آج کا مغرب اور مسلم دنیا
تدوین: خالد رحمٰن، متقین الرحمٰن
ایڈیشن: 2014ء
جلد بندی: غیر مجلّد
صفحات: 298
قیمت: 600روپے (پاکستان میں)
تعارف:
سوویت یونین کے ٹوٹنے اور سرد جنگ کے ختم ہوجانے کے بعد زیادہ طاقت ور پہلوان خاموش ہو کر بیٹھ نہیں گیا بلکہ اس نے اپنی مرضی سے بالکل مصنوعی طور پر ایک نیا دشمن منتخب کیا اور اس پر نشانہ بازی کی مشق شروع کر دی۔ یہ نیا دشمن اُس کی نظر میں ’’اسلام‘‘ ہے جو کسی مخصوص ملک یا جغرافیے کا نام نہیں بلکہ ایک عالمگیر نظریے، تہذیب اور طرزِزندگی کا نام ہے۔ جواُس کی نظر میں اُس کے نظریے، تہذیب اور طرزِزندگی کے لیے فوری خطرہ ہے اور مستقبل میں یہ اس کی مادی، سیاسی اور فوجی طاقت کے لیے ممکنہ طور پر زیادہ بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔ توانائی کے وسائل پر قبضہ بھی طاقت ور اقوام کی ایک ضرورت اور پالیسی ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ روایتی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اب امریکہ اور مغرب کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف کش مکش کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو امریکہ میں جڑواں ٹاورز کی تباہی ایک بڑا واقعہ تھا جس کا ردِّعمل اس واقعہ سے بھی زیادہ شدید ثابت ہوا اور اب بھی نوع بہ نوع ’’حوادث کے ٹپکنے‘‘ کا سلسلہ جاری ہے۔
کتاب میں شامل تحریروں کا بنیادی موضوع مغرب میں اسلام اور مسلمانوں کے حالات، عالم ِاسلام کے لیے مغربی طاقتوں کا طرزِ فکر، پالیسیاں، اقدامات اور ان کے نتائج و عواقب پر نظر ہے۔ ان تحریروں میں مختلف اہلِ فکر و دانش نے جن اہم امور کا نہایت گہرائی اوردِقّتِ نظر کے ساتھ جائزہ لیا ہے اُن میں عہدِ حاضر میں مغربی طاقتوں کے اقدامات کے نتیجے میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے رونما ہونے والے چیلنج؛ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی کوششیں؛ مغربی ممالک بالخصوص وقت کی سب سے بڑی عالمی طاقت امریکہ کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے؛ مسلم دنیا کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوںکی پالیسیاں اور حکمت عملی؛ اس کے جواب میں مسلمانوں کے مختلف حلقوں کی جانب سے اختیار کیے جانے والے رویے اور حکمت عملیاں، اور؛ اِن میں سے درست حکمتِ عملی کا تعین؛ نیز مستقبل میں مغربی دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کا متوقع کردار اور مغربی معاشرے پر اس کے ممکنہ اثرات شامل ہیں۔
مصنفین:
پروفیسر خورشید احمد،چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد؛ سابق ممبر سینیٹ پاکستان؛ ڈاکٹر شیریں مزاری، رکن قومی اسمبلی؛ سابق ڈائریکٹر جنرل، انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز، اسلام آباد؛ ڈیوڈ بیلٹ، فیکلٹی ممبر، نیشنل ڈیفنس انٹیلی جینس کالج، واشنگٹن ڈی سی، امریکہ؛ پروفیسر ڈاکٹر ممتاز احمد، وائس پریذیڈنٹ (اکیڈمک)، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد، سابق پروفیسر سیاسیات، ہمپٹن یونیورسٹی، امریکہ؛ ڈاکٹر زاہد بخاری، ایگزیکٹیوڈائریکٹر، سنٹر فار اسلام اینڈ پبلک پالیسی(CIPP)، واشنگٹن، ڈی سی، امریکہ؛ ڈاکٹر رابرٹ ڈبلیو جین سین،ایسوسی ایٹ پروفیسر، اسکول آف جرنلزم، یونیورسٹی آف ٹیکساس، آسٹن، امریکہ؛ محمداکرم ذکی، سابق سفیر، سابق سیکرٹری جنرل وزارتِ خارجہ، حکومت پاکستان؛ ڈاکٹر کمال ارگون، ہارٹ فورڈ سیمینری، امریکہ؛ خالد رحمن، ڈائریکٹر جنرل، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز، اسلام آباد؛ پروفیسر اسد ابوخلیل، پروفیسر آف پولیـٹیکل سائنس، ڈیپارٹمنٹ آف پولیٹکس اینڈ پبلک ایڈمنسٹریشن، کیلی فورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکہ؛ پروفیسر فرید اسحاق، پروفیسر آف اسلامک اسٹڈیز، ہارورڈ ڈیوئنیٹی اسکول، کیمبرج، میساچوسیٹس، امریکہ
جواب دیں