چین پاکستان اقتصادی راہداری: توانائی کا پہلو
چین پاکستان اقتصادی راہداری پاکستان کے لئے ایک عظیم موقع ہے۔ اس کے فوائد سمیٹنا تبھی ممکن ہو گا کہ اس پر پوری منصوبہ بندی سے کاموں کا آغاز کیا جائے۔ پاکستان ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے توانائی کے بحران کا شکار ہے جسکی ایک وجہ مناسب سرمایہ کاری کا فقدان اور اس سے متعلق دیگر شعبوں کے لیے رقوم کی فراہمی ہے۔ ایسے میں سی پیک منصوبہ میں توانائی کا شعبہ ۳۲ بلین ڈالر کی کثیر سرمایہ کاری کے باعث ایک شاندار موقع کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ اس موقع کو عملی شکل میں دیکھنے کے لیے بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔
اس تناظر میں یکم جنوری ۲۰۱۶ءکو انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ایک نشست ہوئی جس کا عنوان تھا "چین پاکستان اقتصادی راہداری: توانائی کا شعبہ”۔
یہ مختصر رپورٹ اسی اجلاس کی کارروائی پر مبنی ہے جس میں بطور اسپیکر سید اختر علی، رکن پاکستان توانائی پلاننگ کمیشن نے خطاب کیا۔ جبکہ مرزا حامد حسن، ممبر آئی پی ایس نیشنل اکیڈمک کونسل اور سابق وفاقی سیکرٹری پانی و بجلی نے اجلاس کی صدارت کی۔ توانائی کے ماہرین، حکومتی افسران، صنعت کے نمائندوں، ماہرین تعلیم اور صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے اس اجلاس میں شرکت کی۔
سید اختر علی نے اپنی پریزینٹیشن میں چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے چار اہم پہلوؤں کی نشاندہی کی: توانائی میں تعاون، بنیادی ڈھانچہ کی ترقی، گوادر بندرگاہ اور صنعتی تعاون۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری میں توانائی کا شعبہ 33.793 ارب ڈالر کے ساتھ سرمایہ کاری کے لحاظ سے باقی تمام شعبوں پر غالب ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری میں توانائی کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کے باعث نیشنل گرڈ میں ۱۷۰۰۰ میگاواٹ بجلی کا اضافہ ہو گا۔
مرزا حامد حسن نے اپنے تعارفی کلمات میں مندرجہ ذیل اہم معاملات کو اجاگر کیا۔
-دیگر ذرائع کے مقابلے میں کوئلے کا توانائی کی پیداوار میں بڑا حصہ ہے۔ دوم یہ کہ اس کی زیادہ مقدار درآمد شدہ کوئلے پر مشتمل ہے ۔
-ان منصوبوں کے نتیجے میں مقامی افرادی قوت کی استعداداور ٹیکنالوجی ٹرانسنفر میں اضافے کی منصوبہ بندی کا فقدان بھی تشویش کا سبب ہے۔
-توانائی کی بڑھتی ہوئی پیداواری صلاحیت کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ توانائی کی تقسیم کے ذراِئع کو بھی بڑھایا جائے جبکہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل توانائی کا شعبہ صرف توانائی کی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کا کام کر رہا ہے۔
اس منصوبے میں ٹیکنالوجی کے تبادلے کے مواقع کم ہیں۔
منصوبے پر ہونیوالی سرمایہ کاری کی لاگت کی بھی نگرانی ہونی چاہیئے تاکہ بعد میں صارفین پر بوجھ نہ پڑے۔
تیل اور گیس سے پیدا ہونے والی توانائی کی دیگر اقسام کی ترقی اور پائپ لائنز کی تعمیر کی طرف توجہ کم ہے۔
باہمی تبادلہ کے دوران مندرجہ ذیل سفارشات سامنے آئیں۔
کوئلے سے چلنے والے منصوبوں کے بڑے تناسب کی وجہ سے حکومت کو چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے توانائی کے پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہیئے۔
حکومت کو چاہیئے کہ وہ چین کو قائل کرے کہ دیامیر باشا اور پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبوں پر سرمایہ کاری کو بھی چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شامل کرے۔
اگرچہ کوئلہ اور ایل این جی کے منصوبے توانائی بحران کا فوری حل فراہم کر رہے ہیں لیکن ہائیڈرو پاورمنصوبے ملکی معیشت سے منسلک فوائد خاص طور پر پانی ذخیرہ کرنے اور زرعی ترقی کے پیش نظر ہمیشہ پاکستان کی اولین ترجیح رہنے چاہیئں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے توانائی کے منصوبوں میں پیداوار اور تقسیم کے درمیان توازن کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
ٹیکنالوجی کی منتقلی، مقامی انسانی وسائل، مقامی صنعت کاری اور صلاحیت کے فروغ کے پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیئے۔
پلاننگ کمیشن کی ویب سائٹ پر چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلقہ مواد اور اعداد و شمار کو بھی تازہ ترین رکھنے کی ضرورت ہے۔
جواب دیں