ایٹمی سلامتی-رحجانات اور لائحہ عمل

ایٹمی سلامتی-رحجانات اور لائحہ عمل

۲۶اور ۲۷ مارچ ۲۰۱۲ء کو سیول میں ہونے والی ’’ ۲۰۱۲ء سیول نیوکلیئر سیکیورٹی سمٹ‘‘ غالباً ایٹمی سلامتی کے حوالے سے ہونے والی اب تک کی سب سے بڑی سَمٹ( سربراہ کانفرنس )تھی، جس میں ۵۳ سے زیادہ ملکوں یا حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے سربراہ یا نمائندے شریک ہوئے۔ اس کانفرنس کے شرکاء نے بین الاقوامی تعاون کے اُمورپر سوچ بچار کیا تاکہ ایٹمی مواد اور سہولیات کو دہشت پسند گروپوں کی دست رس سے بچا یا جاسکے۔
اس تناظر میں اس سربراہی کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ۱۵ مارچ کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں عالمی اور علاقائی سطح پر ممکنہ خطرات و خدشات کا جائزہ لیا گیا اور یہ غور کیا گیا کہ پاکستان اس سلسلہ میں کیا کچھ کر سکتا ہے۔ ایٹمی پھیلاؤ کے اُمور کے ماہر ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں شعبہ اسٹریٹیجک اور نیوکلیئر اسٹڈیز کے سربراہ ائیر کموڈور ریٹائرڈ غلام مجدد اس سیمینار کے کلیدی مقررین تھے جبکہ اس کی صدارت سینیٹر مشاہد حسین سید نے کی۔
ایٹمی سلامتی کا مسئلہ ہر اُس قوم کے لیے توجہ طلب مسئلہ ہے جو ایٹمی ٹیکنالوجی کی کسی بھی شکل یا اطلاق میں اس کا استعمال کر رہی ہے۔ ایٹمی سلامتی کی بنیاد اُن کامیابیوں پر ہے جو اسے مؤثر طور پر دریافت کرنے اور ہر ایسے طریقے سے اسے محفوظ کرلینے سے ہو جو اس کی چوری، تباہی، غیر مجاز حصول، غیر قانونی منتقلی اور ایٹمی مواد اور ریڈیو ایکٹیو مواد کے غیر مجاز استعمال یا متعلقہ سہولیات کے غلط استعمال سے تعلق رکھتا ہو۔
اِس تناظر میں مفروضہ یہ ہے کہ تمام معاشرے ایٹمی سلامتی کے خطرے کا یکساں شکار ہیں اور یہ کہ ایٹمی سلامتی کے خدشے کو ختم کرنے کے لیے کسی ایک نسل، تہذیب حتیٰ کہ ٹیکنالوجی میں برتری کی حامل قوم یا اقوام کے کسی گروہ کو بھی اپنے طور پر نمٹنے کے لیے کوئی خاص مقام یا برتری حاصل نہیں ہے۔ ایٹمی سلامتی بنیادی طور پر تمام ریاستوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
ایٹمی سلامتی ایک تکنیکی مسئلہ ہے لیکن بد قسمتی سے اس سے نمٹنے کے لیے سیاسی طور طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ ایٹمی سلامتی کے خوش نما نام پر ایک مہم چلائی جارہی ہے جس کا مقصد ایٹمی عدم یکسانیت کی موجودہ کیفیت کو مستقل شکل دینا ہے اور اس کو شش میں خصوصاً ان ملکوں کو یکساں مواقع دینے سے انکار کیا جا رہا ہے جو ایٹمی ٹیکنالوجی کے میدان میں ابھی ابتدائی درجے میں ہیں۔
ایٹمی سلامتی کا تصور اُن تمام ذمہ داریوں پر محیط ہے جو ہر ملک پر اپنے ایٹمی مواد ،تنصیبات،مشینوں ، ڈھانچے اور متعلقہ علم اور مہارت کے تحفظ اور سلامتی سے متعلق عائد ہوتی ہیں۔ایٹمی عدم پھیلاؤ کا معاہدہ (NPT)اِس میں شریک تمام فریقوں کو ایٹمی سلامتی کی کیفیت سے متعلقہ اُمور کے نفاذ کا ذمہ دار بناتا ہے۔ تاہم یہ معاہدہ مخصوص طور پر غیر ریاستی عناصر کو ایٹمی مواد یا ٹیکنالوجی کے حصول سے روکنے کے مسئلہ کو نہیں دیکھتا۔ ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل حکومتیں مطلوبہ صلاحیت اور استعداد کی نارسائی کے مسئلہ سے بھی دو چار ہیں۔ دوہرے اطلاق کی مشینوں اور مواد کا بڑھتا ہُوا رحجان اس خدشہ کو بڑھا رہا ہے کہ ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے خلاف مؤثر حفاظتی دیوار میں کہیں شگاف نہ پڑجائے۔
نائن الیون کے بعد اس نوعیت کے غلط استعمال کے امکانات کا ایک بلند آہنگ شور برپا کیا گیا، اُس بدترین دن کے تصور سے ڈرانے کے لیے جب کوئی دہشت گرد گروپ ایٹمی ہتھیار چلانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ اگرچہ  اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ریاستی سطح کی کمزوریاں غیر ریاستی عناصر کو ’’گندے بم‘‘ (Dirty Bomb)کی سطح کی صلاحیت کا حامل بنا دیں، تاہم اس نوعیت کے خطرے کو سیاسی حربے کے طور پر بہت بڑھا کر پیش کیا گیا۔ ایٹمی سلامتی کے خدشات میں ایٹمی مواد کی چوری کے امکانات ، اس کی تباہی، ایٹمی ہتھیار کا غیر مجاز استعمال، اندرونی اور بیرونی عناصر کا باہمی تعاون وغیرہ شامل ہیں۔ یہ صورتِ حال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بعض قرار دادوں پر منتج ہوئی خصوصاً قرار داد نمبر 1540اور دیگر روایتی اور غیر روایتی انتظامات۔
صدر اوباما نے واشنگٹن میں ۱۳-۱۲اپریل ۲۰۱۰ء کوپہلی نیوکلیئر سیکیورٹی سَمٹ بُلائی جس میں کل ۷۴ ممالک نے شرکت کی، جس میں سے ۳۷ ممالک کے سربراہ شریک تھے جن میں پاکستان کے وزیرِاعظم بھی شامل ہیں۔ ایٹمی ری ایکٹر استعمال کرنے والے تمام ملکوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ سربراہی کانفرنس کی توجہ کا مرکزی نکتہ ان طریقوں اور ذریعوں کو تلاش کرنا تھا جس سے ایٹمی ری ایکٹر سے متعلقہ مشینوں اور مواد کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکا جاسکے۔ایٹمی سلامتی کے وسیع مسئلہ پر غور کرنے والی یہ اپنی نوعیت کی پہلی سربراہ کانفرنس تھی۔

alt

مستقبل کی حکمتِ عملی کے طور پر یہ طے کیا گیا کہ ایٹمی ہتھیاروں کی صلاحیت کے درجہ کے فزائل مواد پر ایٹمی اطلاقات کا انحصار کم سے کم کیاجائے اور مرحلہ وار پروگرام کے ذریعے فزائل مواد کو کم تر درجہ کی تیاری تک محدود کیا جائے۔ ایک اور عمدہ پیش رفت امریکہ اور روس کا یہ  معاہدہ ہے کہ وہ فاضل پلاٹونیم ذخیرہ کو ضائع کریں گے۔ اسٹارٹ تھری اور امریکہ کے ایٹمی پاسچر ریویو ۲۰۱۰ ء کی بنیاد پر منعقد ہ اس سَمٹ میں ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بیانات میں خالص سلامتی سے متعلق تیکنیکی تناظر غالب رہا۔
سلامتی سے متعلق اُمور کے علاوہ اس موقع کو ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر دباؤ کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔ جواباً ایران نے بھی ایک نیوکلیئر سیکیورٹی سَمٹ کاانعقاد کیا جس کا عنوان تھا: ’’ایٹمی ہتھیار کسی کے لیے نہیں، ایٹمی قوت سب کےلیے۔‘‘اس طرح ایران نے ایٹمی اسلحہ ختم کرنے کے لیے متبادل طریقوں کو متعارف کروایا، جو ایٹمی عدم پھیلاؤ معاہدہ کی دفعہ ۶ کی مطابقت میں اور سی ڈبلیو سی اور بی ڈبلیو سی سے ملتا جلتا نظام ہے۔ اگرچہ ایٹمی اسلحہ کا مکمل خاتمہ نیوکلیئر پاور پلانٹس میں ہونے والی کسی انسانی غلطی یا قدرتی حادثے کے خطرے سے بالکل بے نیاز نہیں کردیتا۔
۱۵ مارچ ۲۰۱۲ء کو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں منعقد ہونےوالے سیمینار میں  ایٹمی سلامتی کے لیے علاقائی رحجانات کاجائزہ لیتے ہوئے یہ رائے ظاہر کی گئی کہ پاکستان کا ایٹمی تحفظ کا ڈھانچہ بہت محفوظ ہے۔ یہ کمانڈ اور کنٹرول کا پختہ نظام رکھتا ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شفاف ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کے بارے میں بین الاقوامی ماہرین کو بریفنگ دینے میں نرم رویہ رکھتا ہے۔ اس کے برعکس بھارت غیر ملکی ماہرین کو ایسی بریفنگ کااہتمام نہیں کرتا۔
یہ بھی کہا گیا کہ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے کمانڈ اور کنٹرول سسٹم میں کچھ مسائل ہیں۔یہ عجیب بات ہے کہ وہ ممالک جہاں نسبتاً زیادہ ایٹمی حادثات ہوئے ہیں مثلاً جاپان، روس اور امریکہ ، وہ بھارت اور پاکستان کے مقابلہ میں زیادہ محفوظ سمجھے جاتے ہیں۔ اسی طرح بھارت کو اس معاملہ میں حفاظت اور سلامتی کا خراب ریکارڈ رکھنے کے باوجود پاکستان سے بہتر سمجھا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ پرکھ اور جانچ جانب دارانہ ہے، اس کی بنیاد حقائق سے زیادہ تاثرات پر ہے۔ ان رویوں کے پیچھے تاریخی تعصبات ہیں نہ کہ اصل زمینی حقائق۔
پاکستان ایٹمی برآمد پر کنٹرول کا مؤثر نظام رکھتا ہے اور خاص ایٹمی مواد (SNM)کے داخلے اور اخراج کے مقامات پر ایسا خود کار نظام نصب کر رہا ہے جو ایٹمی اور ریڈیو ایکٹیو مواد کو شناخت کرسکے اور اس کی غیر قانونی آمدورفت کو روک سکے۔ مزید براں پاکستان بیس ہزار تربیت یافتہ فوجی جوانوں پر مشتمل ایک مضبوط فوجی یونٹ رکھتا ہے جو اس کی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔
اس مسئلہ پر عالمگیر رحجانات کا جائزہ لیتے ہوئے سیمینار کے شرکاء نے محسوس کیا کہ نیوکلیئر سیکیورٹی سَمٹ جیسے فورم اور دیگر غیر روایتی انتظامات کو باضابطہ انتظامات کے طور پر آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں اورساتھیوں کی جانب سے جان بوجھ کر ایٹمی سلامتی کے مسئلہ کو بڑھا چڑھا کر جہادی دہشت گردوں کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے تا کہ پاکستان کا ہاتھ مروڑا جاسکے۔ جبکہ دوسری جانب ایمیف دہشت گردی کاسبب بننے والی دیگر ممکنہ وجوہات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ امریکہ مسلسل اپنے آپ کو ایٹمی سلامتی کے نظام کا واحد قائد یا اجارہ دار سمجھتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل ایٹمی پھیلاؤ سے تحفظ کے حوالے سے ایران کو مسلسل فوجی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اسرائیل کم از کم دو ملکوں کے ایٹمی پروگرام کو طاقت کے ذریعے ختم کر نے کا تاریخی ریکارڈ رکھتا ہے، ایران کو اُس کی دھمکیاں نظرا نداز نہیں کی جاسکتیں۔
یہ بات معروف ہے کہ امریکہ ایک ایسا فوجی عملی منصوبہ (ایکشن پلان) رکھتا ہے جو کسی ’’بدترین ممکنہ صورتِ حال‘‘ میں ’’ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو حفاظت میں لینے ‘‘ کے لیے رُوبہ عمل آسکے۔ چنانچہ امریکہ کی جانب سے ’’ایٹمی جہادیوں ‘‘سے متعلق بلند آہنگ ابلاغ ایسے فرضی اور غیر حقیقی منظر نامہ کی تشکیل کے لیے ہے جس کے تحت اگر پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر اچانک قبضہ کرلیا جائے تو عالمی برادری میں اس کے خلاف ردِّ عمل نہ ہو۔ اس لیے ایک منظم منصوبے کے تحت ایسی حکمتِ عملی پر قدم بہ قدم آگے بڑھا جا رہا ہے جس سے ایران، پاکستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک پر پابندیوں اور اقدامات کے ذریعے دباؤ بڑھایا جاسکے۔ بھارت کے کمزور حفاظتی ریکارڈ کے باوجود اُسے ایک ذمہ دار اور باعزت ایٹمی طاقت کی سند دی جا رہی ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے ایک بڑے پروگرام کا حامل ہونے کے باوجود اسرائیل کو ہر ایٹمی مسئلہ پر امریکہ کی جانب سے تحفظ مہیا کیا جاتا ہے۔ ایٹمی تحفظ کے خوبصورت پردے کے پیچھے سیاسی پسند و ناپسند کی بنیاد پر مخصوص ایٹمی ریاستوں کو نوازنے اور اپنے معاشی و تزویراتی مفادات کو آگے بڑھانے کا کام منظم طور پر کیاجاتا ہے۔
منصوبہ ٔ عمل اور ایٹمی سلامتی کے حوالے سے ۲۰۱۰ء کی سَمٹ کے ایک حصہ کے طور پر توقع ہے کہ سیول سَمٹ ۲۰۱۲ء فو کو شیما حادثہ پر شدید بین الاقوامی تشویش کے اظہار کا ذریعہ بنے گی۔ اور یہ شائد سلامتی اور تحفظ کے درمیان تعلق کے سیول ایجنڈے کو مزید آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے گی۔ اگرچہ ایٹمی تحفظ (حادثات سے بچاؤ) اور ایٹمی سلامتی (بدنیتی پر مبنی تباہی سے بچاؤ) کچھ مشترکہ پہلو بھی رکھتی ہے تاہم دونوں بالکل الگ الگ حالات میں آگے بڑھ سکتے ہیں اور ماحولیاتی حادثے یا انسانی المیے کو جنم دے سکتے ہیں۔

alt

آئی پی ایس میں ہونے والے اس سیمینار میں زمین کے بیرونی کُّرے (خلا) میں اسلحہ کی دوڑ کے پہلو پر بھی تشویش کے ساتھ غور کیا گیا اور اس خطرے کا اظہار کیا گیا کہ یہاں نیا میدان ِ جنگ ابھر رہا ہے۔ یہاں بھی یقینی طور پر ایٹمی پھیلاؤ کے خطرے کا سامنا ہے جس سے ایٹمی سلامتی اور ایٹمی تحفظ سے متعلق مسائل کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔
ایٹمی عدم پھیلاؤ اور تحدیدِاسلحہ بنیادی طور پر سیول سَمٹ کے دائرہ کار سے باہر ہیں، ان مقاصد کے لیے اقوام متحدہ ہی صحیح فورم ہے۔ ایٹمی اُمور سے متعلق مسائل میں دوہرے معیارات اور منافقت ہمیشہ کی طرح آج بھی عالمی رحجان کے طور پر سامنے ہیں۔ ایسے آثار پائے جاتے ہیں کہ کچھ ممالک ایٹمی پھیلاؤاورتحدیدِ اسلحہ سے متعلق اُمور کو زیادہ نمایاں کرتے ہوئے اضافی ہیئت اور قواعد وضع کریں اور اس سے متعلق اصل اداروں مثلاً آئی اے ای اے کو نظر انداز کر دیں۔ پاکستان کو اس نوعیت کی ’’ایٹمی سرنگوں ‘‘سے ہوشیار رہنا ہوگا۔
سیمینار کے شرکاء نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو نیوکلیئر سیکیورٹی سے متعلق اپنے اصولی مؤقف پر کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ مسلم ممالک کو اپنی سلامتی اور بقاء کے لیے باہمی تعاون اور اشتراک کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اسلامی سربراہی کانفرنس کو یورپی یونین کی طرز پر استوار  کرنا چاہیے۔
نیوکلیئر سیکیورٹی سے متعلق مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ماہرین نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر ایٹمی عدم پھیلاؤ کے حامیوں کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی اصل مسئلہ ہے۔ نیوکلیئر سیکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بین الاقوامی برادری کو بلاتفریق ایٹمی عدم پھیلاؤ معاہدے کی پاسداری کو یقینی بنانا ہوگا۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ کسی بھی صورت اِس حقیقت سے اِنکار نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت امریکہ ایٹمی ڈیل سے امریکہ ایٹمی عدم پھیلاؤ معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھارت امریکہ معاہدے کا مقصدتوانائی کا حصول نہیں بلکہ بھارت کو علاقائی سطح پر مضبوط کرنا اور خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو روکنا ہے۔ پاکستان کو اِس کی مخالفت کرنی چاہیے ۔ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد اِس بات کو بلا جواز  ہوا دی گئی کہ دہشت گرد ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے اور انہیں استعمال کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں جو کہ محض ایک قیاس آرائی ہے۔ یہ مبالغہ آرائی مغربی بالخصوص امریکی تھنک ٹینکس، میڈیا اورمختلف رائے سازوں کی جانب سے تھی جس کا مقصد پاکستان کے ایٹمی پروگرام ، اِسکے حفاظتی نظام اور ایٹمی ہتھیاروں کو نشانہ بنانا تھا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کاایٹمی ہتھیاروں کا حفاظتی نظام دینا کے مضبوط اور مؤثر ترین نظاموں میں سے ایک ہے۔
دفاعی ماہرین نے کہا کہ یہ ذمہ داری ہر ریاست پر عائد ہوتی ہے کہ کسی بھی غیر معمولی حادثے سے بچنے کے لیے تمام ممکنہ حفاظتی تدابیر اختیار کی  جائیں۔پاکستان کو بھی اِس ضمن میں اپنا کردار کرنا چاہیے۔ تاہم قومی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ایسا کوئی بھی دباؤ قبول نہیں کرنا چاہیے جس سے پاکستان کی قومی سلامتی کو خدشات لاحق ہوں۔ پاکستان ہمیشہ سے اپنے اِس اصولی مؤقف پر قائم رہا ہے تاہم ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرے یہ صرف اُس وقت ممکن ہے جب پاکستان سیاسی اور اقتصادی طور پر مضبوط ہو۔
مقررین نے کہا کہ بین الاقوامی رحجانات کے تناظر میں ایران پر حملے کے امکانات بہت کم ہیں تاہم ایران کو اِس معاملہ میں سنجیدگی اور حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل تیار رہنا چاہے۔ چیئر مین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز جناب پروفیسر خورشید احمد کاکہنا تھا کہ ایران پر حملہ کی صورت میں پاکستان سمیت خطے میں موجود دوسرے ممالک کی سلامتی خطرات سے دوچار ہوسکتی ہے۔ لہٰذا ایران پر حملہ پاکستان کی قومی سلامتی پر حملہ تصور کیا جائے گا اور ایران کے خلاف طاقت کے استعمال میں پاکستان ایران کے ساتھ ہے۔ سیمینار میں دفاعی اُمور کے ماہرین کے علاوہ ، ملکی اور بین الاقوامی سفارت کاروں، سیاسی تجزیہ نگاروں، وزارت خارجہ کے اعلیٰ افسران سمیت طالب علموں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

نوعیت: سیمینار رپورٹ
تاریخ : ۱۵ مارچ ۲۰۱۲ء

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے