عالمگیریت : مستقبل کے تناظر میں

globalization

عالمگیریت : مستقبل کے تناظر میں

دورجدید کے تحائف میں سے ایک تحفہ معاشی،سیاسی اورعسکری عالمگیریت ہے،جسے مثبت اور منفی، ہر دو زاویوں سے دیکھا اورپرکھا جارہاہے۔عالمگیریت کی تائید میں یہ دلیل بالعموم دی جاتی ہے کہ ذرائع رسل و رسائل میں تیز رو ترقی کے نتیجہ میں آج دنیا ایک گائوں میں تبدیل ہوچکی ہے جس میں معلومات کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندرپلک جھپکتے دنیاکے ایک گوشے میںہونے والے واقعات کی اطلاع دوسرے کونے تک نشر کردیتا ہے اورہر لمحہ ہماری معلومات میں ناقابل یقین حد تک اضافہ کاباعث بن رہاہے۔کہاجاتاہے کہ ہر چھ ماہ میں اس ابلاغی اورمعلوماتی سیلاب کے نتیجے میں ہماری معلومات میں آٹھ گنااضافہ ہوجاتاہے۔عالمگیریت کی اس برکت سے صحیح استفادہ اسی وقت کیا جاسکتاہے جب تحقیقی اورایجادی ادارے اس ذخیرہ معلومات کا صحیح تجزیہ،چھان بین اورتدوین کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوںاورہمہ وقت توجہ رکھنے والے ماہرین کی ایک جماعت اس کام میں مصروف رہے۔

جن ممالک میں بنیادی ضروریات زندگی کا حصول ایک مسئلہ بناہواہواورجہاں پر معاشی بدحالی،سیاسی انتشار،اورقانونی بے ضابطگی روز مرہ کا معمول ہو ان کے لیے دور جدید کی اس نعمت سے استفادہ کرناناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتاہے۔ نتیجتاًعالمگیریت کے طفیل ترقی یافتہ ممالک اورترقی پذیر ممالک کی معاشی،معاشرتی ،تعلیمی اورعسکری صلاحیت میں فرق اورفاصلے میں کمی کی جگہ ناقابل عبور خلیج میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔یہ فاصلہ اورفرق کسی لمحہ بھی ایک ایسے ٹکرائو کی شکل اختیار کر سکتاہے جس میں وہ جو نان شبینہ سے بھی محروم ہیں وسائل سے مالا مال سامراجیت کے علمبردار ممالک اوراقوام سے اپنی محرومی کے خراج کا مطالبہ کر بیٹھیں!

عالمگیریت کے اس سامراجی اورمعاشی پھیلائو سے اصل فائدہ اُن ہی اقوام کو پہنچ رہاہے جو ٹیکنالوجی میں دوسروں سے آگے ہیں۔ابلاغ عامہ اورمعلومات کے اس دور میں معاشی طور پر محروم اقوام کے احساس محرومی میں ہر لمحہ اضافہ ہورہاہے اوریہ لاوا کسی بھی لمحہ ایک خطرناک صورت حال اختیار کرسکتاہے۔اس خطرہ کااحساس مغربی مفکرین میں سے ان حضرات کو بخوبی ہے جو معروضی طورپر عالمی اورسیاسی اتار چڑھائو پر نگاہ رکھتے ہیں۔جبکہ مغربی سامراجی طاقتیں اپنی قوت کے نشہ میں بالعموم اسی گمان میں مبتلاہیںکہ وقتاًفوقتاًترقی پذیر ممالک کو قرضوں یا جزوی امداددے کر وہ اپنی بالادستی اور برتری کو برقرار اورمحفوظ رکھ سکتی ہیں۔

عالمگیریت کے موضوع پر عموماً معاشی،سیاسی اورعسکری پہلوئوںسے تجزیاتی مطالعے سامنے آرہے ہیں۔عام طور پر ان جائزوں میں مستقبل کے بارے میں ایسے خدشات کا تذکرہ نظر آتاہے جو عالمی توازن اورامن عالم کے لیے لمحہ فکریہ فراہم کرتے ہیںیہ بات بڑی حد تک ایک سچائی کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی دکھی انسانیت کو عالمگیریت کے فروغ سے عملاً کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ اسکے دکھوں میں اضافہ ہی ہواہے۔معاشی اورمعاشرتی تفریق سے مجموعی اخلاقی حالت بھی متاثر ہوئی ہے۔ہماری نگاہ میں عالمگیریت کے زیر اثر اُبھرنے والے اخلاقی موضوعات و مسائل اپنی اہمیت کے لحاظ سے معاشی اورسیاسی مسائل سے کم اہم نہیں ہیں بلکہ اگر معروضی طورپر دیکھا جائے تو ترجیحات کے لحاظ سے عالمگیریت کے اخلاقی اثرات زیادہ توجہ ا ور سنجیدہ تجزیہ کے محتاج نظر آتے ہیں۔اس تحریر میں ہم اسی پہلو پر زیادہ توجہ دیں گے۔ کیونکہ جدید انسان کے معاشی ،سیاسی اورمعاشرتی مسائل کا قریبی تعلق تصور اخلاق سے ہے بلکہ اپنے اخلاق، EthicsاورMoralityکے تصورکی بنیاد پر ہی جدید انسان اپنی معیشت ،سیاست اورمعاشرت کی تشکیل کرسکتاہے اوراس کے خود اختیار کردہ اخلاق کے انفرادی اوراجتماعی پیمانے ہی اسکی معاشی اورسیاسی حکمت عملی کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

مغربی مفکرین و فلاسفہ عموماًاخلاق کے حوالہ سے EthicsاورMoralityکی اصلاحات استعمال کرتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہEthicsان اصولوں اورکلیات کی طرف نشاندہی کرتی ہے جو کسی چیز کے اچھے یا برُے ،حق یا باطل ،اورمحمود یا مردودہونے کی طرف رہنمائی کرتے ہوں جبکہ Moralityکوعملی پہلو، طرز عمل اورعادات و اطوار سے وابستہ سمجھا جاتا ہے۔

اسلامی فکری روایت میں نظری اخلاق کے مقابلہ میں اخلاق کے عملی اورتطبیقی پہلو کی طرف زیادہ رجحان نظر آتا ہے ،چنا نچہ اخلاق سے مراد کسی فر د یاقوم کا وہ مجموعی عمل لیا جاتا ہے جس میں معروف و منکر اور حق اور باطل میں تمیز کرتے ہوئے عملی اور روزمرہ کے معاملات میں موقف اختیار کیا گیا ہو۔

مغربی فکر میں اخلاق کا ماخذو محور یا تو انفرادی پسند ونا پسند کو سمجھا جاتا ہے یا اجتماعی اور قومی مفاد کو۔ہر دوصورتوں میں اخلاق کا قریبی تعلق کسی مقام کی معاشی اور معاشرتی ترقی سے وابستہ تصورکیا جاتا ہے چنانچہ یہ بات بطور ایک کلیہ کے تعین کرلی جاتی ہے کہ معاشی آلات کی تبدیلی اور معاشرتی ارتقاء کے ساتھ ساتھ اخلاقی اصول اور ضوابط میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے اورہر دور میں ایک نئی اخلاقیات و جودمیں آتی ہے۔چنانچہ دور جدید جسے سائنسی ترقی اورابلاغ عامہ کی سرعت سے پہچانا جاتا ہے ایک نئے اخلاقی ضابطہ کا مطالبہ کرتا ہے جو اس دور کی معیشت و معاشرت کا تابع ہو۔اگر تنقیدی نگاہ سے دیکھا جائے تو اخلاقیات کے اس تصور اور Utilitarianتصور اخلاق میں قریبی مماثلت ہے۔ چنانچہ اکثریت جس چیز کو اپنے لئے مفید سمجھے اسے اخلاقی عمل قرار دینا اور دور جدید کی سیکولر جمہوریت کی پہچان قرار دیا جاتا ہے،انفرادیت پسندی اور اجتماعی مفاد کے حصول کو اعلیٰ اخلاقی عمل قرار دینے اور عالمگیریت کے زیرعنوان نئی اخلاقیات کے تصورات میںقریبی فکری یگانگت اور اشتراک نظر آتا ہے۔

عالمگیریت نے جہاں معاشی سیاسی اور معاشرتی میدانوں میں یورپی فکر کے تصور حیات کو مبنی برحق اور حتمی قرار دیتے ہوئے دیگر اقوام پر مسلط کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے وہاں اخلاق کے اضافی تصور کو عام کرنے پر بھی توجہ دی ہے۔اخلاق کا اضافی تصور مغربی فکر اور ذہن کی خصوصی پیداوار ہے کیونکہ اس کے طفیل ایک فرد اور ایک قوم کو ہرمن مانی کو اخلاق کی آڑ میں کر بیٹھنے کا جواز میسر آجاتا ہے۔عراق اور افغانستان پر مغربی سامراج اور خصوصاًامریکی سامراج نے جس دیدہ دلیری کے ساتھ عسکری تسلط کے لیے جارحیت کی اور اسکی یہ تعبیر کی کہ امریکہ جو کچھ جمہوریت کے نعرہ کے تحت کر رہا ہے اُسے ’’جمہوری‘‘،’’عادلانہ‘‘اور’’ بہی خواہانہ‘‘عمل بھی سمجھا جائے۔یہ مغربی اخلاق کے اضافی تصور ہی کا شاخسانہ ہے ۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا مغربی تصور اخلاق روایتی عیسائیت کے تصور تثلیث کی طرح ایک جدید تثلیث کا مظہر ہے۔ اس جدید تثلیثیت میں انفرادیت پسندی(Individualism)، مادیت پرستی(Materialism) اور افادیت پسندی(Utilitarianism) نئی تثلیث کی تین بنیادی اکائیوںکا درجہ رکھتی ہیں۔ اخلاق کا یہ اضافی تصور سامراجی ذہن کی پیداوار ہے اور سامراجی طاقتوں کی اپنی من مانی کرنے کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ چنانچہ اس تصور اخلاق کی بنا پرہی یک قطبی طاقت نے محض ایک موہوم اندیشہ کو بنیاد بنا کر Pre-emptive strike کے نظریہ کے تحت عراق اور افغانستان اور اسکے بعد پاکستان کی شمالی حدود کو اپنے استعمار کا نشانہ بنانے کے لیے اخلاقی جواز بنایا۔ عالمگیریت کے زیر عنوان اضافی اخلاق کو فروغ اور سیاسی طور پر مستقل وجود رکھنے والے ممالک پرجبراً اس کا نفاد، اخلاق و قانون کے ساتھ ایک گھنائونا مذاق ہے ۔ لیکن عالمگیریت کا نعرہ اسے نہ صرف تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ اسے ایک اخلاقی عمل بھی قرار دیتا ہے۔ ہماری نگاہ میں کسی گناہ کا ارتکاب اور کسی گناہ کو ثواب سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب کرنا دو بالکل مختلف چیزیں ہیں اور عالمگیریت کا یہ پہلو ہی ہماری توجہ کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔

اگر اخلاقی ضابطہ اور اخلاقی طرز عمل ایک ایسا سیال مادہ ہے جو ہر دور اور ہر خطہ میں وہاںکے سانچوں کے مطابق شکل اختیار کر سکتا ہے تو پھر اسے اخلاق کہنا اخلاق کی تذلیل ہے ۔ اخلاقی اصول اپنی ماہیت و حقیقت کے لحاظ سے عالمگیراصول ہوتے ہیں جو رنگ و نسل، مفاد اورملک و قوم سے بلند ہو کر انسانیت کے لیے ایک قابل عمل مثال فراہم کرتے ہیں۔مغربی لادینی فکرمیں بھی بعض ایسی اقدار کو تسلیم کیا جاتا ہے جن کے بغیر کوئی انسانی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ مثلاًسچائی اور حق کا اظہار ، عدل کا رویہ اختیار کرنا ایسی اقدار ہیں جن سے ایک صیہونی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن حق کا پیمانہ کیا ہو،اور کیا ہر حال میں اپنی قوم یا ملک کو برحق ماننا ہی تقاضائے حق ہے ، ایسا سوال ہے جس پر مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اصولی طور پر تو ایک صیہونی ہو یا عیسائیت سے تائب لادینی ذہن کا امریکی صدردونوں اس بات پر اتفاق کرینگے کہ ظلم اور جبر ناقابل معافی عمل ہیں۔ لیکن عمل کے میدان میںاگرایک صیہونی، صدیوں سے تاریخی طور پر بیت المقدس میں بسنے والے مسلمانوں اور عیسائیوں کو گھر سے بے گھر کرنے اور انکے علاقوںکوننگے جبر کے ذریعے اپنے قبضہ میںکر لینے کو اپنا حق قرار دیتا ہواور اس گھنائو نے جرم کو نیکی تصور کرتاہو تو کیا اسکی اس سوچ کو درست مانا جاسکتا ہے؟ کیا ہر قوم اور ملک اپنے ذاتی مفاد کی بنیاد پر جو طرز عمل اختیار کرے اسے اخلاقی عمل کہا جاسکتا ہے؟یا مغربی اضافی اخلاقیات کے اصول کے پیش نظر ہر ظالم اور جابر کو جب وہ چاہے، اپنے مفاد کو بنیاد بنا کر کسی قوم کو نیست و نابود کرنے کا حق دے دیا جائے؟ یا اتفاق رائے سے کوئی ایسا ضابطۂ اخلاق وجود میں لایا جا سکتا ہے جو سب کے لیے قابل قبول ہو؟

عالمگیریت کے اخلاقی چیلنج کے حوالے سے اسی پہلو پر توجہ کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمگیریت کی معاشی ، سیاسی اور عسکری دخل انداز ی نے جس محسوس ٹکرائو کو جنم دیا ہے، اسے صرف اسی صورت میں دور کیا جا سکتا ہے جب ایک نئے معاشی یا سیاسی استحصالی نظام کی جگہ ایک عالمی اخلاقی نظام کے لیے راہ ہموار کی جائے۔ مندرجہ با لا نکات سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ اس عالمی اخلاقی انقلاب کی بنیاد اضافی اخلاقی تصور پر نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ عالمی اخلاقی اقدار مطلق اور مستقل وجود رکھتی ہیں اور مغربی لادینی اخلاقیات زمان و مکان میں مقید و محدود ہے۔ آج دنیا اس مقام پر آگئی ہے جب اسے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے ایک ایسے اخلاقی نظام کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر وہ جو استحصال اور سامراج کا شکار رہے ہیںانسانی اور فطری عدل کا حصول کر سکیں۔

اسلام کی الہامی ہدایت اپنی معروضیت کی آفاقیت کی بنا پر یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ دکھی انسانیت کے ہر طبقہ کو بلا تفریق، عدل و انصاف اور امن و سکون فراہم کر سکے۔ حالات کا مطالعہ یہ بتارہا ہے کہ ایک نئے عالمی اخلاقی نظام کے بغیر عالمگیریت کے زیر عنوان نئے سامراجی نظام کو جو ترقی پذیر ممالک پر مسلط کر دیا گیا ہے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

اخلاقی انقلاب ہی وہ ذریعہ ہے جو مستقبل کے انسان کو اس کے پیدائشی حقوق فراہم کر سکتا ہے اور عالمگیریت کے نام پر مغربی تہذیب و افکار کی یلغار کو روک کر مثبت طور پر ایک نئے اخلاقی نظام کو نافذکر سکتا ہے اس نئے اخلاقی نظام کی بنیاد جن اصولوں پر ہوگی ان میں وحدت ِانسانیت اور وحدانی شخصیت کے ساتھ ساتھ ایک متوازن عادلانہ، معاشی، سیاسی اور معاشرتی نظام کا نافذ کرناشامل ہے۔ اس نئے اخلاقی نظام کی پہچان اس کا رنگ و نسل اور زبان و وطن کی قید سے آزاد ہونا اور تمام انسانی برادری کے ساتھ عادلانہ رویہ اختیار کرناہے۔عدل و انصاف پر مبنی رویہ سے مراد وہ نظام ہے جس میں ہر فرد کووہ مقام دیاجائے جس کا وہ مستحق ہو اورتمام انسانوں کی بنیادی ضروریات اورحقوق کو یکساں تصورکیا جائے ۔اسلامی شریعت اس حیثیت سے انسانیت کی تاریخ میں وہ عالمی بنیاد فراہم کرتی ہے جس میں کسی بھی فرد کی جان،دین،عقل،عزت و نسل اور مال کو یکساں طور پر محترم قرار دیتے ہوئے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ افراد کی زندگی سے تضادات،ذاتی مفادو ہوس اور نفسی نفسی کی جگہ معاشرہ کے افراد کی متنوع ضروریات کو پورا کیاجائے،اور ایک ایسے رفاہی معاشرہ کو وجود میں لایا جائے جس میں فوقیت کی بنیاد نہ مال ہو نہ نسب و نسل اور سیاسی اقتدار بلکہ فوقیت کی بنیاد صرف اور صرف اعلیٰ اخلاقی رویہ ہو۔ قرآن کریم نے خاتم النبیین علیہ السلام کے بارے میں جو شہادت دی ہے وہی اسلامی نظام اخلاق کی بنیاد ہے۔قرآن کریم خاتم النبیین علیہ السلام کو اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز قرار دیتا ہے (سورۃ القلم 4:68)،بالکل اسی بنیاد پر اسلام کے اصولِ اخلاق ایک ایسی عالمی برادری کو وجود بخشتے ہیں جو شخصیت میں وحدانیت،فکر میں یکسوئی اوراطاعت الٰہی اور عمل میں انفاق اور احسان کے ذریعہ معاشرہ میں اخلاقی انقلاب برپا کرسکیں۔معاشی اخلاقیات ہو یا سیاسی اخلاقیات ہر ایک کے لیے قرآن وسنت ایک ٹھوس اور قابل عمل بنیاد فراہم کرتے ہیں اور چونکہ یہ دونوںمصادرِشریعت مستقل عالمگیرحیثیت کے حامل ہیں اس لئے زمان ومکان کی قید سے بلند ہو کر ہر دور میں انسانوں کو عدل اجتماعی،اعلیٰ اخلاقی معاشی،معاشرتی اور سیاسی رویہ کے لیے رہنما اصول فراہم کرتے ہیں۔

مسلمان مفکرین بعض اوقات اپنی سادہ لوحی یاقرآن و سنت کی روح اور قرآن و سنت کے احکامات کی ماہیت اور عالمگیریت سے کم آگاہی کی بنا پر یہ رائے قائم کرلیتے ہیں کہ شریعت کے مخاطب صرف مسلمان ہیں۔حقیقت واقعہ یہ ہے کہ قرآن و سنت نے جو احکام واصول دیئے ہیںان میںسے ہر ہر تعلیم و اصول تمام انسانوں کی فلاح و ترقی کے لیے وہی حیثیت اور اہمیت رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے لیے سمجھی جاتی ہے۔ایک ظاہر کی مثال سے یہ بات واضح کی جاسکتی ہے ۔ہر شخص جانتا ہے کہ قرآن و سنت کی شریعت میں نشہ آور اشیاء کو حرام و ممنوع قرار دیا گیاہے فرض کیجیے ہم ایک اسلامی ریاست میںہیںجہاں پندرہ فیصد آبادی غیر مسلموں کی ہے تو کیا اسلامی حکومت کے لیے یہ پالیسی بنانا اخلاقاًاور دستوراًدرست ہوگا کہ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے نشہ آور اشیاء کا استعمال ان کے لیے ممنوع اورقابل دست اندازیٔ قانون ہے لیکن غیر مسلم اچھی طرح نشہ آور اشیاء کا استعمال کر کے کار چلا سکتے ہیں،سٹرک پراول فول بک کر جھگڑا اور فساد کر سکتے ہیں ،اپنے اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنا سکتے ہیں وغیرہ۔یا کیا کسی اسلامی ریاست کے لیے یہ بات عقلاًدرست ہوگی کہ وہ مسلمانوں کو قانوناًچوری سے روکے اور چور کا ہاتھ کاٹ دے لیکن غیر مسلموں کو بر بنائے غیرمسلم مستثنیٰ کرتے ہوئے کھلے عام چوری کرنے دے اور شرعی قانون انہیں دوسروں کے حق مارنے سے نہ روکے؟

حقیقت یہ ہے کہ شرعی قوانین کی بنیادوہ عالمی اخلاقی اصول ہیں جو رنگ و نسل اورعلاقائی اور زمانی قید سے بلند اورعالمگیرصداقت کے حامل ہیں ان میںنہ اخلاقی اضافیت ہے نہ افادہ پرستی اور نہ رنگ و نسل یا دین کی بنیاد پر تفریق۔یہ انسانی فطرت اور انسانی صالحیت کی بنیاد پر انسانوں کے خالق نے اس لئے نازل کیے ہیں کہ ان میں تمام انسانوں کے لیے بھلائی اورنجات ہے۔ آج انسانیت مادہ پرستی،اخلاقی اضافیت،افادہ پرستی،اور نفسی نفسی کے نتیجہ میں جس مقام پر کھڑی ہے اس میں ایک نئے عالمی نظامِ اخلاق ہی کے ذریعہ ایسی تبدیلی لائی جاسکتی ہے جو معاشرتی عدل،انسا نی جان و مال کے احترام ،عقل و ہوش کی برتری اوراندرونی اور بیرونی امن و سلامتی کے حصول کو ممکن بناسکے۔مسلمان اہل علم پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اسلامی اخلاقیات کے اس عالمگیر پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے نہ صرف ترقی پذیر ممالک بلکہ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کے انسانوں کو اس طرف متوجہ کریں اور اسلام کے اخلاقی عالمی اصولوں کو متعارف کراتے ہوئے ایک عالمی اخلاقی انقلاب کے لیے راہ ہموار کریں۔ یہ نیا اخلاقی نظام ہی معاشی استحصال اورسیاسی اور عسکری جبر و ناانصافی سے نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے ورنہ انسانیت خود ساختہ اخلاقی تعبیرات کا شکار رہے گی اور ظلم و جبر و استحصال کے ذریعہ سامراجی طاقتیں اپنے ہر غیر اخلاقی عمل کو مصنوعی اخلاق کا جامہ پہناتی رہیں گی۔

ماخذ: مغرب اور اسلام، شمارہ 34، خصوصی اشاعت عالمگیریت کا چیلنج اور مسلمان-1

نوعیت: جریدہ کا ابتدائیہ

Share this post

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے