متبادل اورقابل تجدید وسائل توانا ئی اورپاکستان میں توانا ئی کا بحران

متبادل اورقابل تجدید وسائل توانا ئی اورپاکستان میں توانا ئی کا بحران

توانائی کے متبادل اورقابل تجدید و سائل پاکستان میں توانائی کے حالیہ بحران کی صورتِ حال میں کوئی فوری حل تو نہیں نکال سکتے تاہم اس پہلو سے منصوبہ بندی کی جائے تو یہ مستقبل میں توانائی کی قابل لحاظ ضرورت پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں توانائی پیدا کرنے والے متبادل اور قابل تجدید وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں منصوبہ ساز توانائی کی طلب میں اضافے سے پیدا ہونے والی اس صورتِ حال کا بروقت اندازہ نہیں کرسکے اورانہوں نے ان وسائل کے استعمال کا فیصلہ کرنے میں تاخیر کردی ہے۔
ان مشاہدات اورخیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں۱۲ جولائی ۲۰۱۲ کو منعقد ہونے والے سیمینار میں کیا گیا۔ سیمینار کا موضوع تھا:’’توانائی کے متبادل اور قابلِ تجدید وسائل اورپاکستان میں توانائی کا بحران‘‘، اوراس میں اظہار خیال کرنے والے ماہرین میں توانائی کے متبادل ذرائع کی ترقی کے لیے قائم کردہ بورڈ AEDBکے چیف ایگزیکٹو عارف علاؤالدین پاکستان میں قابل تجدید اورمتبادل توانائی کی ایسوسی ایشن REAPکے نمائندے آصف جاہ اوربائیوانرجی منصوبوں کی فراہمی کے لیے قائم کردہ ایک کاروباری ادارے کے سربراہ حبیب الرحمن شامل تھے۔پاکستان کی پانی اورتوانائی کی وزارت کے سابق سیکرٹری حامد حسن جو کہ آئی پی ایس کے توانائی پروگرام کے چیئر مین بھی ہیں، سیمینارمیں موجود تھے۔

alt
alt

سیمینار میں بتایا گیا کہ اس وقت پاکستان توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سب سے زیادہ انحصار قدرتی ایندھن کے ذرائع پر کررہاہے۔ پاکستانی قوم ہر سال پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر ۱۱بلین ڈالرسے زائد رقم خرچ کررہی ہے اورایک تخمینے کے مطابق۲۰۱۵ء میں یہ رقم ۳۸بلین ڈالرتک پہنچ جائے گی۔اتنازیادہ مالیاتی بوجھ اٹھانے کے ساتھ ساتھ پاکستان دفاعی خدشات کا بھی شکار ہے کیونکہ وہ بنیادی اہمیت کی حامل اس ضرورت کے باعث دوسروں کا دستِ نگر ہے۔
۲۰۰۳ء میں توانائی کے متبادل ذرائع کی ترقی کے لیے قائم کردہ بورڈ (AEDB)کے قیام کے بعد پاکستان نے اس سمت میں قابل ذکر ترقی کی ہے۔ بہت سے منصوبے روبہ عمل ہیں اوریہ توقع کی جارہی ہے کہ اگلے چند ماہ میں ۵۰۰ میگاواٹ بجلی کوقومی دھارے میں شامل کرلیا جائے گا۔AEDBکے ذمے صرف یہ کام ہے کہ وہ نجے شعبے کے لیے سرمایہ کاری کے پرکشش مواقع پیدا کرے جبکہ سرکاری شعبے کا مقصد اس عمل کو اصول اورقاعدے کے مطابق چلانا اوراس میںآسانیاں پیداکرنا ہے۔
سیمینار میں یہ تجویز دی گئی کہ سرکاری شعبے کو ان ذرائع کے استعمال کی ذمہ داری سے بری الزمہ نہیں ہوجانا چاہیے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں نجی شعبے کی سرمایہ کاری حاصل کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے، حکومت کوخود آگے آکرایسے پیداواری منصوبے شروع کرنے چاہییں جن سے نئی سوچ کو جلاملے اوروہ لوگوں میں مقبول ہوسکیں۔اس سے مارکیٹ کو فروغ ملے گااورپرائیویٹ شعبہ ان منصوبوں کی تقلید کرسکے گا۔

alt
alt
alt
alt
alt
alt

مقررین نے اس بات کو نمایاں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو اُن تمام ذرائع سے نوازا ہے جو دنیا بھر میں توانائی کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے منصوبوں کی بنیادہوتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں ان تمام قابل استعمال وسائل کوتفصیل سے بیان کیا جو کہ ہوا، پانی، شمسی توانائی ، بائیو گیس اورگنے کے پھوک کی شکل میں چھوٹے منصوبوں کے لیے دستیاب ہوسکتے ہیں۔ ان تمام وسائل کو توانائی کے ممکنہ ذرائع اوراس کی ترقی میں استعمال کرنے کے لیے تفصیلی گفتگو ہوئی۔
اس تمام صورتِ حال پر نظر ڈالتے ہوئے یہ کہا جاسکتاہے کہ پاکستان نے توانائی کے متبادل اورقابل تجدید ذرائع کے تصور کو سامنے لاکر دنیا بھرمیں بڑی منفرد منصوبہ بندی کی ہے تاہم اس میں عملی سطح پر کچھ خامیاں موجود ہیں جنہیں فوری طورپر دور کیا جانا چاہیے۔ سب سے پہلی اوراہم ترین بات تو یہی ہے کہ قابل استعمال وسائل کی مکمل آگہی ہونی چاہیے۔ اوران سے بھرپور استفادہ کرنے کا ادارہ بھی۔
اسی طرح ایسے مالیاتی منصوبے متعارف کروانا ہوں گے اورانہیں روبہ عمل لانا ہوگا جن سے توانائی کے ان ذرائع کو عوام کے لیے قابل قبول بنایا جاسکے کیونکہ شمسی توانائی کے پینل لگانے کے لیے درکار ابتدائی رقم کافی زیادہ ہے۔ یہی رکاوٹ بائیوگیس منصوبوں اوردوسرے ذرائع پرکام کرنے میں حائل ہوگی کیونکہ ان کے اخراجات عام پاکستانی شہری کی پہنچ سے باہرہیں۔ عمارتوں کی تعمیرکے قوانین میں ترمیم کرناہوگی تاکہ توانائی کے متبادل اورقابل تجدید ذرائع کو ان عمارتوں میں قابل عمل بنایاجاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ توانائی سے متعلق قانون سازی میں ترامیم کی جائیں تاکہ چھوٹے منصوبوں سے پیداہونے والی بجلی کی فاضل مقدار کو بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کو فروخت کرنے کاعمل ممکن ہوسکے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے کہا کہ جہاں حکومت کو اپنے طرز حکمرانی کو بہتر بنانے اوراصول و ضوابط کے مطابق نظام چلانے کی ضرورت ہے وہاں نجی شعبے بشمول عام افراد کو اپنی تکالیف کم کرنے کے لیے توانائی کے متبادل اورقابل تجدید ذرائع پر عملدرآمد کے لیے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے