بدلتی دنیا اور پاک چین تعلقات کا مستقبل
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور چائنیز ایسوسی ایشن فار انٹر نیشنل انڈر اسٹینڈنگ کے باہمی دوستانہ اور پیشہ ورانہ تعلق کے تسلسل اور دونوں اداروں کے درمیان ایک عشرے پر محیط تعاون کا جائزہ لینے کے لیے CAFIU کے ایک چھ رکنی وفد نے کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے بین الاقوامی شعبے کے وائس منسٹر جناب آئی پنگ کی قیادت میں آئی پی ایس کا دورہ کیا۔ اس موقع پر ۲۲ فروری ۲۰۱۱ء کو باہمی تبادلۂ خیالات کے لیے ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی۔ "بدلتی دنیا اور پاک چین تعلقات کا مستقبل ” کے عنوان سے ہونے والی اس مجلس مذاکرہ کی صدر نشین بیرسٹر سعدیہ عباسی تھیں۔ دونوں اطراف نے باہمی دلچسپی سے متعلق متعدد میدانوں میں تعاون کو بڑھانے کے حوالے سے اپنی آراء کا اظہار کیا۔
اس موقع پر جناب آئی پنگ نے امور خارجہ کے ماہرین، اسکالرز اور تحقیق کاروں سے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ تبدیل ہوتے ہوئے بین الاقوامی اور علاقائی حالات میں پاکستان اور چین کی قیادتوں کو بین الاقوامی معاملات میں تعاون بڑھانے اور فریقین کے مشترکہ خدشات سے متعلق بڑے مسائل کے حوالے سے مسلسل مشاورت اور قریبی رابطے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ دونوں ملکوں کو سیاستدانوں اور نوجوان نسل کے باہمی دوروں کے فروغ کے حوالے سے خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
بحث میں حصہ لیتے ہوئے سابق سفیر طارق فاطمی نے کہا کہ ، افغانستان کے اس نئے مرحلے میں، پاکستان اور چین کا کردار خطے کی تقدیر کا فیصلہ کرے گا۔ افغانستان ہمارے مشترکہ تعاون کا میدان بن سکتا ہے۔
اقتصادیات اور اقتصادی تعلقات کے ماہر مسعود داہر نے دونوں ممالک کے صوبوں کے درمیان اقتصادی اور مواصلاتی روابط کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔ نیز انہوں نے دونوں اطراف کے لوگوں کے درمیان زبان کی رکاوٹ کو دور کرنے کی ضرورت کا اظہار بھی کیا۔
بیرسٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ مختلف سطحوں پر روابط جاری رہنے چاہییں اور تعلقات اور تعاون کے نئے راستے تلاش کرنی کی کوششیں بھی جاری رہنی چاہییں۔
گفتگو سمیٹتے ہوئے آئی پی ایس کے چیئر مین پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ ذرائع ابلاغ اور تعلیم کے شعبوں کو چاہیے کہ پاک چین تعلقات کو اپنی فکر و نظر اور عملی رویوں میں سمونے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کریں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ پاک چین تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ویزے کی تین اضافی اقسام متعارف کروائی جائیں یعنی وزٹ ویزا، اسٹوڈنٹ ویزا اور ہیلتھ ویزا ۔
نوعیت: خبر
تاریخ: ۲۲ جنوری ۲۰۱۱
جواب دیں