چین – تاریخ، سیاست اور معاشرہ (لیکچر سیریز)

پروفیسر ژو رانگ

چین – تاریخ، سیاست اور معاشرہ (لیکچر سیریز)

اگر چہ چین کی اہمیت تاریخ میں کسی نہ کسی حوالےسےقدیم زمانےسےقائم ہے،تاہم گزشتہ چند دہائیوں سےعالمی سطح پر ابھرتےہوئے، سیاسی، تجارتی اور معاشی تناظر نےچین کی اہمیت کو کئی گنا بڑھا دیا ہےاور چین کا جاننا دنیا کےہر فرد کی ایک اہم ضرورت بن گیا ہے۔ چین کےدوست ممالک ،خصوصیت سےسب سےگہرے دوست کی حیثیت سےپاکستان، میں اس بات کی اہمیت اور بھی زیادہ ہےکہ چین کی تاریخ، اس کےسیاسی نظام اور اس کےسماجی وثقافتی پہلو سےواقفیت کےپھیلاؤ اور سطح میں اضافہ کیا جائے۔
اس تمام پس منظر میں چینی قوم کی اہم خصوصیات کو جاننےکےمقصد سےانسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے’’چین –  تاریخ، سیاست اور معاشرہ‘‘ کےعنوان سےتین روزہ لیکچر سیریز پروگرام (11تا13مئی 2010 ) کا انعقاد کیا ۔
پروفیسر ژو رانگ چین کےسینئر تجزیہ کار پاکستانی امور کےماہر، صحافی اور اب یونیورسٹی پروفیسر جناب ژو رانگ اس پروگرام کےمہمان مقرر تھے۔ جناب ژو رانگ سی چوان یو نیورسٹی، چیندو اور فودا یو نیو رسٹی، شنگھائی میں وزٹنگ پروفیسر ہیں۔ پاکستان میںچھ سال سےزائد عرصہ تک قیام اور پاکستانی سیاست اور معاشرہ کو قریب سےجاننےاور سمجھنےکےتحقیقی تجسس کےباعث اب وہ بہت سےپاکستانیوں سےزیادہ پاکستان کو جانتےہیں۔ چین میںپاکستانی امور کےماہرین میں آپ کا نمایاں مقام ہے۔
’’چین –  تاریخ، سیاست اور معاشرہ‘‘ پروگرام میں آپ کےتین لیکچر زہوئے، جن کےموضوعات یہ تھے: چین کی تاریخ ، چین کا سیاسی نظام ، چین کا معاشرہ
اس تین روزہ پروگرام میں اسلام آباد کے اسکالرز، صحافی، وکلاء، پیشہ ورانہ ماہرین، اساتذہ اور خصوصیت سےیو نیو رسٹیوں کےطلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نےشرکت کی ۔
پشاور یو نیورسٹی سےاساتذہ اور طلبہ  کا ایک گروپ خاص طور پر اس پروگرام میں شرکت کےلیےاسلام آباد آیا ۔
ان تین پروگراموں میں صدارت کےفرائض ادا کرنےکےلئےبھی اہم شخصیات مدعو تھیں۔ پہلےدن کےپروگرام کی صدر نشین سابق سینیٹر اور انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کی نیشنل اکیڈمک کونسل کی ممبر محترمہ بیرسٹر سعدیہ عباسی تھیں۔ وہ آج کل سپریم کورٹ میں اجتماعی عوامی بھلائی کےکئی مقدمات کی پیروی کر رہی ہیں۔
دوسرے دن کےلئےصدر نشین چین اور دیگر کئی ممالک میں لمبےعرصےتک پاکستان کےسفیر کی حیثیت سےذمہ داریاںادا کرنےوالےاور صاحب فکر و نظر جناب خالد محمود تھے۔ تیسرےسیشن کی صدارت کےلئےپاک چین تعلقات کی مضبوطی کےلئےاہم کردار ادا کرنےوالی شخصیت ، پاکستان کےسابق سیکرٹری خارجہ اور سابق سینیٹر جناب اکرم ذکی تھے۔ آپ انسٹی ٹیوٹ کی نیشنل اکیڈمک کونسل کےممبر بھی ہیں۔
ذیل میں ان تین پروگراموں کی الگ الگ مختصر رپورٹ پیش کی جا رہی ہے۔

چین کی تایخ

 

فہم چین

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کےزیر اہتمام تین روزہ ’’چین –  تاریخ، سیاست اور معاشرہ‘‘ لیکچر سیریز کےپہلےدن چین کےمعروف اسکالر، تجزیہ نگار اور سی چوان یو نیورسٹی، چیندو کےوزٹنگ پروفیسر ژو رانگ نےچین کی تاریخ کےموضوع پر لیکچر دیا۔ اس پروگرام میں بین الاقومی امور سےدلچسپی رکھنےوالےتحقیق کاروں، اسکالرز، اساتذہ اور مختلف یونیورسٹیز کےطلبہ و طالبات نےشرکت کی۔ شرکاء نےچین کی تاریخ میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا اور سینئر پروفیسر سےبہت سےسوالات پوچھے۔ پروفیسر ژو رانگ نےدلچسپ انداز میں اپنےموضوع پر اظہار خیال کیا اور شرکاء کےسوالات کےسیر حاصل جوابات دیئے۔
اس نشست کی صدر نشین محترمہ بیرسٹر سعدیہ عباسی نےکہا کہ چین کی ترقی کا راز تین الفاظ پر مشتمل اس کی پالیسی یعنی امن، ترقی اور ہم آہنگی میں پنہاں ہے۔ یہ ہمارےلئےبھی مشعل راہ ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کےڈائر یکٹر جنرل جناب خالد رحمن نےشرکاء کا شکریہ ادا کرتےہوئےکہا کہ اگرچہ چین کی اہمیت زمانہ قدیم سےکسی نہ کسی حوالہ سےہمیشہ ہی رہی ہےتاہم چند دہایوں سےعالمی سطح پر ابھرتےہوئےسیاسی، تجارتی اور معاشی تناظر نےچین کی اہمیت کئی گنا بڑھا دی ہے۔ چین کےہمسایہ اور دوست ملک ہونےکی حیثیت سےپاکستان میں چین کےبارے میں آگہی میں اضافہ وقت کی ضرورت ہے۔

چین کا سیاسی نظام

فہم چین

چین کا سیا سی نظام چین کےلوگوں نےاپنےحالات کےمطابق اپنی ضروریات کےلیےبنایا ہے۔ عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانا اور غربت کا خاتمہ کرنا اس کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ نظام ایک سیاسی پارٹی کی بنیاد پر قائم ہے۔ یہاں روایتی اپوزیشن پارٹی نہیں ہوتی جس کا کام تنقید برائےتنقید ہو بلکہ یہاں پارٹی کےاندر تنقید اوراحتساب کا نظام قائم ہے۔ پروفیشنل اورقومی سیاسی ضروریات کےتحت یہاں کمیونسٹ پارٹی کےعلاوہ دیگر آٹھ پارٹیاں بھی ہیں لیکن باہمی اعتماد اور رواداری کی فضا قائم رہتی ہے۔ براہِ راست اوربالواسطہ انتخاب کا حسین امتزاج چین کےسیاسی نظام کی اہم خصوصیت ہے۔ دستور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ قیادت کی سطح پرسیاسی سوچ میں اختلاف ہوتا رہا ہےلیکن کبھی لڑائی جھگڑےکی نوبت نہیں آئی ۔
03یہ بات چینی اسکالر پروفیسر ژورانگ نےکہی۔ وہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کےزیرِ اہتمام تین روزہ ’’فہمِ چین‘‘ لیکچر سیریز کےدوسرےدن ’’چین کا سیاسی نظام‘‘کےموضوع پر لیکچر دےرہےتھے۔ اس پروگرام کی صدارت ایمبیسڈرخالد محمود نےکی۔ انہوں نےاظہار خیال کرتےہوئےکہا کہ چین کا سیاسی نظام دنیا کےبہترین سیاسی نظاموں میں سےایک ہے۔ وہاں کی روایات اورطور طریقوںمیں ہمارے سیکھنےکےلیےبہت کچھ ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کےتحت اس طرح کا پروگرام باہمی تعلقات کےفروغ کاباعث ہو گا۔ اس پروگرام میں چین اورعالمی اُمور سےدلچسپی رکھنےوالےتجزیہ کاروں، اسکالرز، اساتذہ اورمختلف یونیورسٹیز کےطلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نےشرکت کی۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈ یز کےڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمن نےشرکاء کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نےکہا کہ دنیا کی 20% آبادی چین میں رہتی ہے۔ یہاں کا سیاسی نظام ایک منفرد اورپیچیدہ نظام ہے۔ تاہم یہاں کےلوگوں کےلیےفائدہ مند ہے۔

چین کا معاشرہ

 

فہم چین

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد کےزیرِ اہتمام تین روزہ ’’چین –  تاریخ، سیاست اور معاشرہ‘‘ لیکچر سیریز کےآخری روزصدارتی کلمات ادا کرتےہوئےسابق سیکرٹری خارجہ اور سابق سینیٹر جناب اکرم ذکی نےکہا کہ چین دنیا کا واحد ملک ہےجس کی چار ہزار سال کی مسلسل تاریخ کا ریکارڈ موجود ہے۔ چین نےماضی میںبھی اپنےعروج کےزمانےمیںدوسری اقوام کو زیر کرنےکےلئےکبھی فوج کشی نہیں کی ۔ بلکہ یہ بھی تاریخی حقیقت ہےکہ دوسروں کی جارحیت سےبچنےکےلئےعظیم دیوار چین تعمیر کی گئی۔ اس سےچینی قوم کےمزاج کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ماضی قریب میں گیارہ ملکوں نےچین کےمختلف حصوں پر قبضہ کیا، چین نےسب کےخلاف جد وجہد کی اور 1949ء میں آزادی حاصل کی ۔ آزادی کےبعد ثقافتی انقلاب کےدس سال چھوڑکر جس میں حماقتیں کی گئیں، چین مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کےتازہ اعداد و شمار کےمطابق اب یہ دنیا کی دوسری بڑی اکانومی بن چکا ہے۔ یہ سب کچھ ایک محب وطن، مخلص اور یکسو قیادت کا کرشمہ ہے۔ پاکستان کےدستور میں بہترین اصول درج ہیں لیکن عمل نہیں ہوتا ۔ قیادت ذاتی مفاد سےبڑھ کر نہیں سوچ سکتی ۔ ہمارےمسائل کا حل بھی مخلص، یکسو، بلند نظر، اور عوام کی ہمدرد قیادت کا ظہور ہے۔
پروفیسر ژو رانگ نےچینی معاشرہ اور ثقافت کی تاریخ، اس کی نمایاںخصوصیات اور چینی معاشرہ کی02 ساخت اور ترقی میں اس کی اہمیت بیان کی۔ انہوںنےحکومت چین کی ان پالیسیوں پر تفصیل سےروشنی ڈالی جو سماجی لحاظ سےمستحکم، اور معاشی لحاظ سےطاقت ور نئےچین کی بنیاد ہیں۔ ان پالیسیوںمیں غریبوں کی ایسی مدد کی کہ وہ دیہی زندگی میںرہتےہوئےجدید شہری سہولتوں کےساتھ پیداواری سر گرمیوں میں بھر پور حصہ لےسکیں اورقومی پیداوار میں اضافےکا باعث بن سکیں۔ حکومتی سطح پر تعلیم کو عام کرنےاور سائنس اور ٹیکنالوجی میںمہارت حاصل کرنےکےاقدامات کئےگئے۔ مختلف اقلیتی، قومیتوں کو حقوق، آزادی اور علاقائی اختیارات دیئےگئے۔ خواتین کی آزادی کےاقدامات کیےگئےاور انہیںسماجی اور سیاسی ذمہ داریوں میں حصہ دار بنایا گیا۔ مذہبی آزادی کو یقینی بنایا گیا‘ اقلیتوں کو تحفظ دیا گیا اور ان کےمذہبی مقامات اور عہدوں کو بحال کیا گیا۔
04انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کےڈائر یکٹر جنرل جناب خالد رحمن نےکہا کہ پاکستان اور چین دو عظیم قومیں ہیں جن میں بہت سےامور مشترک ہیںجو انہیںراہ ترقی کا قدرتی ساتھی بناتےہیں۔ پاکستان کی طرح یہاں بھی عروج و زوال کےکئی ادوار گزرےہیں۔ تا ہم چین نےتیز رفتار، ترقی پذیر اور مستحکم سیاسی و معاشی نظام کےتسلسل کی منفرد مثال قائم کی ہے۔
چین کےعظیم رہنما ڈینگ ژیاؤ پنگ نےاپنی قوم کو جو اصول دیئےوہ بلند درجہ کےاخلاقی اور آفاقی اصول ہیں۔ ان سےہر قوم استفادہ کر سکتی ہے۔

’’چین –  تاریخ، سیاست اور معاشرہ‘‘ پروگرام کےآخری روز بھی معروف علمی شخصیات،وکلاء ،سفارت کار،یونیورسٹی اساتذہ ،صحافی اور طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نےشرکت کی ۔

 

03

 

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے