پاکستان میں بجلی کا شعبہ: ایک سال میں ہو نے والی ترقی کا جائزہ

energy1t

پاکستان میں بجلی کا شعبہ: ایک سال میں ہو نے والی ترقی کا جائزہ

ماہرین نے اس بات کی ضرورت کا بھر پور اظہار کیا ہے کہ ملک میں بجلی اور توانائی کے پے در پے بحرانوں سے بچنے کے لیے قومی سطح کی مربوط منصوبہ بندی لازمی ہے تاکہ ہم اس شعبہ میں اپنے مستقبل کو محفوظ بناسکیں۔ وہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد کے ایک سیمینار میں اظہارِ خیال کر رہے تھے، جس کا موضوع تھا: ’’پاکستان میں بجلی کا شعبہ: ایک سال میں ہونے والی ترقی کا جائزہ‘‘
انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں توانائی پالیسیوں کو نمائشی قرار دیا کیونکہ یہ مربوط منصوبہ بندی کے تقاضوں اور اساسی تیکنیکی ضرورتوں سے مکمل بے نیازی پر مبنی ہیں۔

 

 

وفاقی حکومت کے سابق سیکرٹری برائے پانی و بجلی اشفاق محمود اس سیمینار کے کلیدی مقرر تھے۔ انہوں نے کہا کہ بجلی سے متعلق حکومتی پالیسیاں غیر شفاف ہیں اور ضروری تیکنیکی مطالعوں کو نظر انداز کرکے بنائی گئی ہیں جو وزارت میں موجود پیشہ ورانہ ماہرین کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا باعث ہیں۔

انہوں نے حکومتوں کی جانب سے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے لیے روایتی سُستی پر مبنی رویّے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر کالا باغ ڈیم تعمیر ہوچکا ہوتا تو آج امریکی ڈالر کی قیمت پچیس، تیس روپے سے آگے نہ بڑھتی۔ انہوں نے خدشے کا اظہار کیا کہ اس پہلو سے حکومت کی بے عملی آئندہ آنے والے برسوں میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے تناسب کو مزید کم کرنے کا باعث ہوگی۔

سابق سیکرٹری نے کہا کہ حکومت کی فرنیس آئل سے چلنے والے تھرمل پاور پلانٹس کو کوئلہ پر منتقل کرنے کی بچت کوششوں کو کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ پبلک سیکٹر کے چند پلانٹس ہی اس معاملہ میں پیش قدمی کر رہے ہیں جبکہ آئی پی پیز قیمت کی وجہ سے اور پلانٹ بند ہونے کے نقصان کی وجہ سے اس پر نہیں جارہے ہیں۔

سابق سیکرٹری نے کہا کہ حکومت نے کوئلہ جلا کر بجلی پیدا کرنے کے کئی پلانٹس لگانے کے اعلانات کیے ہیں جبکہ پہلے سے اس کے اثرات کا جائزہ لینے اور دیگر ضروری تیکنیکی مطالعہ کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ طے کردہ پراجیکٹس میں بجلی کی ترسیل کے نظام کے لیے کوئی پی سی ون تیار نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ مشہورنیلم جہلم پراجیکٹ،کے اثرات محدود رہیں گے کیوں کہ وہاں پیدا ہونے والی بجلی کو چالیس کلومیٹر آگے لے جانے کے لیے ٹرانسمشن لائن موجود ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئلہ جلا کر بجلی پیدا کرنے والے منصوبے درآمد شدہ ایندھن پر انحصار کو مزید بڑھا دیں گے۔ اشفاق محمود نے کہا کہ گردشی قرضے دوبارہ بڑھ رہے ہیں۔ 480ارب روپے کے ذریعے جن گردشی قرضوں کو ختم کیا گیا تھا، اطلاعات یہ ہیں کہ یہ گردشی قرضے دوبارہ بڑھ رہے ہیں اور ایک سال کے اندر تقریباً 400ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی خیبر پختون خوا اور سندھ کی دو صوبائی حکومتوں کے ساتھ توانائی کے مسئلہ پر چپقلش اس اہم مسئلہ کی سنگینی میں اضافہ کررہی ہے اور اس شعبہ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ فاضل مقرر نے کہا کہ لائن لاسز، مسلسل بڑھتے ہوئے بجلی کے نرخوں اور لوڈشیڈنگ جیسے اُمور پر قابو نہ پاسکنا حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے بجلی چوری کے جرائم پر قانون کے سختی سے نفاذ پر زور دیا تاکہ توانائی کے بحران سے کسی حد تک نمٹا جاسکے۔

سابق وفاقی سیکرٹری مرزا حامد حسن نے، جو سیمینار کی صدارت کررہے تھے، کہا کہ حکومت کی پاور پالیسی محض خواہشات کی فہرست دکھائی دیتی ہے جس کے پیچھے کوئی ٹھوس عملی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ انہوں نے ذمہ داران کو مشورہ دیا کہ وہ حقیقت پسندانہ پالیسیاں بنائیں، اداراتی فریم ورک مہیا کریں اور اس کے اداروں کی استعداد میں اضافہ اور ترقی پر توجہ دیں۔ انہوں نے تیکنیکی ماہرین پر مشتمل ایک ایسے فورم کی تشکیل کی تجویز دی جو پاور پراجیکٹس کا تجزیہ کرسکے، کمزوریوں کی نشاندہی کر سکے اور بہتری کی تجاویز دے سکے۔

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے بتایا کہ توانائی کے شعبہ کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی موجودہ حکومت کا پہلا سال مکمل ہونے پر اس حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات کا جائزہ جلد شائع کیا جائے گا۔ سیمینار سے صلاح الدین رفاعی اور امینہ سہیل نے بھی خطاب کیا۔

نوعیت: روداد سیمینار

تاریخ: 20جون 2014

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے