی ہےکیا؟’ اگر ایک قوم اپنےحقوق انسانی کےحصول کےلیےکسی جابر و ظالم اور تشدد پرست حکومت کےخلاف تحریک چلاتی ہےتو کیا اس تحریک حریت کو دہشت گردی قرار دیا جائےگا؟ کیا ابراہیم لنکن اور چارج واشنگٹن جیسےامریکی ہیرو اور نیلسن منڈیلا جیسےافریقی رہنما اپنےاپنےدورمیںدہشت گردی کی جنگ لڑرہےتھےیا وہ جہاد حریت میںمشغول تھے؟ کیا تشد اور دہشت گردی صرف فلسطین اور کشمیر میںپائی جاتی ہےاور اس بنا پر ہر گمنام فلسطینی اور کشمیری اصلاً ایک دہشت گرد اور دنیا کےامن کےلیےبارودی فلیتہ ہے؟ کیا تحریکات حریت میںبعض اوقات بارودی پٹی کےذریعہ خود کش حملہ کرنےوالےافراد جو جان قربان کرتےہیںیا خود کشی کےمرتکب ہوتےان کا وجود صرف اسلامی روایت میںپایا جاتا ہےاور صرف مسلمان ہی ظلم اور استحصال کےخلاف جہاد کرنا فرض سمجھتےہیںیا دیگر مذاہب میںبھی اس قسم کےتصورات پائےجاتےہیں؟ ۷۰ ۔ ۶۵ میلادی میںیہودیوںکا فرقہ،جو Zealosts کےنام سےمشہور ہے،رومن فرمانرواؤںکےسامنےخود کو رضا کارانہ طور پر قربانی کےلیےپیش کرتا تھا۔ کیا وہ بھی کشمیری یا فلسطینی نژاد تھےیا عارفانہ طور پر دل سےمسلمان ہو کر عیسائیت کی صلیب ہاتھ میںلےکر یہ نیک کام کر رہےتھے؟
کیا بابری مسجد کےڈھانےوالےہاتھ اور گجرات میںبوڑھوں،عورتوںاور بچوںکو بلا امتیاز قتل کرنے،ان کےمکانات کو جلانےاور بہت سوںکو زندہ نذر آتش کرنےوالے’’اَہِمساَ‘‘ کےبچارےتھےیا ہندستان کی برسراقتدار جماعت بی جےپی اور وشوا ہندو پریشد کے’’ہندوتوا‘‘ فلسفہ پر عامل سفاک قاتل اور مجرم تھے؟ یہ اور اس نوعیت کےبہت سےسوالات حالات حاضرہ کےایک طالب علم کو یہ سوچنےپر ابھارتےہیںکہ کیا وجہ ہےہر ٹی وی کی سرخیوںمیںجو مناظر آتش زدگی،قتل،بربریت کےدکھائےجاتےہیںان کرداروںکی وضع قلع اور لباس مسلمانوںکا سا ہی کیوںہوتا ہے؟ ہر نظر آنےوالےستون کےپیچھےایک اسامہ بن لادن ہی کیوںچھپا نظر آتا ہے؟ کیا یہ ابلاغ عامہ کی کسی عالمگیر سازش کی بنا پر ہےیا فی الواقع ہر گڑبڑکی ذمہ داری کبھی سامنےنہ آنےوالےسات پردوںمیںروپوش،’’اسامہ بن لادن‘‘ پر ہی عائد ہوتی ہے؟
اس مختصر جائزہ میںان سب سوالات کا،بغیر کسی معذرت کے،حقیقت پسندانہ مفصل اور معروضی جواب صفحات کی قلت کےسبب دینا بہت مشکل ہےاس لیےہم محض چند نکات پر ہی اکتفار کریںگے۔ جہاںتک دہشت گردی کی تعریف کا سوال ہےاقوام متحدہ میں’’غیر جانبدار گروہ‘‘ اس کی تعریف ان الفاظ میںکرتا ہے:”Acts of violence commited by a group of individuals which
endanger human lives and jeopardize fundamental freedom , the effects of which are not confined to one state. This should not however effect the inalienable rights to self-determination under
colonial and racial regemes”1
گویا کشمیر ہو یا فلسطین اور ماضی کا جنوبی افریقہ ہو یا الجزائر جہاںکہیںبھی بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کےخلاف کوئی تحریک برپا ہوئی وہ نہ دہشت گردی تھی نہ کوئی جرم۔
پھر کیا وجہ ہےکہ کسی بھی عالمی حادثہ کےوقوعہ کےفوراً بعد قیاس کےگھوڑوںکا رخ مسلمانوںکی طرف ہوتا ہےاور ممکنہ ملزم کےعیسائی نام کےساتھ مسلم ناموںکےاجزاء شامل کر دیےجاتےہیں؟ ہمارےخیال میںاس کےتین بنیادی اسباب ہیں۔ اولاً بظاہر یہ معلوم ہوتا ہےکہ گزشتہ ۳۰ سال میںعالمی طور پر اسلای احیائی تحریکات کےاثرات کو محسوس کرتےہوئےمغربی سرمایہ داری،قبل اس کےکہ ان تحریکات کےزیر اثر متوقع نتائج نکلنےشروع ہوں،ابلاغی اور عسکری قوت کا بےدریغ استعمال کر کےان تحریکات کو غیر مؤثر بنانےہی میںاپنی نجات اور بقا سمجھتی ہے۔ اس لیےجہاںکہیںایسےامکانات پیدا ہونےشرو ع ہوئے،مثلاً جب الجزائر میںجمہوری عمل کےذریعہ اسلامی احیائی تحریک کےسیاسی اقتدار میںآنےکی شکل بنی تو عسکری قوت استعمال کر کےاس جمہوری عمل کا اسقاط کر دیا گیا نتیجتاً ایک طویل مزاحمتی تحریک شروع ہو گئی جو ایک دہائی گزرنےپر بھی برقرار ہے۔
ثانیاً بظاہر یہ معلوم ہوتا ہےکہ دہشت گردی کا عذر گھڑنےکےبعد مغربی سرمایہ دارانہ قوتیںان قدرتی وسائل پر دوبارہ مکمل اختیار حاصل کرنا چاہتی ہیںجو بیسوی صدی کی تحریک حریت کےنتیجےمیںاس کےسیاسی تسلط سےآزاد ہو گئےتھے۔ چنانچہ عراق کےتیل کےذخائر ہوںیا سعودی عرب اور ایران کے،ان پر قبضہ کرنےکی حکمت عملی یہ طےپائی ہےکہ پہلےان تمام ممالک کو بنیاد پرست،امن دشمن اور حقوق انسانی کی پامالی کا ملزم قرار دےکر عالمی سطح پر ان کی تصویر کشی ترقی کےدشمن اور عالمی دہشت گردی کےپشت پناہ کی حیثیت سےکی جائےتاکہ ان پر ہاتھ صاف کرنےمیںکوئی جھجک محسوس نہ ہو چنانچہ گزشتہ چند ماہ سےسعودی عرب کی وہابیت،ایران کی ’’کربلائی‘‘ تشدد پرستی اور پاکستان میں’’مذہبی جنونیوں‘‘ کا ہّوا بار بار اخبارات اور ٹی وی کی سرخی بنایا جا رہا ہےتاکہ ان میںسےکسی بھی ملک پر یلغار کرنےکا جواز پیدا کر لیا جائے۔ ماضی کی تاریخ اس پر گواہ ہےکہ عراق کو ایران کےخلاف ہر قسم کی امداد دینےکےبعد اس کےخلاف استعمال کیا گیا اور جب وہ یہ کام اطاعت گزاری کےساتھ کر چکا تو اس کو کویت کےخلاف کار روائی کی اجازت مرحمت فرما دی گئی اور پھر اسےکیمیاوی گیسوںکےذریعےکر دوںکو نشانہ بنانےمیںامداد فراہم کرنےکےبعد اچانک امن عالم کےلیےخطرہ قرار دےدیا گیا اور اس بات کو اتنی مرتبہ دہرایا گیا کہ عراقیوںکو بھی اپنےدہشت گرد ہونےکا گمان ہو جائے۔
اس بازیگری کا حاصل؟ کویت سعودی عرب اور قطر میںان ممالک کےمفادات کےتحفظ کےلیےامریکی افو اج کی موجودگی کا جواز پیدا کرنا اور پھر ان مسلم ممالک کو انہی کےپڑوسی ملک سےمحفوظ کرنےکےلیےپڑوسی ملک (عراق) کےتیل کےذخائر کو اپنی تحویل میںلانا نظر آتا ہے۔ اس کار روائی کا منطقی تسلسل یہ معلوم ہوتا ہےکہ عراقی ’’دہشت گردی‘‘ کےخاتمہ کےبعد ایرانی ’’دہشت گردی‘‘ اور پھر پاکستانی ’’دہشت گردی‘‘ کو مٹانےکےلیے’’انسانیت کی خدمت‘‘ کےاعلیٰ اور زرین اصول پر عمل کرتےہوئےامریکہ اپنا یہ ’’اخلاقی‘‘ فرض پورا کرنےپر مجبور ہو گا۔
ثالثاً مغربی سرمایہ داری کےراسخ العقیدہ نمائندےاور دانشور تشدد اور دہشت گردی کےخلاف جنگ کو ایک ایسی تہذیبی اور ثقافتی جنگ قرار دےرہےہیںجس کا مقصد بظاہر مغربی سرمایہ داری اور جدیدیت کا تحفظ ہے۔ چنانچہ علمی پیرائےمیںیہ بات کہی جا رہی ہےکہ "Radical Islamists,
intolerent of all diversity and dissent, have become the fascists of
our day. That is what we are fighting against”.1
کہا جا رہا ہےکہ اسلام بذاتِ خود ایک ایسا دین ہےجو جدیدیت کا دشمن ہے،اختلاف رائےکو برداشت نہیںکرتا،انتہا پسندی کا مظہر ہےاور جہاد کےنام پر ’’مذہبی جنونیوں‘‘ کی نسل پیدا کرتا ہے۔ یہ ٹکنالوجی اور سائنسی ترقی کو گناہ سمجھتا ہے۔ اس کےعقائد و نظریات کو نظرثانی اور نئی تعبیر کی سخت ضرورت ہےتاکہ دور جدید کےتقاضوںکےساتھ ہم آہنگ ہو سکے۔ اسلام کی تعلیمات میںرواداری،جمہوریت،اباحیت اور لادینیت کو شامل کر لیا جائےتو شاید اسلام ایک ایسا بےضر ر دین بن جائےجو مغرب کےلیےقابل قبول ہو اور مغربی معاشی ترقی کےلیےمشکلات اور خطرات کا باعث نہ بنے۔ مسلم دنیا کےلیےقابل تقلید مثال اگر کوئی ہو سکتی ہےتو وہ جنوبی کوریا،جاپان اور ترکی کی ہےجنہوںنےمغربیت کو بلا روک ٹوک اختیار کیا اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئے۔
اس کےساتھ یہ بات بھی کہی جا رہی ہےکہ اسلام میںچونکہ آزادیٔ رائےکےلیےکوئی مقام نہیںہے(گویا اسلام ان کی نگاہ میںپاپائیت ہی کی ایک شکل ہے) اس لیےبادشاہتیںاور آمریتیںہی ان کا مقدر بن گئی ہیں۔ گویا مراکش ہو یا اردن،ترکی کی فوجی قیادت ہو یا الجزائر کےفوجی حکمران،سابقہ شاہ ایران کی حکومت ہو یا عراق کےصدام حسین ان سب کو ان کے’’راسخ العقیدہ مسلمان‘‘ ہونےکی بناء پر ان ممالک کےعوام نےاپنےسروںپر مسلط کیا ہےاور ان میںسےہر ایک کےناجائز طور پر برسراقتدار آنےمیںامریکہ کا کوئی عمل دخل نہیںہے۔
مغربی محققین واضح تاریخی حقائق کا دیدہ دلیری سےمذاق اڑاتےہوئےخود قرآن کریم کےحوالےسےوہ بہت سی باتیںدوبارہ اٹھا رہےہیںجو صدیوںسےزیر بحث آتی رہی ہیںاور جن پر مسلم علماء اور دانشوروںنےعلمی سطح پر بغیر کسی معذرت کےحقائق کو بلاکم و کاست پہلےہی پیش کر دیا ہے۔
بعض مغربی ناقدین قرآن کریم کی ان آیات کےحوالےسےجن میںجہاد اور قتال کا حکم دیا گیا ہےیہ کہتےہیںکہ ایسی آیات کی موجودگی میں،جو ان کےبقول ان آیات کو منسوخ کر دیتی ہیںجن میںامن ترقی اور محبت کا پیغام دیا گیا ہے،اسلام کو کس طرح ایک امن پسند مذہب کہا جا سکتا ہے۔ سورہ النساء کی آیت ۷۴ کو اس کےسیاق و سباق سےنکال کر بطور دلیل پیش کیا جاتا ہےکہ ’’اﷲ کی راہ میںلڑنا چاہیےان لوگوںکو جو آخرت کےبدلےدنیا کی زندگی کو فروخت کر دیں۔ پھر جو اﷲ کی راہ میںلڑےگا اور مارا جائےگا یا غالب رہےگا اسےضرور ہم اجر عظیم عطا کریںگے‘‘ (النساء ۴: ۷۴)۔
اس آیت مبارکہ کو نقل کرنےکےبعد مغربی مستشرق یہ کہتےہیںکہ اسلام لوگوںکو لڑائی اور قتل پر ابھارتا ہے۔ کاش یہی مستشرق اس آیت سےاگلی آیت کو بھی پڑھ لیتےاور پھر دونوںآیتوںکو ملا کر ان کا مفہوم سمجھنےکی کوشش کرتے۔ رب کریم اگلی آیت میںفرماتا ہے’’آخر کیا وجہ ہےکہ تم اﷲ کی راہ میںان بےبس مردوں،عورتوںاور بچوںکی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیےگئےہیںاور فریاد کرتےہیںکہ ہمارےرب ہم کو اس بستی سےنکال جس کےباشندےظالم ہیںاور اپنی طرف سےہمارا کوئی مددگار پیدا کر دے(النساء ۴: ۷۵)۔ اس آیت کو اگر صرف ایک غیر جانبدار نظر ڈال کر پڑھ لیا جائےتو بات واضح ہو جاتی ہےکہ پہلی آیت کس کےخلاف جنگ پر ابھارتی ہے؟ اگر ظلم،تشدد،حقوق انسانی کی پامالی کرنےوالےسفاک افراد کو ان کےحال پر یہ کہہ کر چھوڑدیا جائےکہ ہم تو امن کےپرستار ہیں،ہم تلوار کو ہاتھ لگا کر گناہ کا ارتکاب نہیںکرنا چاہتےتو کیا یہ رویہ اخلاق کےکسی بھی پیمانہ پر پورا اترےگا؟
اسلام اور قرآن کو کوئی معذرت پیش کرنےکی ضرورت نہیں۔ وہ اگر جہاد کی بات کرتا ہےتو دوٹوک،سیدھےاور غیر مبہم انداز میںیہ بات کہتا ہےکہ ہر ظالم،جابر،سفاک کےخلاف جنگ کرنا انسانی فریضہ ہے۔ اسلام کا مقصد قیام امن و عدل ہےاور اس میںاگر گفت و شنید،اخلاقی دباؤ ترغیب و مکالمہ ہر چیز ناکام ہو جائےاور عورتیں،بچےاور بوڑھےمسلسل ظلم کا شکار ہو رہےہوںتو پھر اس سےقطع نظر کہ وہ مظلوم مسلمان ہیںیا غیر مسلم،ان کی نصرت و امداد مسلمان پر فرض ہو جاتی ہے۔ یہی وہ پیغام ہےجو یہ دو آیتیںدیتی ہیںان میںکس جگہ یہ کہا گیا ہےکہ بلا کسی سبب کےجب اور جہاںچا ہو مذہب کےنام پر خون بہا دو؟
اسی طرح سورہ توبہ کی ایک آیت کےحوالےسےیہ بات کہی جاتی ہےکہ اس میںغیر مسلموںاور اہل کتاب کےخلاف قتل عام کی اجازت دی گئی: ’’جنگ کرو اہل کتاب میںسےان لوگوںکےخلاف جو اﷲ اور روز آخر پر ایمان نہیںلاتےاور جو کچھ اﷲ اور اس کےرسول نےحرام قرار دیا ہےاسےحرام نہیںکرتےاور دین حق کو اپنا دین نہیںبناتےیہاںتک کہ وہ اپنےہاتھ سےجزیہ دیںاور زیرنگین بن کر رہیں‘‘ (التوبہ ۹: ۲۹)۔ یہاںبھی قرآن کریم یہ بات واضح الفاظ میںبیان کر رہا ہےکہ غیر مسلم اہل کتاب ہوںیا کوئی اور ان کےخلاف صرف اس وقت تک جنگ کی جا سکتی ہےجب تک وہ اسلامی ریاست کی سیادت تسلیم نہ کر لیں۔ اصل مقصد ان کو قتل کرنا،ختم کرنا،تباہ کرنا نہیںہےبلکہ قانون کی حکمرانی ہے،امن و عدل کا قیام ہے۔ جہاد کا مدعا انہیںمار مار کر قوت کےزور سےمسلمان بنانا یا صفحہ ہستی سےمٹانا نہیںہے۔ اسلام کسی بھی ذی روح بلکہ غیر ذی روح کو بھی تشدد کےذریعہ تباہ کرنےکی اجازت نہیںدیتا۔ وہ حیوان ہوںیا نباتات یہ صرف مغربی سامراجی طاقتوںکا طریقہ ہےکہ وہ جہاںچاہیں’’تورا بورا‘‘ کرنےکا پیدائشی حق بزعم خود استعمال کرتےہوئےشرم محسوس نہیںکرتے۔ وہ ویت نام ہو،کوریا ہو،بوسنیا ہرزیگوینا ہو،چیچنیا ہو،آذربائیجان ہو،افغانستان ہو یا عراق وہ جب اور جہاںچاہتےہیںاپنےمفاد کےلیےدوسروںکو ظلم و بربریت کا نشانہ بنانا اپنا ’’انسانی فرض‘‘ سمجھتےہیں۔
سورہ المائدہ کی آیت ۵۱ کےحوالےسےبھی یہ بات کہی جاتی ہےکہ یہ یہود اور عیسائیوںکو ’’دشمن‘‘ کےمقام پر رکھ دیتی ہےاور اس طرح ان کےخلاف نفرت کےجذبات کو ہوا دیتی ہے۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’اےلوگو جو ایمان لائےہو یہودیوںاور عیسائیوںکو اپنا رفیق نہ بناؤ یہ آپس میںایک دوسرےکےرفیق ہیںاور اگر تم میںسےکوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہےتو اس کا شمار بھی انہیںمیںہےیقینا اﷲ ظالموںکو اپنی رہنمائی سےمحروم کر دیتا ہے‘‘ (المائد ۵: ۵۱)۔ سلسلہ مضامین پر غور کیا جائےتو واضح ہو جاتا ہےکہ آیت نمبر ۴۲ سےجس موضوع پر بات کی جا رہی ہےوہ اہل کتاب کا عناد،جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی طرز عمل ہےجس میںان کےمذہبی رہنماؤںکا اپنےذاتی مفاد کےلیےتوراۃ و انجیل کی تعلیمات کو بدل دینا اور اﷲ کےساتھ حضرت عزیر اور حضرت عیسیٰ کو شریک بنانا ہے۔
پھر بتایا جا رہا ہےکہ اﷲ تعالیٰ نےجو شریعتیںمختلف ادوار میںنازل کی ہیںان میںبہت سی تعلیمات مشترک ہیں۔ اسلامی شریعت بھی انہی اصولوںپر مبنی اور منِ جانب اﷲ ہےاس لیےیہود و نصاریٰ کےبہکائےمیںآئےبغیر فیصلےاﷲ کی شریعت کےمطابق کیےجائیں،باوجود اس کےکہ یہود و نصاریٰ کی کوشش یہ ہو کہ اہل ایمان کو فتنہ میںڈال کر اپنی طرح گمراہ کر دیں۔
اس تفصیل کےبعد جو آیت ۴۲ سےآیت ۵۰ تک بیان کی گئی ہےیہ فرمایا جا رہا ہےکہ یہود اور عیسائیوںکو رفیق نہ بنایا جائےکیونکہ یہ تو آپس ہی میںگمرا ہوںکےرفیق ہو سکتےہیں۔ اگر غور کیا جائےتو سیاق و سباق کی روشنی میںاس سےزیادہ سچی بات اور کیا ہو سکتی ہےجو یہاںکہی جا رہی ہے۔ پھر یہ بات بھی ذہن میںرہےکہ جس سورۃ کےحوالےسےمستشرقین یہ الزام اسلام کو دیتےہیں،اس کا آغاز جن الفاظ سےکیا جا رہا ہےوہ ان محققین کی نگہ انتخاب سےنہ جانےکیوںاوجھل ہو جاتےہیں۔ فرمایا جا رہا ہے: ’’آج تمہارےلیےساری پاک چیزیںحلال کر دی گئی ہیںاہل کتاب کا کھانا تمہارےلیےحلال ہےاور تمہارا کھانا ان کےلیےاور محفوظ عورتیںبھی تمہارےلیےحلال ہیںخواہ وہ اہل ایمان کےگروہ سےہوںیا ان قوموںمیںسےجن کو تم سےپہلےکتاب دی گئی تھی [یہودی یا عیسائی] بشرطیکہ تم ان کےمہر ادا کر کےنکاح میںان کےمحافظ بنو ۔۔۔‘‘ (المائدہ ۵: ۵)۔
ایک معمولی عقل کا انسان بھی یہ بات سمجھ سکتا ہےکہ جن یہودی یا عیسائی نیک خواتین کےساتھ رشتہ مناکحت کی اجازت دی جا رہی ہو گویا انہیںاپنےگھر اور اپنےمعاشرہ میںایک قابل احترام بیوی کا مقام دیا جا رہا ہو اور جن کےساتھ کھانےپینےکےمعاشرتی تعلقات قائم کرنےکی اجازت دی جا رہی ہو،ان کےبارےمیںکیا یہ بات کہی جا سکتی ہےکہ وہ تمہارےدشمن ہیںجہاںکہیںمل جائیںانہیںتہ تیغ کر دو،تہس نہس کر دو اور صفحہ ہستی سےمٹا دو!
دوسری جانب کیا قرآن کریم کو یہ چاہیےکہ جو یہودی اور عیسائی بظاہر دوست بن کر آئیںجبکہ ان کا واضح مقصد فتنہ و فساد ہو،اہل ایمان کو آپس میںلڑانا ہو،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دعوت کےبہانےبلا کر زہر بھرا گوشت کھلا کر قتل کرنےکی نیت ہو تو کیا قرآن یا توراۃ کوایسےافراد کو جگری دوست بنانےکا مشورہ دینا چاہیے؟ قرآن کریم ہی نہیںکسی بھی کتاب سےایک جملہ نکال کر اس کو اپنےمن مانےمعنی پہنانا نہ تو فکری دیانت ہےاور نہ اس کتاب کےساتھ انصاف۔ اسی لیےقرآن کریم نےیہ کہا تھا کہ ’’اےلوگو جو ایمان لائےہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنےوالےاور انصاف کی گواہی دینےوالےبنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دےکہ انصاف سےپھر جاؤ۔ عدل کرو یہ تقویٰ کی روش سےزیادہ مناسبت رکھتا ہے‘‘ (المائدہ ۵: ۸)۔
ایک اورقرآنی آیت: ’’پس جب ان کافروںسےتمہاری مڈھ بھیڑہو تو پہلا کام گردنیںمارنا ہےیہاںتک کہ جب تم ان کو اچھی طرح کچل دو تب قیدیوںکو مضبوط باندھو اس کےبعد (تمہیںاختیار ہے) احسان کرو یا فدیےکا معاملہ کر لو تاآنکہ لڑائی اپنےہتھیار ڈال دے‘‘ (سورہ محمد ۴۷: ۴)۔ مغربی مستشرق اس آیت کی یہ تعبیر کرتےہیںکہ قرآن یہ چاہتا ہےکہ اہل ایمان کو جہاںکہیںکفار مل جائیںان کی گردنیںمارتےچلےجائیںاور کشتےکےپشتےلگا دیں،بالکل اسی طرح جیسےکہ بوسنیا ہرزیگونیا میںبہت سےمقامات پر اجتماعی قبروںکی دریافت سےمعلوم ہوا کہ کروٹ اور سرب عیسائیوںنےمسلمانوںکو بلا تفریق جنس و عمر تہ تیغ کیا۔
اس آیت مبارکہ کےنزول سےقبل سورہ الحج کی آیت ۳۹ اور سورہ البقرہ کی آیت ۱۹۰ جہاد کی اجازت کےسلسلہ میںآ چکی تھیں۔ اب اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلامی قانون جنگ کی وضاحت جنگ پیش آنےسےقبل ہی کر دی جائے۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر مشرکین و کفار کا مقصد یہ ہےکہ اسلا می تحریک کو دبانےاور مٹانےکےلیےتمہیںمدینہ سےبےدخل کرنےکےلیےپوری قوت سےمدینہ پر حملہ آور ہو کر اس دعوت حق کی روشنی کو بجھا دیںتو جہاد کی اجازت کی روشنی میںتم بھی ان کی قوت توڑنےمیںتکلف نہ کرو ’’گردنیںمارنا‘‘ محض قتل کرنےکےمعنی میںنہیںبلکہ واضح طور پر ان کی قوت توڑنےکےمعنی میںاستعمال ہوا ہے۔
کسی بھی جنگ کی حکمت عملی یہی ہوتی ہےکہ مخالف کی قوت کو توڑا جائے۔ اس لیےقرآن کا یہ کہنا اخلاق و عدل کےاصولوںپر مبنی صحیح ترین عمل نظر آتا ہے۔ ہاںاگلی بات یہ سمجھا دی گئی کہ مقصود ان کا بےرحمانہ قتل نہیںبلکہ اگر ان کی قوت ٹوٹ جائےتو انہیںقید میںآنےکےبعد قتل نہیںکیا جا سکتا،ہر قیدی کو عزت و احترام کےساتھ لباس،کھانا،تحفظ دیا جائےگا اور اس کےسامنےیہ اختیار ہو گا کہ وہ اپنےآپ کو فدیہ دےکر آزاد کرالےیا اسلامی ریاست اسیر پر احسان کر کےرہا کر دےیا تبادلہ ٔ اسیران میںاسےرہا کر دیا جائے۔ ہمارےعلم میںکسی انتہائی ’’پرامن‘‘ فلسفہ پر مبنی مذہب یا قوم کا کوئی ایسا اصول نہیںجس میںکہا گیا ہو کہ جب دشمن تم پر حملہ آور ہو تو اپنےدروازےکھول کر سر جھکا کر ادب سےاس کا استقبال کرتےہوئےاپنی گردنیںقلم کرانےکےلیےپیش کر دو اور یقین کر لو کہ تمہاری طرف سےایک انگلی بھی نہ اٹھے،نہ اس میںسےایک قطرہ خون ٹپکے!
مستشرقین کےبعض اعتراضات کا جواب دیتےہوئےبار باریہ احساس ہوتا ہےکہ کاش یہ علم کےمدعی بات کرنےسےقبل حصول معلومات بھی کر لیتے۔ مثلاً یہ کہنا کہ مسلم apologistsیہ کہتےہیںکہ تمام غلط فہمی اس بنا پر پیدا ہوتی ہےکہ قرآن کریم کےانگریزی تراجم ناقص ہیںاس بنا پر جہاد اور قتال کےبارےمیںغلط تصورات پائےجاتےہیں(الراوندی: "Islam and Armageddon”) ۔ یہ نصف سچائی پر مبنی ایک بیان ہے۔ ہمارےخیال میںبعض صورتوںمیںاس کا امکان تو ہےلیکن اصل مسئلہ ترجمہ کا نہیںبلکہ قرآن کریم کی آیات کو سیاق و سباق سےالگ کر کےاس کا مفہوم اپنےذہنی مفروضوںکی روشنی میںمتعین کرنا ہے۔
تحقیق کا بنیادی اصول ہےکہ زیر بحث معاملہ کو براہ راست اس کےسیاق و سباق میںدیکھا جائےاس کےبعد کوئی رائےقائم کی جائےیہی سبب ہےکہ مستشرقین بعض ایسی باتیںبھی کہہ جاتےہیںجو بنیادی اسلامی علمی اصطلاحات سےان کی ناواقفیت کا اظہار کرتی ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ مکی آیات رحم و عفو و محبت سےبھری ہوئی ہیںجبکہ مدنی آیات مثلاً مشرکین کو جہاںپاؤ قتل کر دو‘‘ نے۱۲۴ ایسی آیات کو جو رحم و لطف سےمتعلق تھیںمنسوخ کر دیا ہے(الراوندی،ایضاً)،نہ صرف مکی و مدنی آیات سےناواقفیت ظاہر کرتا ہےبلکہ نسخ فی القرآن جسےاہم مضمون سےمکمل لاعلمی کا ثبوت پیش کرتا ہے۔
حقیقت واقعہ یوںہےکہ ۹ ہجری میںجب مسلمانوںنےحضرت ابوبکرؓ کی قیادت میںپہلا حج کیا تو سورہ توبہ کی وہ آیات نازل ہوئیںجن میںاللہ اور اس کےرسول نےان مشرکین سےاپنی برأت کا اعلان کیا جن سےاس سےقبل بعض معاہدےہوئےتھےاور وہ ان کی خلاف ورزی کرتےرہےتھے۔ انہیںمہلت دی گئی کہ وہ آئندہ چار ماہ تک اپنےبارےمیںطےکر لیںاور اگر کہیںاور جا کر آباد ہونا ہو تو بلا روک ٹوک چلےجائیںیا اپنی روش بدلنی ہو تو ایسا کر لیں۔ اس کےبعد ان کےخلاف عام اعلان جنگ کرتےہوئےیہ بات سمجھا دی گئی کہ ان چار ماہ کےبعد مشرکین کےخلاف اس وقت تک جنگ ہو گی جب تک وہ اپنی غلطی کا اعتراف (توبہ) کرنےکےبعد نماز اور زکوۃ پر عامل نہ ہو جائیں۔
چنانچہ اس آیت سےاگلی آیت میںمشرکین کےحوالےہی سےیہ ہدایت کی گئی کہ گو ان کےخلاف جارحیت کی اجازت ہےلیکن اگر کوئی مشرک عین حالت جنگ میںبھی اہل ایمان سےپناہ مانگےتو اسےپناہ دی جائےاور اسےقرآن سننےاور اہل قرآن کو دیکھنےکا موقع فراہم کیا جائے۔ پھر اسےمجبور کیےبغیر اور اس پر کسی قسم کا تشدد کیےبغیر اس کےگھر تک اپنی امان اور حفاظت میںپہنچانا مسلمانوںکا فرض ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اور اگر مشرکین میںسےکوئی شخص پناہ مانگ کر تمہارےپاس آنا چاہے(تاکہ کلام الٰہی سنے) تو اسےپناہ دےدو یہاںتک کہ وہ کلام الٰہی سن لےپھر اسےاس کےمامن تک پہنچا دو۔ یہ اس لیےکرنا چاہیےکہ یہ لوگ علم نہیںرکھتے‘‘ (التوبہ ۹:۶)۔
دونوںآیات کو ملا کر پڑھیےتو بات با لکل واضح ہو جاتی ہےکہ ’’مشرکین کو قتل کرو جہاںپاؤ‘‘ کےحکم کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ یہ ایک مطلق اجازت نہیںہےکہ جہاںکسی مشرک کو دیکھا اور نشانہ بنا دیا بلکہ اس بات کا اعلان ہےکہ ہماری اصل جنگ شرک و کفر کےساتھ ہےاگر کوئی مشرک حصول معلومات کےلیےاہل ایمان سےپناہ طلب کرتا ہےتو قرآنی حکم کی اطاعت میںاسےنہ ہاتھ لگایا جائےگا نہ قیدی بنایا جائےگا بلکہ اپنی حفاظت میںاسےاس کےگھر تک لےجایا جائےگا۔ یہاںبھی آیت کےایک حصےکو سیاق و سباق سےالگ کرنےکےنتیجےمیںمستشرقین ایک گمراہ کن تعبیر کر کےیہ سمجھتےہیںکہ انہوںنےخود قرآن سےفلسفہ تشدد کو ثابت کر دیا۔
ہمیںسیموئیل ہنٹنگٹن Samuel Huntington کےاس مفروضہ سےبنیادی اختلاف ہےکہ جڑواںمیناروںپر حملہ ’’مسلم جنگوں‘‘ کےدور کا حصہ ہے۔ وہ سیاست و تاریخ کےایک پروفیسر کی حیثیت سےیہ بات کہتےہیںکہ ان جنگجوںکا آغاز ۱۹۸۰ء میںعراق کےایران پر حملےسےہوا۔ ۱۹۸۹ء میںان کےنتیجےمیںدس سال کی جدوجہد کےبعد سابقہ سویت یونین کو افغانستان سےنکلنا پڑا۔ ۱۹۹۰ء میںعراق کا کویت پر حملہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی اور پھر ۱۹۹۳ء میںپہلی مرتبہ عالمی تجارتی مرکز پر حملہ ’’مسلم جنگوں‘‘ ہی کا حصہ تھا۔ یہاںشاید یہ بات وہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر نظر انداز کر جاتےہیںکہ کیا عراق کا ایران پر حملہ یا کویت پر حملہ ایک ’’مسلم جنگ‘‘ تھا یا امریکہ کی سرپرستی اور ترغیب اور یورپ کی جانب سےصدام حسین کو اسلحہ فرہم کرنےاور امریکہ کی طرف سےاس یقین دہانی کی بنا پر تھا کہ وہ اس معاملہ کو ایک ’’مقامی تنازعہ‘‘ سمجھےگا۔ گویا یہ امریکہ کی جانب سےعراق کو اکسا کر ایران کی طاقت کو توڑنےکی ایک قبیح حرکت تھی جسےمحترم ہنٹنگٹن ’’مسلم جنگ‘‘ سےتعبیر کر رہےہیں۔ کیا افغان جہاد صرف اور صرف ’’مسلم جنگ‘‘ تھا یا امریکہ کی عسکری،سیاسی،اخلاقی حمایت کا اصل محرک و مقصد افغانستان کےذریعہ سویت یونین کو سبق سکھانےکی خواہش تھی۔ یہ الگ بات ہےکہ اس جہاد نےامت مسلمہ کےلیےکچھ اور ہی کردار ادا کیا لیکن اس کا محرک اور پشت پناہ کیا ’’القاعدہ‘‘ تھا یا پنیٹاگون اور سیاہ باطن والا ’’سفید گھر‘‘؟
ہمیںمغربی نقادوںکی اس رائےسےبھی مکمل اختلاف ہےکہ مسلم دنیا کےخلاف امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی موجودہ جنگ تشدد کےخلاف ہے۔ واقعات نےیہ بات عیاںکر دی ہےکہ اس کا اصل ہدف وہ معدنی ذخائر ہیںجن پر امریکہ اور بعض یورپی اقوام دوبارہ مکمل تصرف و قبضہ کر کےاپنےمعاشی مستقبل کو یقینی بنانا چاہتےہیں۔ اس غرض کےلیےجو حکمت عملی طےکی گئی ہےوہ خفیہ نہیںہےبلکہ ببانگ دہل یہ بات کہی جا رہی ہےکہ جہاںکہیںضرورت ہو عسکری کار روائی سےاور جہاںاس کےبغیر کام ہو جائےمسلم ممالک میںایسےافراد کو برسراقتدار لایا جائےجو امریکی مفادات ہی کو اپنا مفاد سمجھتےہوںبصورت دیگر برہنہ قوت کےاستعمال سےان ممالک کو زیر کر کےیک قطبی نظام میںامریکہ کی برتری کو یقینی بنایا جائے۔ اسلامی تحریکات اور تحریکات حریت سےنجات کےلیےانہیںپہلےکسی نہ کسی طرح ایک فرضی دشمن (القاعدہ) کےساتھ ملوث ظاہر کیا جائےاور پھر انہیںقوت کےاستعمال سےدبا دیا جائے۔ برہنہ قوت کا یہ استعمال امریکی سیاسی بازیگروںکی اصطلاح میںامریکہ کی سلامتی کےلیےضروری ہےاس لیےمباح و حلال بلکہ فرضِ عین ہے۔
چنانچہ تشدد کی ایک نئی تعریف یوںکی جا رہی ہےکہ امریکہ نےگزشتہ تین چار عشروںمیںدنیا کےمختلف ممالک و اقوام پر جو دست درازیاںکی ہیںوہ نہ تشدد ہیںنہ حقوق انسانی کی پامالی چنانچہ James Glayr جو Veterons of Foreign Wars نامی ایک امریکی تنظیم کا رکن ہےاپنےایک مضمون میںہمیںیہ معاملات فراہم کرتا ہے۔ اس کےبقول اس عرصہ میںامریکہ نےدنیا کے۶۷ ممالک پر جارحانہ حملےکیےہیںجن میںچند ممالک یہ ہیں:
کوئےموائی اور مٹسا آئی لینڈ،تائیوان،لاؤس،ویت نام،کیوبا،ڈومینیک ریپبلک،کوریا،کمبوڈیا،تھائی لینڈ،لبنان،آسٹریا،لیبیا،خلیج فارس،صومالیہ،ایکسلواڈور،پانامہ،اور کوسو و وغیرہ۱۔
شاید امریکہ کی اس دیدہ دلیری پر بزبانِ شاعر یوںکہا جا سکتا ہےکہ
خرد کا نام جنوںرکھ دیا جنوںکا خرد
جو چاہےآپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
مسئلہ کا حل ہماری نگاہ میںاسلام اور مسلمانوںپر الزام تراشی اور قوت کےذریعہ مسلم دنیا کو زیر کر لینا نہیںہو سکتا۔ نہ مغرب کی پرور وہ سیاسی قوتوںکےذریعہ مسلم عوام کو دبا کر یا بین الاقو امی اداروںکی مدد سےمسلم دنیا میںنوجوانوںکی آبادی کو گھٹا کر کیا جا سکتا ہے۔ بعض مغربی مستشرقین کا کہنا ہےکہ ۲۰۲۰ء تک ضبط ولادت کی بین الاقوامی کوششوںکےنتیجےمیںاور مختلف عنوانات سےنواجوانوںکو بربریت کا نشانہ بنانےکےنتیجہ میںان کی تعداد میںواضح تبدیلی متوقع ہےاور اس طرح انقلابیت اور جہادی اور حریت پسند تحریکات کی قوت میںخود بخود کمی واقع ہو جائےگی۔
گویا ضبط ولادت کی تحریک کےخفیہ مقاصد میںسےایک یہ بھی ہےکہ اس طرح نوجوانوںکےموجودہ تناسب کو متغیر کر کے’’دہشت گرد فورس‘‘ کی عددی قوت میںکمی پیدا کر دی جائے،جو ہمارےنقطہ نظر سےخود ایک دہشت پسندانہ حرکت ہے۔ دہشت گردی صرف گولی یا خنجر سےنہیںہوتی اس کی بعض شکلیںبظاہر بڑی معصوم معلوم ہوتی ہیںلیکن نتائج کےلحاظ سےگولی کےذریعہ قتل کرنےسےزیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہیں۔ مثلاً کسی عالمی بنک کا ایک ترقی پذیر ملک سےیہ مطالبہ کرنا کہ وہ ان سودی قرضوںکی ادائیگی کےلیے،جن کا سود وہ اصل سےزیادہ وصول کر چکا ہو،اپنےقومی اثاثےفروخت کر کےادائیگی کر دے،معاشی دہشت گردی کی کھلی مثال ہے۔ کسی طاقتور ملک کا ایک ترقی پذیر ملک سےیہ کہنا کہ اگر وہ دوست رہنا چاہتا ہےتو اپنی حاکمیت کو طاق پر رکھ کر اپنی زمین اور فضائیںاس کےحوالےکر دےتاکہ وہ کسی پڑوسی ملک پر بمباری کر کےاپنی قوت کا سکہ جما سکے،بدترین قسم کی سیاسی اور بین الاقوامی دہشت گردی ہے۔ اسی طرح کسی عالمی ابلاغی ادارہ کا دنیا کےدیگر ممالک کو اپنی ثقافت میںرنگنا اور اس کی اچھائی اور برائی کےپیمانوںکو اپنی خواہش کا تابع کر دینا ابلاغی شدت پسندی نہیںہےتو اور کیا ہے؟
مسئلہ کا اصل حل مسلم دنیا میںایک عادلانہ،روح جمہوریت کےحامل معاشی طور پر مستحکم اور ثقافتی طور پر اسلامی نظام کا قیام ہےتاکہ اندرونی طور پر امن و عدل کےقیام سےشدت پسندی کی نفسیات کو تبدیل کیا جا سکے۔ اصل حل،جہالت کےخلاف جہاد،معاشی استحصال کےخلاف جہاد،فحاشی کےخلاف جہاد،ظلم و زیادتی کےخلاف جہاد،خواتین اور بچوںکےحقوق کی پامالی کےخلاف جہاد کےذریعہ آنےوالی نسلوںکےذہن اور روح میںاحترام انسانیت جاگزیںکرنا ہے۔
جواب دیں