اندیشۂ جہاد
جہاد اسلام کی ان تعلیمات میںسےایک ہےجسےمغرب ہی نہیںخود مسلمانوںنےہر دور میں عصری تقاضوں کےپیش نظر تعبیر کی چھلنی سےگزارنےمیں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی اور اس کی ایسی ایسی نادر تعبیرات پیش کیں جو شاید قرن اول کےکسی مجتہد کےوہم و گمان میںبھی نہ ہوںگی۔ ان خدشات،غلط فہمیوں،فکری غلطیوںاور اندیشوںمیںسب سےنمایاںپہلو جہاد کی ’’غارت گری‘‘ کا تصور ہےجیسےگزشتہ دودہائیوں میں عملی سطح پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا ہے*۔
یورپی کلیسا نےصدیوںقبل (۱۲۹۱ ۔ ۱۰۹۱ء) مسلمانوںاور یہودیوںکو تلوار کےذریعہ عیسائی بنانےکےلیےجن صلیبی جنگوںکا آغاز کیا تھا ان کی تمام غارت گری کو یکسر نظرانداز کرتےہوئےدورجدید کےاکثر مغربی مستشرقین قرآن کےتصور جہاد کو مناسب اور معروضی تحقیق وتقابل کےبغیر بایک جنبش قلم قوت کےاندھےاستعمال ،بربریت،تشدد اور غارت گری سےتعبیر کر بیٹھتےہیںاور پھر ان تعبیرات کواتنی تکرار کےساتھ نقل کیا جاتا ہےکہ نہ صرف عامۃالناس بلکہ غیر مسلم اور مسلم دانش ور بھی،بغیر ضمیر کی کسی خلش کےاکثران ہوائیوںپر ایمان لےآتےہیں۔ علمی حلقوںمیںاس تصور کےدو واضح ردعمل سامنےآتےہیں۔ پہلےکا تعلق ذہنی مرعوبیت سےہےاور اس ردعمل میںباربار دہرائی ہوئی ایک بات سےمتاثر ہو کر معذرت پسندانہ رویہ اختیار کرتےہوئےجہاد دوقتال کو ماضی کی ایک روایت قرار دیتےہوئےاپنی ’’روشن خیالی‘‘ کی ڈفلی بجا بجا کر یہ اعلان کیا جاتا ہےکہ ہم تو اصل میںبہت امن پسند بلکہ ’’اہمسا‘‘ کےعلمبردار ہیںہم ایک چیونٹی کےملنےکو بھی حیوانی حقوق کی پامالی سمجھتےہیں۔ اسلحہ کا استعمال صرف اپنےدفاع کےلیےجائز سمجھتےہیں۔ اگر کسی خطہ میںانسانوںکےحقوق پامال ہو رہےہوںان کا خون ناحق بہایا جا رہا ہو انہیںمستغعفین فی الارض بنادیا گیا ہو تو یہ ان کا مسئلہ ہے۔ ہم حد سےحد ان کےلیےدعا کر سکتےہیں۔ ان کی امداد اور انہیںظلم سےنجات دلانا ہمارا نہیںبلکہ خالق کائنات کا مسئلہ ہے!
دوسرا ردعمل یہ سامنےآتا ہےکہ اسلام تو نام ہی مشرکین اور کافرین سےزمین کو پاک کرنےکا ہے۔ اس لیےانہیںجہاںپایا جائےبلاتکلف و تردد قتل کر دیا جائےاور آخرکار زمین پر صرف مسلمان باقی رہ جائیں۔ اس نوعیت کی نادر تعبیرات کو عموم کا درجہ دےکر ان پر ایک عالیشان تصوراتی محل تعمیر کر دینا زمینی حقائق کےساتھ ایک صریح زیادتی ہے۔
کیا قرآن کا دیا ہوا تصور جہاد ہر دور میںتبدیل ہوتا رہا ہے۔ یہ ایک تحقیق طلب سوال ہے۔ لیکن اس پر غور کرنےسےقبل ہمیںیہ تعین کرنا ہو تا کہ عصری مغربی مستشرقین کی اصل ذہنی الجھن کیا ہے۔ اس سلسلہ میںوہ چند سوالات جو بار بار اٹھائےجاتےہیںیہ ہیں:
۱۔ کیا اسلام تشدد،غارت گری اور سوچی سمجھی ہلاکت (organized use of violance) کی اخلاقی اور قانونی توثیق کرتا ہے۔
۲۔ کیا اسلام جہاد کو حرب مقدس (Holy War) کا درجہ دیتا ہے۔
۳۔ کیا جہاد کا مقصد سیاسی توسیع ہےاور یہ محض ریاست کی حدود بڑھانےکےلیےکیا جاتا ہے،حتیٰ کہ پوری دنیا پر صرف مسلمانوںکا تسلط ہو جائے۔
۴۔ کیا اسلام اور قوت و تشدد کےاستعمال میںکوئی منطقی اور فکری تعلق ہے۔
۵۔ کیا جہاد کا مقصد مسلم دنیا اور غیر مسلم دنیا پر شریعت کو مسلط (impose) کرنا ہے۔
۶۔ کیا جہاد جنت کےحصول کا آسان،مختصر اور یقینی راستہ ہے۔
۷۔ کیا اسلام انسانی تباہی کےآلات (WMD) کو مباح قرار دیتا ہے۔
یہ وہ چند بنیادی سوالات ہیںجن کےمفروضہ جوابات عصری مغربی مستشرقین کی تحریرات میںپیش کیےجار ہےہیںاور جن کی ایک جھلک Quinlan Wiktorowicz اور Mark Gould کےمقالات میںنظر آ رہی ہے۔ اوپر ذکر کیےگئےمعذرت پسندانہ اور جارحانہ ہر دو طریقوںسےخود کو بچاتےہوئےہم چاہیںگےکہ تعلیمی حکمت عملی (education approach) کو اختیار کرتےہوئےان سوالات کا ایک اصولی (in prenciple) جائزہ لیا جائے،جو ہمارےاوردوسروںکےلیےاصولی رہنمائی کی بنیاد بن سکے۔
گفتگو کا آغاز کرتےہوئےیہ بات واضح کر دینےکی ضرورت ہےکہ قرآن کریم محض چند ’’جامد‘‘ قوانین (precepts, commands. devine law) تک محدود نہیںہےبلکہ تین واضح انواع پر مشتمل ہےیعنی احکام،اصول اور تعلیمات وہدایات جہاںتک احکام کا تعلق ہےوہ متعین ہیںجن میںحدود،معاملات اور عبادات کےحوالےسےتشریح کر دی گئی ہے۔ یہ احکام قرآن کریم میںموجود بعض اصولوںپر مبنی ہیںمثلاً قصاص کےحکم کی بنیاد اس اصول پر ہےکہ انسانی جان کا بچانا اصل ہےاور جو اسےضائع کرےاس کی تعزیر اور دوسروںکی تعلیم کےلیےجان کےبدلےجان لی جائےگی۔ لیکن احکام کےساتھ بعض اوقات تعلیم کو حکم سےملحق اور بعض اوقات الگ بیان کر دیا گیا۔ مثلاً قتل کےحوالےسےنص کو بیان کرتےہوئےتعلیم کر دی گئی ہےکہ اگر ایک متاثر خاندان قاتل کو معاف کر دےتو بڑےاجر کی بات ہےیا خون بہا وصول کر لےتو یہ اس کاحق ہےلیکن اگر وہ اس تعلیمی انداز کو نظرانداز کرتےہوئےاپنےحق پر اصرار کرےاور قاتل کی جان قانونی اداروںکےذریعہ بدلہ میںلی جائےتو یہ بھی قانونی روایت کےمطابق ہو گا۔ اس لیےبعض مغربی اور بعض مسلم مستشرقین کا یہ کہنا کہ اسلام میںprecepts یعنی principles کی کمی ہے(Gould, p 25-26) قرآن شناسی سےناواقفیت کی ایک علامت ہے۔
انسانی جان کےاحترام اور تحفظ و بقاء کو فقہاء اسلام نےشریعت کا پہلا مقصد قرار دیا ہےاور قرآن کریم نےجابجا یہ بات بیان کی ہےکہ جس نےایک انسانی جان کو ناحق ضائع کیا اس نےگویا پوری انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نےکسی ایک انسانی جان کو بچایا اس نےتمام انسانوںکو حیات بخشی۔ یہ اصول مذہب،رنگ،نسل،ذات ہر قسم کی تقسیم سےبلند ہوکر تمام انسانوںکےلیےایک ایسےاصول کا اعلان کرتا ہےجس کا ماننا کسی مسلمان کےمسلمان ہونےکی شرط ہے۔ اگر واقعی ’’بنیاد پرست‘‘ کی تعریف یہ ہےکہ وہ اپنےدین کی کتاب کو لفظاً لفظاً مانتا ہو تو جو جتنا زیادہ ’’بنیاد پرست‘‘ ہو گا وہ اتنی ہی شدت سےاس اصول پر کاربند ہو گا۔ ورنہ اس کےایمان کےبارےمیںسوال اٹھےگا کہ وہ قرآن کو مانےبغیر کس قسم کامسلمان ہے۔
بلاشبہ اس اصول کو دوٹوک انداز میںپیش کر دینےکےساتھ قرآن کریم نےیہ وضاحت بھی کر دی ہےکہ کون سا خون بہاناحق کی پیروی میںہو گا۔ چنانچہ سورۃالحج کی آیت ۳۹۔۴۰ میںکہا گیا ’’اجازت دی گئی ان لوگو ںکو جن کےخلاف جنگ کی جا رہی ہےکیونکہ وہ مظلوم ہیںاور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیںجو اپنےگھروںسےناحق نکال دیےگئےصرف اس قصور پر کہ وہ کہتےتھےکہ ہمارا رب اللہ ہے،اگر اللہ لوگوںکو ایک دوسرےکےذریعہ دفع نہ کرتا تو خانقاہیں،گرجا،معبد اور مساجد جن میںاللہ کا کثرت سےنام لیا جاتا ہےسب مسمار کر ڈالی جائیں۔ اللہ ضرور ان لوگوںکی مدد کرےگا جو اس کی مدد کریںگے۔ ۔۔‘‘ (الحج۲۲: ۳۹۔۴۰)۔
یہاںعیسائیت کےjust war کےتصور سےہٹ کر ایک نئی فکر انقلابی انداز میںپیش کی گئی ہے۔ معاملہ کسی ایک ’’مذہب‘‘ کےماننےوالوںکےتحفظ یا کسی ایک مذہب کا دوسروںپر مسلط کرنےکےلیےقوت کےاستعمال کا نہیںہےبلکہ کم ازکم چار مذہبی روایات کی طرف اشارہ کرتےہوئےیہ بات فرمائی جا رہی ہےکہ وہ عیسائیوںکےگرجےہوں،یہودیوںکےمعبد ہوںیا بدھ اور دیگر مذاہب والوںکی خانقاہیںیا مسلمانوںکی مساجد،ان تمام علاماتی مراکز عبدیت کےتحفظ،آزادی اور بلاروک ٹوک ان میںجا کر اپنےمسلک کےمطابق اپنےرب کو یاد کرنےکےحق کا دفاع جہاد کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ وہ انقلابی تصور ہےجسےایک عیسائیت سےمرعوب ذہن اور نگاہ عموماً محسوس کرنےکی صلاحیت نہیںرکھتی،چونکہ اس کا بنیادی ذہنی ڈھانچہ Atonement،salvation،redemption اور grace کےشہتیروںسےتعمیر ہوتا ہےاس لیےوہ اسلام میںبھی ان تصورات کےمتبادل نظریات کی تلاش میںسرگرداںرہتا ہےاور محض ظاہر مماثلت کو حقیقی اشتراک سمجھ کر نتائج تک چھلانگ لگا کراپنےمفروضوںکےدرست ہونےپر شاداںو فرحاںاور مطمئن ہو بیٹھتا ہے۔
سورۃالحج کی مندرجہ بالا آیت سےجو اصول نکلتا ہےوہ نہ صرف مسلمانوںبلکہ مختلف مذاہب کےماننےوالوںکےمقامات عبادت ان کی ثقافت و تہذیبی زندگی کےتحفظ کےلیےمسلمانوںکو جہاد کی اجازت دیتا ہے۔ یہاںproceletyzation کےتصور کا سایہ بھی آس پاس نظر نہیںآنےپاتا۔ اس سےزیادہ حقوق انسانی کا احترام اور دیگر مذاہب کےساتھ رواداری کا طرزعمل نہ تو عیسائیت نےآج تک پیش کیا ہےاور نہ کسی اور مغربی یا مشرقی مذہب نے۔ یہی سبب ہےکہ قرآن جہاد کو ایک فریضہ قرار دیتا ہے۔ اگر جہاد کےوسیع تر تصور کو،جس کا ایک پہلو اوپر پیش کیا گیا،دین سےخارج یا معطل یا ملتوی کر دیا جائےتو پھر بین المذہبی رواداری اور دینی و ثقافتی حریت کےاصول کو بھی خیرباد کہنا ہو گا۔
جہاد کی تمام تر فرضیت و اہمیت کےباجو ود قرآن وحدیث نےاس کےلیےجو اصطلاح استعمال کی وہ ’’اپنی جان اور مال سےاللہ کی راہ میںانتہائی کوشش‘‘ کی ہے۔ اسلامی تاریخ میںکوئی ایک مثال ایسی نہیںملتی جب کسی فقیہ یا مفسر د محدث نےجہاد کےلیےHoly War یعنی حرب المقدس کی اصطلاح استعمال کی ہو۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا کےمقالہ نگار نےاس تصور کو خالصتاً عیسائیت سےمنسوب کیا ہےاور بتایا ہےکہ پاپائےروم نےیہودیوںاور مسلمانوںکو قوت کےاستعمال کےذریعہ عیسائی بنانےکےلیےتمام عیسائیوںکو حروب الصلیبی کےعنوان سےجمع کیا اور یہی صلیبی جنگیں(holy war) کہلائیں(Macropedia, Chicago, 1974, v.5, p. 297-310)۔
اسلام کےقانون صلح و جنگ میںکسی مقدس جنگ کا تصور نہ پہلےتھا نہ آج پایا جاتا ہے۔ چونکہ اسلام زندگی کو لادینی اور دینی خانوںمیںتقسیم نہیںکرتا اس لیےاس کی جنگ ہو یا رزقِ حلال کا حصول،شعرو شاعری ہو یا صنعت و حرفت ہر سرگرمی کا مقصد اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضی سےبچنا ہے۔ اس لیےدین کا دائرہ کار اور لادینی اعمال کا دائرہ کار الگ الگ نہیںہے۔ مغربی تعلیم یافتہ ذہن اور خود مغرب کا مادہ پرست تہذیب کا پیدا کردہ ذہن چونکہ اسلام کو یورپی مذہبی عینک سےدیکھتا ہےاور مسجد جانےکو مذہبی سرگرمی جبکہ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میںکام کرنےکو سیکولر اور پیشہ ورانہ سرگرمی قرار دیتا ہے۔ یہ تقسیم اسلام کےلیےاجنبی ہے۔ گو بہت سےمسلمان صدیوں سےاس پر عمل کرتےچلےآ رہےہیںاور اپنےخیال میںکمال مہارت سے’’دین و دنیا‘‘ میںتوازن پیدا کر کےبیک وقت مسجد جا کر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اور کاروبار کےدائرےمیںسرمایہ داری کےخدا کو بیک وقت خوش رکھنےمیںکامیاب ہو جاتےہیں۔ قرآن کریم نےجب یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا بہت سےالہ بہتر ہیںیا ایک اللہ وحدہ لاشریک،کیا بہت سےحاکمیتیںبہتر ہیںیا حکم صرف اللہ کےلیےہونا بہتر ہےتو اس سوال کا اصل مقصد اس تقسیم کو بنیاد سےاکھاڑپھینکنا تھا۔ ہم یہ بات پورےوثوق سےکہہ سکتےہیںکہ اسلام میںholy war کا کوئی تصور نہیںپایا جاتا۔ یہ بنیادی طور پر ایک عیسائی تصور ہےجسےاسلام پر چسپاںکرناقرآن و سنت کی تعلیمات کی روح کےمنافی ہے۔
قرآن کریم نےجہاد کا مقصد ظلم و تعدی،نا انصافی،فتنہ و فساد،قتل و غارت اور بدامنی کو دور کرنا قرار دیا ہے۔ کیونکہ قرآن کی نگاہ میںفتنہ قتل سےزیادہ شدید ہےاور جب تک کسی معاشرہ سےظلم و نا انصافی دور نہ ہو وہاںعدل کا قیام نہیںہو سکتا۔ جہاد فی الحقیقت معاشرتی،معاشی اور سیاسی عدل کےقیام کا ذریعہ ہےیہ جہاد جہاںضرورت ہو قلم سےہو گا اور جہاںضرورت پیش آئےاسلحہ سےہو گا۔ کہیںاس جہاد کا اسلحہ تعلیم و تربیت ہوںگےکہیںجدید ترین عسکری ایجادات۔ گویا جہاد محض عسکری جدوجہد کا نام نہیںبلکہ اس مجموعی اور اجتماعی عمل کا نام ہےجو معاشرہ کی اصلاح اور بقائےحیات کےلیےفاسد مادوںکو دور کر کےفضاء کو صحت مند ،سازگار اور عدل و امن کا مرکز بنا دے۔
حقوق انسانی کی بحالی اور تحفظ اس کا ایک بنیادی محرک و مقصد ہے۔ قرآن کریم نےاس پہلو کو انتہائی واضح اور متعین الفاظ میںیوںبیان کیا ہے: ’’آخر کیا وجہ ہےکہ تم اللہ کی راہ میںان بےبس مردوں،عورتوںکی خاطر جنگ نہ کرو جو کمزور پا کر دبا لیےگئےہیںاور فریاد کر رہےہیںکہ اےہمارےرب ہم کو اس بستی سےنکال جس کےباشندےظالم ہیںاور اپنی طرف سےہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے‘‘ (النساء ۴: ۷۵)۔
ظلم،استحصال اور حقوق انسانی کی پامالی کو دور کرنا اسلام کی نگاہ میںایک عظیم انسانی خدمت ہےاس ظلم کا نشانہ بننےوالےمسلمان ہوںیا غیر مسلم،اصلاح حالت کےلیےاہل ایمان پر جہاد کو فرض کر دیا گیا ہے۔ گویا جہاد نہ صرف اہل ایمان بلکہ انسانوںکےحقوق کےتحفظ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ نتیجتاً ترکِ جہاد کا واضح مطلب طاغوت اور ظلم کےاہلکاروںکو مظلوموںکےخون،عزت اور مال سےکھیلنےکی آزادی فراہم کرنا ہو گا۔ اس حیثیت سےجہاد ایک تحفظ (deterrance) فراہم کرتا ہے۔ غالباً اسی بنا پر قرآن نےیہ بات کہی ہےکہ تم اپنےگھوڑںکو تیا ر رکھو اور اپنی قوت و اتحاد کو اتنا مضبوط بنا لو کہ ظلم و کفر کی قوتیںتمہارےسامنےسر نہ اٹھا سکیں۔ اور بغیر کسی قوت کےاستعمال کےوہ محض اس دباؤ کی بنا پر اللہ کےبندوںپر زیادتی سےباز رہیں۔
جہاد اور قتال کی اصطلاحات اور ان کےقرآن کریم میںاستعمال سےناواقفیت کی بنا پر ان دونوںاصطلاحات کو تشدد،غارت گری اور انتہاپسندی سےوابستہ کر کےبعض عمومی نتائج نکال لیےگئےہیںاور انہیںاس کثرت سےابلاغی ذرائع،علمی تحریرات اور سیاسی بیانات میںنشر کیا جا رہا ہےکہ وہ سادہ لوح افراد بھی جو قرآن سےکچھ واقفیت رکھتےہوںان تعبیرات کو سن کر معذرت پسندانہ رویہ اختیار کر لیتےہیںاور جہاد کو دفاعی جنگ قرار دےدیتےہیںجبکہ قرآن و سنت نےامر بالمعروف ونہی عن المنکر اور فتنہ و فساد اور ظلم کو رفع کرنےکےلیےجہاد کو ایک فریضہ قرار دیا ہے۔ گویا یہ ایک Reactive حکمت عملی نہیںہےبلکہ ایک pro-active تعلیم ہےجس کا مقصد معاشرہ میںامن کا قیام،عدل کی سربلندی اور بغاوت،سرکشی،عدم تحفظ اور ظلم کا ابطال ہے۔ یہ ایک اخلاقی اور انسانی مطالبہ ہےجس کےلیےکسی کا مسلمان ہونا شرط نہیںہے۔ اسی لیےمدینہ منورہ میںپہلی اسلامی ریاست کےقیام کےساتھ ہی جو بین الاقوامی معاہدہ مسلمانوںاور یہود کےدرمیان ہوا اس میںیہود نےبھی ریاست میںامن کی بقاء اور بیرونی خطرےکےمقابلہ کی شکل میںجہاد میںشرکت کرنےاور اخراجات میںاپنا حصہ ادا کرنےکا تحریری معاہدہ کیا تھا۔ گویا اہل ایمان کی طرح وہ بھی جان اور مال سےجہاد میںشرکت کےلیےآمادہ و پابند ہوئے۔ یہاںیہ بات بھی قابل غور ہےکہ یہود اور مسلمانوںکےاصولی طور پر جہاد میںشامل ہونےکا مقصد مشرکین کو بزور قوت مسلمان بنانا prozlytization نہیںتھا بلکہ ظلم کےخلاف یکجہتی کا اظہار تھا۔
اسلام کےسیاسی کردار کو عموماً مسلح قوت کےساتھ وابستہ کر کےایک تصوراتی منطقی تعلق تلاش کیا جاتا ہےاور بعض مسلم ممالک کی مثال دےکر اس مفروضہ کو ثابت کرنےکی کوشش کی جاتی ہے۔ چنانچہ مصر اور الجزائر کو خصوصاً بطور مثال پیش کیا جاتا ہےکہ سادات کےقتل کا سبب مسلح بغاوت کےذریعہ اسلامی ریاست کےقیام کا خواب تھا یا الجزائر میں۹۰ کی دہائی میںجو قتل و غارت ہوا وہ مسلح قوت کےذریعہ اسلامی ریاست کےقیام کی کوشش تھی۔
اس قسم کےدعوےکرتےوقت تحقیقی دیانت کےتمام اصولوںکو نظرانداز کرتےہوئےیہ بات فراموش کر دی جاتی ہےکہ سادات کےحوالہ سےکیمپ ڈیوڈ معاہدہ اور مصر اوراسرائیل کی قربت کا اس سانحہ میںکیا کردار تھا یا FAS نےلوکل باڈیز میںاعلیٰ درجےکی کامیابی کےلیےکون سا ’’مسلح دستہ‘‘ استعمال کیا تھا۔ اس کےبرعکس جب فاس کی جمہوری ذرائع سےبرسراقتدار آنےکی امید پیدا ہوئی تو وہ ممالک جو صبح شام جمہوریت کی تسبیح پڑھتےنہیںتھکتےاور جوخصوصاً عالم عربی میںاس کی درآمد‘‘ کو اپنا ’’الہامی فریضہ‘‘ اور مقدس مشن‘‘ قرار دیتےہیںانہی ممالک بلکہ اس ملک نےجو یک قطبی قوت ہونےکا دعویٰ کرتا ہےالجزائر میںہونےوالےجمہوری عمل کےاسقاط کےلیےفوج کا بےشرمانہ استعمال کو حلال کیا اور ملک میںہونےوالےجمہوری عمل کو پیچھےکی طرف لوٹا دیا۔ آج تک الجزائر جمہوریت سےمحروم ہےاور اس محرومی کی ذمہ داری صرف یک قطبی قوت پرعائد ہوتی ہے۔
اس جملہ معترضہ کو یہیںپر چھوڑتےہوئےہم چاہیںگےکہ اصل مسئلہ کی طرف آیا جائےیعنی یہ دیکھا جائےکہ کیا واقعی جہاد کا مقصد مسلم اور غیر مسلم دنیا پر ’’شریعت‘‘ کو ’’مسلط‘‘ کرنا ہے؟ یہ بات مغربی مصنفین خصوصاً Gould کےمقالہ میںشدومد سےکہی گئی ہے: "Thus many Muslims believe that they are obliged to impose this order” (p.27).
یہ بات کہتےوقت شریعت کا ایک رنگ آمیز مخصوص مفہوم سامنےرکھا جاتا ہےجس میںدوسرےمذاہب کےافراد کو مذہبی آزادی اور اپنی تہذیب اور رسومات کی ادائیگی سےمحروم کر کےزبردستی مسلمان بنانےکی کوشش کی جاتی ہے۔ حقیقت حال اس سےبہت مختلف ہے۔ نظری حیثیت سےقرآن کی سیاسی تعلیمات میںغیر مسلموںکو نصوص کی شکل میںمذہبی اور ثقافتی آزادی کا تحفظ دیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی مسلمان گروہ شریعت کا نفاذ چاہتا ہو تو اس کےلیےقرآن کےنصوص کےخلاف پالیسی بنانا ایک اصطلاحی تضاد کی حیثیت رکھےگا۔ عملی زاویہ سےدیکھا جائےتو غیر مسلم اکثریتی ممالک میںمسلمان مفکرین نےشریعت کےنفاذ کا مفہوم کبھی یہ نہیںلیا کہ وہاںپر خونی انقلاب کر کےشریعت مسلط کر دی جائےبلکہ ایک جانب مسلمانوںکو یہ یاددہانی کراتےرہےکہ وہ اپنےمعاملات کو شریعت کےمطابق سرانجام دیںمثلاً نکاح،طلاق،میراث کےحوالےسےاسلامی احکام کی پیروی کی جائےاور سودی کاروبار سےاجتناب وغیرہ اور دوسری طرف اسلام کےدعوتی پہلو کو اجاگر کرتےہوئےیہ بات کہتےرہےکہ اگر ایک طویل دعوتی عمل کےنتیجےمیںغیر مسلم برضا و رغبت اسلام قبول کرنےکےبعد اسلامی تعلیمات کو اپنےملک میںنافذ کرنا چاہیںتو دستوری اور جمہوری ذرائع ہی کو استعمال کیا جائے۔ قوت و تشدد کےاستعمال کو ہمیشہ روکنےکی کوششیںکی گئیں۔
امریکہ یا برطانیہ کےچند گنےچنےیونیورسٹی کیمپس پر اگر حزب التحریر کےبعض جوشیلےنوجوانوںنےکسی اجتماع یا پوسٹر میںیہ دعویٰ کیا کہ وہ امریکہ یا برطانیہ میںخلافت کا نفاذ کرنا چاہتےہیںتو اس طرح کےانفرادی اور محدود عمل کو امت مسلمہ کی فکر نہیںقرار دیا جا سکتا اور نہ یہ اس کی غالب فکر کی نمائندگی کہی جا سکتی ہے۔ ایک مسلم ملک میںبھی جہاں۹۷فی صد آبادی مسلم ہو اسلامی ریاست غیر مسلموںکےشخصی،مذہبی اور ثقافتی معاملات میںدخل اندازی نہیںکر سکتی اور نہ ان پر شریعت کو impose یا مسلط کر سکتی ہےلیکن یہ بات بھی نہ صرف عدل کےمنافی بلکہ مضحکہ خیز ہو گی کہ ۳ فی صد آبادی کا دل رکھنےکےلیے۹۷ فی صد آبادی اپنی دینی،ثقافتی،علمی،قانونی اور ابلاغی روایات و نظریات کو ملک میںنافذ نہ ہونےدے۔ مغربی سیکولر جمہوریت تو ۵۱ فی صد کی رائےکا احترام کر کےجو چاہےمسلط کر دےاور مسلم ممالک کے۹۷ فی صد عوام کی خواہشات اور مطالبات کو محلہ والوںکی دل شکنی کےخیال سےنافذ نہ کرنا ظلم کی بدترین شکل اور جمہوریت کےساتھ گھناؤنا مذاق ہی کہا جا سکتا ہے۔ اگر مغرب کی سیکولر صہیونیت ۹۷ فی صد عوام کی رائےکےمقابلہ میں۳ فی صد اقلیت کو زیادہ اہمیت دیتی ہےتو یہ اس کی عقل کا فتور ہے۔ خود مغربی جمہوریت کےاصول یہ تقاضا کرتےہیںکہ اگر پاکستان یا کسی اور مسلم ملک میں۹۷ فی صد عوام شریعت کا نفاد چاہتےہوںتو اسےشریعت کا impose کرنا نہیںکیا جا سکتا۔ ہاںاگر ۳فی صد کی بنا پر شریعت نافذ نہ کی جائےتو یہ عمل اہل ایمان پر لادینیت کا impose کرنا ضرور کہا جا سکتا ہے۔
جہاد کےحوالےسےیہ ہوائی بھی اڑائی جاتی ہےکہ یہ جنت کےحصول کا ایک مختصر راستہ short cut ہےاور بہت سےافراد کےلیےجو اپنی ماضی کی زندگی میںاسلام پر عامل نہ رہےہوںایک آسان ذریعہ نجات ہے۔ نظری طور پر ممکن ہےاس خیال میںکوئی منطقی صداقت پائی جاتی ہو لیکن عملاً جن لوگوںنےآج تک یہ راستہ اختیار کیا ہےان میںتین نمایاںمثالیںمسلم دنیا سےدی جا سکتی ہیں۔ اولاً،فلسطینی نوجوانوںکا جہاد میںقربانی پیش کرنا چاہےبعض مغربی مصنفین کو short cut نظر آتا ہو لیکن عملاً یہ ایک طویل تر داستانِ کرب و ابتلاء کا محض ایک باب ہے۔ جس قوم کو ۵۸ سال تک اس کی بنیادی آزادی،اپنی زمین کی ملکیت،اپنےدین کی تعلیمات پر عمل سےمحروم کیا گیا ہو اور وہ جہاد پر اتر آئےتو کیا اسےshort cut کہنا حق و انصاف سےکوئی مناسبت رکھتا ہے؟ عراق میںایک بیرونی ملک کےجابرانہ اور سفاکانہ قبضہ کےبعد اگر عراقی عوام قابض فوجوںاور ان کےحمایتوںکےخلاف مسلح جہاد کریںتو عقلی طورپر اپنی جان،اپنی ملکیت اور اپنی آزادی کا بچاؤ کرنا ان کا انسانی اور بنیادی حق ہے۔ اسےدہشت گردی کہنا عدل و انصاف کےعالمی پیمانوںکا مذاق اڑانا ہے۔ بالکل یہی شکل مقبوضہ کشمیر کےمسلمانوںکی ہےجس طرح فلسطینیوںکی قسمت سےکھیلا گیا اور وقت کی ایک طاقت نے۱۹۴۸ء میںایک ایسےخطہ کو جس پر اس کی حکومت بھی نہیںتھی ایک ایسی نسل پرست قوم کےحوالےکر دیا جو اس سرزمین کی اصل مکین نہ تھی اور نتیجتاً فلسطین کےاصل باشندوںکو جو وہاںصدیوںسےمقیم تھےاپنےآبائی گھروںسےبےدخل کر دیا گیا،بالکل اسی طرح مقبوضہ کشمیر کےعوام اور زمین کو جس پر برطانیہ کا قبضہ دستوری قبضہ نہ تھا ایک تیسرےفرد کےہاتھ فروخت کر دیا گیا۔ کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی،ظلم،استحصال،اور غلامی کےخلاف ایک جہاد کی حیثیت رکھتی ہےاور جب تک ان کےبنیادی انسانی حقوق حاصل نہ ہو جائیںان کی جدوجہد آزادی کو شدت پسندی یا دہشت گردی قرار نہیںدیا جا سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ کیا اس جدوجہد آزادی کو وہ چاہےکشمیر میںہو یا عراق میںیا الجزائر میں،خودکش حملہ یا حصول جنت کےلیےایک short cut ذریعہ کہنا عقل و ہوش اور حق و انصاف سےکوئی مناسبت رکھتا ہے؟
چلتےچلتےایک نکتہ یہ بھی اٹھایا جاتا ہےکہ جہاد کا تصور نظری طور پر W.M.D یا توڑپھوڑکےلیےاخلاقی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ شاید یہ دانشورانہ بات کہتےوقت اس کےمحرک یہ بھول جاتےہیںکہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کا سبب اسلام کا تصورِ جہاد نہیںتھا بلکہ لادین جمہوریت کی تسبیح پڑھنےوالی ریاست کا توسیع پسند ذہن تھا۔ خود عراق کےپس منظر میںصدام کو ایران کےخلاف صف آراء کروانےکےلیےمکمل حمایت اور مدد کرنےوالا نہ کوئی القاعدہ کا قائد تھا نہ کسی مسلم ملک کا مفتی اعظم بلکہ یک قطبی قوت کا معاشی مفاد اور واضح طورپر تیل کےذخائر پر قابض ہونےکی خواہش تھی۔
دورِ جدید میںجہاد کےحوالےسےجو بےشمار غلط فہمیاںپائی جاتی ہیںاور جنہیںنہ صرف مغربی ابلاغ عامہ سیاسی مبصرین اور مستشرقین اپنی تحریرات کی زینت بناتےہیںبلکہ بہت سےسادہ لوح مسلمان اور تاریخ سےلاعلم مسلم فرمانروا بھی مغربی میڈیا کےنقارخانےکی لےکےساتھ لےملا کر جہاد پر تبرّیٰ کر کےاپنی نام نہاد معصومیت کا ثبوت پیش کرنےکی کوشش کرتےہیں۔ وہ یہ بھول جاتےہیںکہ امریکی دانشور دوٹوک انداز میںمسلم دنیا پر قابض انہی فوجی حکمرانوںکو براہ راست دہشت گردی کےپیدا ہونےکا سبب گردانتےہیں۔ گو مغرب اپنےمفاد کی بنا پر یہ سب کچھ جاننےکےباوجود ایسےفرمانبرداروںکی فوجی آمریتوںکو سالہا سال تک نظرانداز ہی نہیںکرتا بلکہ انہیںاپنا قابل اعتماد دوست کہنےسےبھی نہیںشرماتا۔
قرآن کا تصور جہاد ایک اصلاحی عمل ہےجو ظلم،قتل و غارت اور استحصال کو ختم کرنےاورامن،سلامتی،عدل و انصاف کےقیام کےلیےہاتھ،زبان اور دل و دماغ کےاستعمال کو اور اپنی جان اور اپنےمال کی بازی پر لگا دینےکو ایک انسانی فریضہ قرار دیتا ہے۔ یہ قرآنی تصور حقوق انسانی کی بحالی اور محکوم اقوام کو آزادی دلانےکےلیےقوت کےاستعمال کو ایک اخلاقی فریضہ قرار دیتا ہےاور بغیر کسی معذرت کےاس کی عظمت کا اعلان کرتےہوئےکہتا ہےکہ اللہ کی نگاہ میںوہ لوگ جو سجود و رکوع کرنےکےمقامات پر مصروف عبادت رہتےہیںاور وہ جو میدانِ کارزار میںاپنےمال اور جان کی بازی لگاتےہیںبرابر نہیںہو سکتے۔ وہ جہاد کرنےوالوںکےعمل کےلیے’’اعظم درجہ‘‘ کےالفاظ استعمال کرتا ہے۔ اگر معروضی طور پر غور کیا جائےتو قرآن کریم کا جہاد کےبارےمیںیہ غیر معذرت پسندانہ،شفاف،عقلی اور مصلحانہ تصور ہی انسانیت کو فلاح،امن،تحفظ،نجات،عدل وانصاف اور حقوق انسانی کےاحترام سےروشناس کرا سکتا ہے۔ جہاد وہ ضمانت فراہم کرتا ہےجس کی بنا پر فتنہ و فساد،طاغوت اور مکر وفریب لرزہ براندام رہتا ہےاور انسانیت جھوٹ اور دھوکہ سےنجات حاصل کر کےعافیت و ترقی پذیری کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔
جواب دیں