مشرقِ وسطیٰ ۔ یورپی تناظر میں
تاریخی تناظر
یورپ کےمشرقِ وسطیٰ کےساتھ تعلقات تاریخ کا حصہ ہیں۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوکہ جس عیسائی مذہب کےساتھ اہلِ یورپ کی وابستگی ہےاور جس نےان کےذہنوں کو مسخر اور زندگی کو اپنےحلقۂ اثر میں لےرکھا ہے، اس کا ظہور مشرقِ وسطیٰ میں ہی ہوا تھا۔ عیسائیت کی حیثیت بھی ایک مذہبی فرقہ سےزیادہ نہ تھی جو افلاطونیت (Platonism)، مانویت (Manichaeism)، زرتشتی فکر (Zoroastrianism)، آفتاب پرستی (Mithraism)، یہودیت اورنوافلاطونیت (Neo-platonism) کی طرح مشرقی بحیرۂ روم سےیورپ میں درآیا تھا۔ درحقیقت عیسائیت کےچند مخصوص اوصاف مثلاًتثلیث کا عقیدہ، پوپ کا منصب اورکرسمس کا مخصوص دن وغیرہ سب مشرقِ وسطیٰ کےمذاہب سےلیےگئےہیں۔ مثلاً قدیم روما کےہاں متبرک ثلاثہ کا تصور، مذہبی رہنماؤں کےسربراہ پونٹی فیکس میکسی مس یا بڑےپادری کا عہدہ (جسےآج کل پوپ کہا جاتا ہے) اور روما کےہاں جشنِ زحل جو دسمبر میں منایا جاتا تھا اور جسےآج کل کرسمس کہا جاتا ہے۔ مختصراً یہ کہ عیسائیت نےمشرقِ وسطیٰ کےمذہبی ماحول میں ہی جڑیں پکڑیں اورفروغ حاصل کیا۔
یہ رائےقائم نہیں کی جا سکتی کہ اہلِ یورپ اس حقیقت کا مکمل ادراک رکھتےہیں۔ تاہم کیتھولک چرچ کی نسبت پروٹسٹنٹ چرچ کےیورپی عیسائیوں کو مسلسل یہ یاددِہانی کروائی جاتی ہےکہ ان کےمذہب کےبانی نےمشرقِ وسطیٰ کےایک یہودی گھرانےمیں انکھ کھولی تھی اور یہ کہ ان کی کتابِ مقدس ’بائبل‘ کےزیادہ تر حصےکےمخاطب بنی اسرائیل ہیں۔ بائبل کےعہد نامۂ قدیم اور زبور کےحمدیہ گیت ہی ہیں جو عیسائیوں کی عبادت کا حصہ ہیں۔ سچی بات تو یہ ہےکہ بائبل کی یہودی، کیتھولک، آرتھوڈوکس اور پروٹسٹنٹ اشاعتوں کےمتن میں فرق ہے۔ اس سب کےباوجود بائبل کی یہ اشاعتیں ایک ایسےمضبوط ذریعےکی شکل میں موجود ہیں جنہوں نےیورپی عیسائیوں کا تعلق اُس علاقےسےجوڑرکھا ہےجہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئےاور ان کےعقیدےکےمطابق مصلوب ہوئے۔ یہی وجہ ہےکہ آج بھی یورپ کےبہت سےمذہبی عقیدت مند یروشلم کےساتھ جذباتی وابستگی رکھتےہیں۔
قرونِ وسطیٰ میں یہ عقیدت اتنی غالب تھی کہ ہزاروں نوجوان حتیٰ کہ بچےبھی مقدس مقامات کو مسلمان حکمرانوں کےقبضےسےآزاد کروانےکےلیےنکل پڑے۔ وہ پُر عزم تھےکہ یہ مقدس لڑائی انہیں جیتنی ہے، چاہےاس کےلیےان کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔
۱۰۹۵ء سے۱۲۹۱ء تک تقریباً دو صدیوں پر محیط اس دور میں پوپ اربن دوم کےتحریک اور ولولہ دلانےپر کم از کم۹ صلیبی جنگیں ہوئیں، جن میں یورپ کےمشہورجانباز سردار(knights) حتیٰ کہ فرانس کےلوئس نہم(۵۴۔ ۱۲۴۸ ‘۱۲۷۰)اورانگلینڈ کےرچرڈ شیردل(۹۲۔ ۱۱۸۹)جیسےبادشاہ مشرقِ وسطیٰ میں لڑی جانےوالی ان جنگوں کےلیےیہاں پہنچےاورصلیبی ریاستوں کی بنیاد بھی رکھ دی۔ انہیں بالآخر صلاح الدین ایوبی نےارضِ فلسطین سےنکال باہر کیا۔ (صلاح الدین ایوبی کی اس فتح کا اثر اس وقت زائل کیا جا سکا جب گزشتہ صدی میں استعماریت کےہتھکنڈوں اور یہودی آباد کاری کےذریعےاسرائیل کویہاں قبضہ دلایا گیا۔ )
مسلمان حکمرانوں کےلیےیہ صلیبی جنگیں ایک ضمنی تماشےسےزیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں، جوکہ مسلمانوں کےدو اہم ہم عصر تہذیبی مراکز بغداد اور قرطبہ سےکوسوں میل دور لڑی جا رہی تھیں۔ لیکن یورپ پر ان جنگوں کےاثرات بڑےگہرےاور دور رَس ثابت ہوئے۔ ان پر نہ صرف خوف کی ایک کیفیت طاری رہی جو بالآخرہنٹنگٹن کےاسلام سےخائف ہونےکا اظہاربنی، دوسری طرف انہوں نےاس سےاپنےلیےمثبت نتائج پیدا کرنےکی منصوبہ بندی بھی کی۔ مشرق میں کی جانےوالی اس جنگی مہم جوئی نےیورپی ثقافت پر ان گنت اثرات مرتب کیے۔ ان اثرات نےیورپی ادب، ریاضی، ٹیکنالوجی اور ایجادات میں قوتِ محرکہ کا کام کیا اورشجاعت و بہادری کےنئےاُفق وا ہوئے۔ حتیٰ کہ تجارتی میدانوں میں بھی دونوں اطراف کا نفع بڑا نمایاں تھا۔ وینس نےمشرقی بحیرۂ روم کےسواحل پر واقع ممالک کےساتھ تجارت میں بڑا فائدہ اُٹھایا۔
اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیےکہ جب چھٹی صلیبی جنگ اختتام پذیر ہوئی تو اہلِ یورپ نےمشرق کےپُرامن اورخیر سگالی دورےکرنا شروع کر دیےتھے۔ صلیبی جنگی جہاز پر اسی طرح کا ایک دورہ اسیسی کےسینٹ فرانسس (-۱۲۱۹۲۰ء) اور پوپ کےدباؤ پر چھٹی صلیبی جنگ میں حصہ لینےوالےجرمن بادشاہ فریڈرک دوم (-۱۲۲۸۲۹ء)نےمصر کا کیا۔ اس دورےکو عالمگیریت کی پہلی مثال قرار دیا جا سکتا ہے، جب دو حریف ثقافتیں ایک دوسرےپر اپنےاثرات مرتب کرنےکی ابتداء کر رہی تھیں۔ اس واقعےکےبعد مغرب کبھی بھی پہلےکی طرح مسلم تہذیب سےالگ تھلگ نہ رہا۔
اندلس اور سسلی میں مسلم ثقافت اسی طرح کےمضبوط اور پر تاثیر اثرات یورپ پر مرتب کر رہی تھی۔ اس حقیقت سےانکار ممکن نہیں کہ سپین آج کی تاریخ تک بھی عیسائیوں سےزیادہ طویل عرصہ مسلمانوں کےپاس رہا ہے، کیونکہ اندلس پر مسلمانوں کا دورِ حکومت۷۳۶برسوں پر مشتمل ہے۔ یعنی بنو اُمیہ کے۷۵۶ء تا۱۰۸۶ء، المرابطون کے۱۰۸۶ء تا۱۱۵۷ء، المواحدون کے۱۱۵۷ء تا۱۲۳۷ء اور قرطبہ پر بنو نصرکے۱۲۳۷ء تا۱۴۹۲ء۔
مسلمانوں کےاس دورِ حکومت میں یورپ نےزیادہ تر طلیطلہ کےراستےسےمسلم آرٹس اور سائنس میں بہت کچھ سیکھا (سوائےمذہبیات کے)۔ زراعت میں بادام اور زیتون کا پھل یہاں سےپہنچا، جبکہ ہوائی چکی کا تصور یورپ نےیہاں سےہی لیا تھا۔ علم الاعداد میں یورپ نےبےڈھنگےرومن ہندسوں کی جگہ عربی اعداد کو اپنایا۔ فلسفےاور علم الادویات میں تو کیا کہنا، کہ پُروقار اور شاندار طرزِ زندگی کا تصور ہی یہاں سےپہنچا۔
ابنِ سینا کی کتاب ’’قانون‘‘ یورپ میں اٹھارویں صدی عیسوی تک میڈیکل ٹیکسٹ بک کےطور پر پڑھائی جاتی رہی۔ ابن رشد نےارسطو کی فلسفےپر لکھی گئی کتاب کی جو تشریح کی تھی اس نےپیرس کی یونیورسٹی میں ہلچل مچائےرکھی۔ اسی کی مدد سےسینٹ تھامس اقیناس نےمتکلمانہ تعلیم (Scholesticism) کا طریقۂ تدریس متعارف کروایا تھا۔
مشرقِ وسطیٰ کا مذہب ’اسلام‘ ایک دفعہ پھر اٹھارویں صدی عیسوی میں اس وقت یورپ پر اثر انداز ہوتا ہوا نظر آیا جب خدا یا ہستیٔ برتر کےوجود کےاقرار کےساتھ فطرت و استدلال کی بصیرت پر عقیدےکی بنیاد رکھنےوالےیورپی مفکرین نےاس نظریے(Deist) کا پرچار کیا کہ خالقِ کائنات تو ہےلیکن کاروبارِ کائنات میں حصہ نہیں لیتا۔ روشن خیالی کےاس فلسفےکی نمایاں نمائندگی کرنےوالےمفکرین میں امانوئیل کانت (۱۷۲۴ء – ۱۸۰۴ء)، والٹیئر (۱۶۹۴ء – ۱۷۷۸ء)، بروشیا کےفریڈرک دوم (-۱۷۸۶۱۷۱۲ء)، جوحان والف گینگ وان گوئٹے(۱۷۴۹ء – ۱۸۳۲ء) اور گوتھ ہولڈ افرائم لیسنگ (-۱۷۸۱۱۷۲۹ء) شامل تھے۔ ان سب نےکیتھولک یا پروٹسٹنٹ ہر دو چرچوں کےاختیارات کےخلاف علمِ بغاوت بلند کیا۔ انہوں نےمتعصب پادریوں کو ایک ایسےفرقےکےطور پر مثال بنا کر پیش کیا جو جہالت اور بےعلمی کےگڑھےمیںگرےہوئےتھے۔ یہ تمام مفکرین اسلام سےمتاثر تھے، خصوصاً اس کےبےلاگ عقیدۂ توحید، تثلیث اور اوتار کےعقیدےکامکمل رد، اہل کلیسا کےحق استثناء سےانکار نیز بپتسمہ، ناکتخدائی اور تجرد کی زندگی جیسےعوامل سےمکمل انکار اور عقل پر مبنی قرآنی رویہ کےاوصاف سےبےانتہا متأثر تھے۔
نپولین کےخلاف لڑی جانےوالی جنگوں میںگوئٹےنےوائیمر کےمقام پر زار کےمسلمان سپاہیوں کو نماز ادا کرتےدیکھا تھا۔ اس نے۱۷۷۲ء میںڈیوڈ فریڈرک میگرلین کےجرمن زبان میں قرآن کےترجمےکو بھی پڑھا تھا۔ یہ ترجمہ انتہائی ابتدائی تراجمِ قرآن میں سےتھا اور اسے’’ترک بائبل‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ گوئٹےنے۱۴ ویں اور ۱۵ ویں صدی کےایرانی صوفی شاعر حافظ شیرازی کی شاعری سےمتأثر ہوکر مذہبی شاعری بھی کی تھی۔
دوسری طرف جرمنی کےمشہور ڈرامہ نگار گوتھ ہولڈ لیسنگ نےاپنےڈرامےNathan and Wise میں مسلمان کرداروں کو مثبت شکل میں پیش کر کےسب کو ششدر کر دیا تھا۔ اسےاس بات سےتو کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ وہ مسلمان ہوجائےلیکن وہ اپنےدور میں زوال پذیر ہوتی عیسائیت کےخلاف اسلام کی کسی بھی اثر پذیری کو روکےرکھنا چاہتا تھا۔
اس کےبعد ۱۹ ویں صدی میں یورپ ملحدانہ طرزِ فکر کی طرف مائل رہا۔ جن مفکرین نےاس سوچ کو ہوا دی، ان میں لڈوِگ، فیوربیگ، کارل مارکس، چارلس ڈارون اور فریڈرک نطشےشامل ہیں۔ اس صدی میں یورپ نےاپنی استعماری پالیسی کےباعث مشرقِ وسطیٰ کو ایک شکار گاہ بنائےرکھا۔ اس خطےمیں موجود استعماری طاقتوں برطانیہ اور فرانس نےلیگ آف نیشنز سےتوثیق کروا کر علاقےکو اپنےدرمیان تقسیم کر لیا اور اس کا معاشی استحصال شروع کر دیا۔
اہلِ یورپ نےاستشراقی مطالعےمیں اپنی نسلی برتری کو بڑا نمایاں کر کےپیش کیا۔ وہ عربوں کےساتھ بچوں کا سا برتاؤکرتےہوئےانہیں اپنےقبضےکےخیر خواہانہ پہلو سمجھا رہےتھےکہ اس میں مقامی لوگوں کےفائدےہی فائدےہیں۔
اس سارےعمل میں یورپ کےسیاستدانوں، سائنسدانوں، تاجروں، فوجیوں اورمشنری مبلغوں نےمشرق وسطیٰ کےبارےمیں بہت کچھ جانا۔ لیکن ۔ بہت کم سمجھا۔ وہ خود مادہ پرست اور لا ادری (خدا کےبارےمیں تشکیک میں مبتلا ) تھے، اس لیےاس خطےمیں نہ تو مذہب کی اہمیت کا ادراک کرسکےاور نہ انہیں یہ سمجھ آ سکا کہ اسلام کا سماجی کردار یہاں پر کتنا مضبوط ہے۔ لاعلمی کی اسی سوچ کا نتیجہ تھا کہ انہوں نےایک بالکل غلط اور غیر منصفانہ اندازِ فکر کو اپنالیا اور ان کےنزدیک مسئلہ فلسطین کا آسان حل یہ تجویز ہو گیا کہ خطےکو ’’زمین کےبغیر لوگوں‘‘ کی خاطر ’’لوگوں کےبغیر زمین‘‘ بنادیا جائے۔
جب فلسطینیوں نےصیہونی قبضےکےخلاف مزاحمت شروع کی اور بڑی تعداد میں پناہ گزیں یورپی ممالک میں جاپہنچےتو مشرقِ وسطیٰ سےمتعلق یورپ کےنقطئہ نظر میں پھر سےتبدیلی آنا شروع ہوئی۔ اب یورپی ممالک اس خطےکےمعاملات میںگھرتےچلےجا رہےتھےاور دونوں فریقوں میں سےکسی ایک کا ساتھ دینا ان کی مجبوری بنتی جا رہی تھی۔ اس کےنتیجےمیں حکومتوں کو اپنی آبادی میں پھوٹ، اختلاف اور مناقشت کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔
یورپی ممالک کی حکومتیں عمومی طور پر اور جرمن حکومت بالخصوص اپنےتاریخی پس منظر کےباعث اسرائیل کی حمایت پر گامزن رہتی ہیں جبکہ عوام صیہونی سفاکی کا بچشم خود مشاہدہ کرنےاور علم اور سوچ کےلحاظ سےبالغ نظر ہوجانےکےباعث مظلوم فلسطینیوں کی طرف داری کر رہےہوتےہیں۔
اس پس منظر کو سامنےرکھا جائےتو یہ صاف نظر آتا ہےکہ یورپ کا رویہ امریکی رویےکےخلاف ہےجس میں اسرائیل کی حمایت کبھی بھی سوالیہ نشان نہیں رہی۔ اسرائیل برا کرےیا بھلا، امریکہ کی بلا سے۔ اس کا بھائی چارہ اسرائیل کےساتھ ہی ہے۔ اس رویےنےامریکہ کو سیاسی، فوجی اور معاشی میدان میں اسرائیل کا غیر مشروط حلیف بنادیا ہے۔ اس اندھی حمایت کےپیچھےطاقت ور یہودی لابی اور اس کی میڈیا میں موجود گی کےساتھ ساتھ انتہا پسندانہ نظریات رکھنےوالےان پروٹسٹنٹ عیسائیوں کا بھی بہت اہم کردار ہےجو امریکہ میں ہی پیدا ہوئےہیں۔ اُن کےنزدیک وہ جو کچھ بائبل میں پڑھتےہیں سب واہیات ہے۔ ہاں انہیں یہ یقین ہےکہ یسوع مسیح کی دوبارہ آمد کا مکمل طور پر انحصار اس بات پر ہےکہ (غیر عیسائی) اسرائیلی فلسطین میں پہلےکی طرح دوبارہ سےمضبوط ہوجائیں۔
یہ اسی کا نتیجہ ہےکہ اہل یورپ اور امریکی۱۱ ستمبر کےحملوں کی مختلف انداز سےتوضیح کرتےنظر آتےہیں۔ امریکیوں نےاس واقعہ کا کوئی بھی تجزیہ کرنےسےانکار کرتےہوئےاس پر صرف اور صرف برائی کا ٹھپہ لگا دیا۔ انہوں نےکسی بھی جواب کا انتظار کیےبغیر بس ایک ہی دہائی ڈالےرکھی کہ ’’یہ لوگ (مسلمان) ہم سےنفرت کیوں کرتےہیں؟‘‘
اس کےبرعکس یورپ کےلوگ باوجودیکہ ۱۱ ستمبر کو ہونےوالےنقصان پر امریکہ کےساتھ دکھ کا اظہار کر رہےتھے، لیکن انہوں نےفوری طور پر یہ نتیجہ اخذ کر لیا تھا کہ امریکہ کو اپنےساحلوں سےدور مشرق وسطیٰ میں کسی دوسرےکی جنگ میں متحرک فریق کا کردار ادا کرنےکی وجہ سےنشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکہ کےفوجی نقطۂ نظر کےبرعکس مشرقِ وسطیٰ سےمتعلق یورپ کی سوچ سیاسی، یہودی مداخلت سےکافی حد تک پاک اور علاقےسےمتعلق بہت بہتر اور مؤثر معلومات پر مبنی ہوتی ہے۔ دوسری طرف صورتِ حال یہ ہےکہ یورپ میں رہنےوالےفلسطینی اپنےمؤقف کو اُجاگر کرنےمیں اس لیاقت اور قابلیت کا مظاہرہ نہیں کرپائےجس طرح امریکہ میں انہوں نےکیا ہے۔ یہاں پر شائد ہی کوئی ایسا کالج یا گریجویٹ سکول ہوجہاں فلسطینی پروفیسر موجود نہ ہوں اور فلسطینی طلبہ مسلمان طلبہ کی تنظیموں کےپلیٹ فارم سےفعال کردار ادا نہ کر رہےہوں۔ جس طرح یہودیوں نےستم رسیدہ بن کر پوری دنیا میں بکھر جانےکےبعد تعلیم کےمیدان میں غیر معمولی قابلیت حاصل کر لی تھی، اسی طرح اب اسرائیل کےہاتھوں ستم رسیدگی کا شکار ہوکر فلسطینی بھی دنیا بھر میں جرأت اور دلیری کےساتھ ساتھ تعلیم میں بھی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہےہیں۔
یورپ کےاندر بڑی تعداد میں آکر بس جانےوالےمسلمان مہمان کارکن (guest workers) مہاجر فلسطینیوں کےلیےایک اثاثہ ثابت ہو سکتےہیں۔ یہ لوگ زیادہ تر البانیہ، الجیریا، افغانستان، بوسنیا، مصر، بھارت، ایران، عراق، کوسو وو، مراکش، نائجیریا، پاکستان، سینیگال، صومالیہ اور تیونس سےآئےہوئےہیں۔ انسانی فطرت کےعین مطابق یہ تمام لوگ سب سےپہلےاپنےملک کےبارےمیں ہی سوچتےہیں اور ہر کوئی اپنےکسی نہ کسی مسئلےمیں الجھا ہوا محنت مزدوری کر رہا ہوتا ہے۔ لیکن اس حقیقت سےقطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یورپ میں رہنےوالےان تمام مسلمانوں کو فلسطین میں ہونےوالےواقعات بڑی شدت کےساتھ متأثر کرتےہیں۔ اس نقطۂ نظر سےدیکھا جائےتو مسلم اُمہ کا تصور ابھی بھی ایک حقیقت رکھتا ہےاور اس بات کی نشاندہی بھی کرتا ہےکہ ارضِ فلسطین کےمقدر کا فیصلہ فلسطینیوں کےحق میں بہت پہلےسےہو چکا ہے۔
موجودہ دور میں تنازعہ فلسطین میں یورپ کا کردار
اکثر یورپی ممالک اب یورپی یونین کےممبر ہیں۔ تاہم یورپی یونین بہترین نتائج تبھی حاصل کرسکتی ہےاگر مشرقِ وسطیٰ کےممالک کےساتھ اقتصادی تعلقات کو نئی نہج دی جائے۔ اس پہلو سےدیکھا جائےتو یورپی یونین کو اس خطےمیں امریکہ، روس اور چین کےبڑھتےہوئےاثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا پڑرہا ہے۔ دوسری طرف ہم دیکھتےہیں کہ خارجہ پالیسی کےسیاسی، فوجی اور ثقافتی پہلو دو ممالک کےباہمی تعلقات پر ہی مبنی ہوتےہیں۔ انہیں صرف یورپی ممالک کےنقطۂ نظر سےقابلِ عمل اور درست نہیں سمجھا جا سکتا۔
عراق
کویت پر صدام حسین کی جارحیت کےخلاف جنگ لڑنےکےلیےجو اتحاد تشکیل دیا گیا تھا، وہ یورپی ممالک اور امریکہ کےدرمیان فوجی تعاون کا سبب بنا اور اس طرح دونوں فریق ایک دوسرےکےبہت قریب آ گئے۔ یہ تعاون۱۱ ستمبر کےواقعہ اور طالبان کےخلاف اعلانِ جنگ کےبعد اتحاد کی صورت میں تبدیل ہو گیا۔ البتہ یہی تعلق اور تعاون وہ وجہ بنا جس کےسبب امریکہ کےعراق پر حملہ آور ہونےکےعزائم اس کی اصل منصوبہ بندی کےساتھ پورےنہ ہو سکے۔ امریکہ سےاختلاف کرتےہوئےفرانس اور جرمنی جیسی دو انتہائی اہم اور با اثر یورپی ریاستیں نہ صرف اس اتحاد سےباہر نکل آئیں بلکہ امریکی حملےکی پوری شدت کےساتھ مخالفت بھی کی۔ اٹلی، اسپین اور چند ایک وسطی اور مشرقی یورپ کی ریاستیں جنہوں نےامریکہ اور برطانیہ کےساتھ مل کر عراق کےخلاف جنگ میں حصہ لیا تھا اور وہ جنہوں نےان کی مخالفت کی تھی، باہمی اختلافات کےباعث تقسیم ہوتی رہیں۔ تاہم جب بش نےعراق میں’’مشن کی تکمیل‘‘ کا اعلان کیا تو یورپی یونین نےجنگ کےدوران ہچکچاہٹ کا رویہ اپنائےرکھنےکےباوجود اب بہتر جاتا کہ سقوطِ بغداد سےملنےوالےمفادات حاصل کرنےکےلیےپالیسی تشکیل دی جائے۔
اب جبکہ عراق خانہ جنگی کےاثرات سےباہر نکل رہا ہےتو یورپی رہنما اس تحریص میں مبتلا ہیں کہ یہاں موجود انسانی وسائل کی ترقی، تعمیرات، سیکیورٹی کےاُمور میں معاونت اور توانائی کےشعبوں میں موجود مواقع سےکیسےفائدہ اُٹھایا جائے۔ اسی ضمن میں۲۰۰۹ء کےاوائل میں فرانس کےصدر نکولس سرکوزی، جرمنی کےوزیر خارجہ فرانک والٹر سٹینمےئر اور برطانیہ کےوزیر تجارت پیٹر مینڈلسن نےبغداد جانےوالےتجارتی وفود کی قیادت کی۔
یورپی یونین کےنائب صدر کا یہ بیان اسی سمت میں ایک اشارہ ہے۔
’’یورپی یونین۲۰۰۳ء کےبعدعراق کےلیےدی گئی امداد میں ایک بلین یورو سےزائد رقم فراہم کر چکا ہے۔ یہ امداد بنیادی خدمات، انسانی وسائل کی ترقی، مہاجرین، اچھےنظام حکومت، سیاسی عمل اور استعداد کا ر ی جیسےعوامل پر خرچ کی گئی ہےجن کی درجہ بدرجہ فوقیت کا تعین خود عراقی حکومت نےکیا تھا۔ ‘‘
عراق کو جنوب کی جانب راہداری کی اہمیت حاصل ہونےکےسبب ان علاقوں تک قدرتی گیس کی فراہمی کا منصوبہ قابلِ عمل بنایا جا سکتا ہے۔ یورپی یونین نے’’توانائی کی تزویراتی شراکت داری‘‘ (Strategic Energy Partnership) پر عراق کےساتھ مفاہمتی یادداشت پردستخط کر رکھےہیں جس کےذریعےیورپی یونین عراق کےساتھ توانائی کےمنصوبوں کو مزید تقویت دینےکا بنیادی ڈھانچہ ترتیب دےسکےگا۔ مفاہمت کی اس یادداشت میں تعاون کےلیےجو میدان چنا گیا ہےوہ مستقبل میں عراق کےاندر یورپی یونین کےکردار کا تعین کرتا نظر آتا ہے۔ یہ تعاون درج ذیل پہلوؤں پر محیط ہو گا۔ عراق کےلیےتوانائی کی پالیسی پر ترقیاتی کام، یورپی یونین اور عراق کےدرمیان تعاون کےلیےتوانائی کےذرائع پر عملدرآمد کا پروگرام، عراق کی گیس کےترقیاتی پروگرام کو جدید بنانےکا منصوبہ، عراق کےہائیڈرو کاربن وسائل کی نقل و حرکت اور فراہمی کےنیٹ ورک کا تخمینہ لگانا، پائپ لائنوں کی پائیداری اور حفاظت کا معیار مزید بہتر بنانا، گیس کی عراق سےیورپی یونین تک فراہمی کےلیےدرکار ذرائع اور روٹ کی نشاندہی کرنا، عراق میں توانائی کی پالیسی کی پائیداری کو یقینی بنانےکےلیےقانونی، اصولی اور ادارتی فریم ورک جیسےضروری عوامل پر کام کرنا اور عراق میں توانائی کےتجدید طلب پہلوؤں کی ترقی کےلیےلائحہ عمل تیار کرنا۔ یورپی یونین عراق کےساتھ شراکت داری اور تعاون کےمعاہدےکو آخری شکل دےرہا ہےجو توانائی کی فراہمی کےخصوصی پہلوؤں پر مشتمل ہے۔
فوجی محاذ پر نیٹو کےذریعےچلایا جانےوالا تربیتی مشن۲۰۰۳ء سےکام کر رہا ہے۔ یہ مشن نہ صرف سینئر عراقی افسروں کو تعلیم فراہم کر رہا ہےبلکہ پولیس کی تربیت بھی کر رہا ہے۔ اگرچہ اسی مشن کےذریعےتربیتی عمل بڑےپیمانےپر نہیں کیا جا رہا، تاہم کچھ یورپی ممالک کےطرف سےعراق میں لڑی جانےوالی جنگ میں ہچکچاہٹ کو مدّنظر رکھےجانےکےباعث یہ کافی حد تک مؤثر ہے۔
یورپی یونین کی عراق میں بڑھتی ہوئی مصروفیات بالخصوص توانائی کی پالیسیوں، توانائی کےذرائع کی سیکیورٹی، تیل کی پیداوار میں بڑھوتری اورعراقی تیل کو یورپ تک پہنچانےکےلیےنئے راستےمتعین کرنےکےاقدامت سےنہ صرف علاقےمیں یورپی مفادات کو جِلا ملےگی بلکہ دیگر مؤثر اور طاقت ور ممالک بالخصوص امریکہ، برطانیہ، روس اور چین کےمفادات کا چیلنج بھی درپیش ہو گا۔
ایران
۱۹۷۹ء کےانقلابِ ایران سےقبل یورپی ممالک دوطرفہ بنیاد پر ایران کےساتھ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی تعلقات کےمزےلےرہےتھے۔ تب بھی ان کےتعلقات کا مرکزی نکتہ تیل اور گیس ہی تھا۔ ایرانی انقلاب کےمابعد اثرات اور ایران کے’نہ مشرق نہ مغرب‘ کےمؤقف کےباعث یہ متوازن تعلقات اختلافِ رائے، فقرےبازی اور سیاسی خلفشار کےہنگاموں میںگم ہوگئے۔ تاہم اس کےبعدعراق کی کویت پر جارحیت اور ایران کےحریف ملک کےخلاف مغربی ممالک کےاتحاد نےتناؤ میں کچھ کمی کر دی۔ چنانچہ ۱۹۹۰ء اور۲۰۰۰ء کےابتدا میں ان کےتعلقات میں کچھ بہتری نظرآئی۔ اس دوران دونوں طرف کی قیادت نےتعاون کو مزید پھیلانےکےلیےباہمی دلچسپی کےاُمور پر سنجیدہ گفتگو کا آغاز کیا۔ پھر۲۰۰۱ء میں یورپی مشن نےبھی اپنےرابطےبحال کیےتاکہ ایران کےساتھ قریبی تعلقات کو پروان چڑھانےکےلیےحالات و واقعات کےتناظر میں منصوبہ بندی کا آغاز کیا جا سکے۔ ایک مقصد تو یہ تھا کہ ’’تجارت و تعاون کا معاہدہ‘‘ (Trade and Cooperation Agreement) یعنی TCA حتمی طور پر طےکیا جا سکے، اس کےلیےمذا کرات کا آغاز دسمبر۲۰۰۲ء میں ہوا۔ اگرچہ تجارت گہرےاور قریبی تعلقات کی راہ ہموار کرسکتی تھی لیکن ایک بار پھر سیاسی خوف و ہراس اور وسوسوں نےبہتری کی جانب بڑھتےاقدامات کا راستہ روک دیا، اس دفعہ اس کا سبب امریکہ کا ایران پر یہ دباؤ تھا کہ وہ اپنےایٹمی منصوبےپر کام روک دے۔
یورپی یونین کو امریکہ اور برطانیہ کی قیادت میں لڑی جانےوالی عراق جنگ میں امریکہ کےساتھ جذباتی دباؤ پر مبنی تعلقات اورپھر تفرقہ اورپھوٹ کا تجربہ ہو چکا تھا، اس لیےاس نےایران کےمسئلےمیں خارجہ تعلقات میں مضبوط کردار ادا کرسکنےکی ساکھ برقرار رکھنےکےلیےاپنےآپ کو جذبات کی رو میں بہنےنہیں دیا۔ چنانچہ برطانیہ، جرمنی اور فرانس آگےآئےاور اختلافات کےباعث راستےجدا ہوجانےکےسابقہ تجربےکی بناء پر اس معاملےکو فاتر العقل بش انتظامیہ کی طرح محض طاقت کی زبان کی بجائےزیادہ واضح ایجنڈےکےساتھ حل کرنےکےلیےمذا کرات اور پُرامن طریقےاختیار کرنےکو ترجیح دی۔ اس سب کےباوجود یورپ کےممالک کو نہ تو انفرادی ملک کی حیثیت سےاور نہ ہی یورپی یونین کےپلیٹ فارم سےایٹمی ایران قابل قبول ہو سکتا ہے۔ اس لیےایک زیادہ معقول اور عملی قدم اُٹھایا گیا اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی کمیشن کو یہ معاملہ ہاتھ میں لےکر اپنا کردار ادا کرنےکو کہا گیا۔ باقی کی کہانی مذا کرات اور پابندیوں اور پھر مذا کرات کی ہے۔ ضروری نہیں کہ ترتیب یہ ہی رہی ہو لیکن اہم بات یہ نوٹ کرنےکی ہےکہ ایران کےایٹمی پروگرام کےمعاملےمیں یورپی ممالک کی اجتماعی سوچ تادیرامریکی دباؤ اور اس کےایجنڈےکی یرغمال بنی رہی ۔
موجودہ حالات میں جبکہ امریکہ ایک دفعہ پھرسلامتی کونسل کےارکان اور اپنےیورپی اتحادیوں کو بہلا پھسلا کر ایران کےخلاف سخت رویہ اختیار کرنےپر آمادہ کر رہا ہےتو یورپی یونین حتیٰ کہ اس کےممبر ممالک کےلیےانفرادی طور پر بھی یہ مشکل ہوتا جا رہا ہےکہ وہ ایران کی انقلابی حکومت کےساتھ تعلقات کو بہتر بنا سکیں ایسےمیں یورپی یونین کو انتہائی معقول طریقۂ کاریہ اختیار کرنا چاہیےکہ وہ ایران میں اپنےنفع اور نقصان کو سامنےرکھ کر پیش قدمی کےذریعےصورتِ حال پر قابو پانےوالا ایجنڈا بنائے، ساری صورتِ حال کو عقلمندی کےساتھ جانچے، محتاط رویہ اختیار کرتےہوئےاپنےمفادات کو مدّنظر رکھےاور اُن انٹیلی جنس ایجنسیوں کی بنائی ہوئی رپورٹوں کی طرف توجہ نہ دےجنہوں نےصدام حسین کےبڑےپیمانےپر تباہی پھیلانےوالےہتھیاروں(Weapons of Mass Destruction) کےذخیروں کا ثبوت پیش کیا تھا۔ لیکن اس سب کےلیےیورپی ممالک کو امریکی مقاصد پر مبنی پالیسی کےسحر سےباہر نکلنا ہو گا اور ایک متبادل اور کھری قیادت فراہم کرنا ہو گی۔
اسرائیل۔ فلسطین تنازعہ
اسرائیلی فلسطین میں بڑےپیمانےپر اپنی آباد کاری کا جواز فراہم کرنےکےلیےاسے’’واپسی کا حق‘‘ جتاتےہیں(دوسری طرف وہ بےدخل فلسطینیوں کےلیےاسی حق سےانکاری ہیں)۔ مسئلہ یہ ہےکہ یورپ کےنقطۂ نظر سےقوانینِ بین الممالک میں اس طرح کےدعویٰ کو تسلیم ہی نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بڑی اچھی دلیل یہ ہےکہ اس وقت دنیا بھر میں شاید ہی کوئی قوم اس جگہ آباد ہو جہاں اس کےآباء و اجداد بستےتھے۔
اگر مخصوص آبادیوں یا لوگوں کو یہ حق حاصل ہوجائےتو اینگلو سیکسن جوکہ آج کےڈنمارک سےآئےتھے، انہیں برطانیہ خالی کر دینا چاہیے۔ امریکہ کےآئرستانی باشندےبخوشی اپنےگرین آئس لینڈ پر واپس چلےجائیں۔ تمام لاطینی امریکہ کو ریڈ انڈین قبائل کی طرف پلٹ جانا چاہیے۔ اسی طرح آسٹریلیا سےبھی بڑےپیمانےپراخراج ہو گا۔ جرمنوں سےبھی یہ توقع رکھی جائےکہ وہ ذرا مزید مغرب کی طرف چلےجائیں تاکہ ان کی جگہ ان کےسلاوی (slav) پڑوسی پھر سےآباد ہو سکیں۔ سپین میں بھی اسی طرح کی ہلچل مچےگی اور فرانس بھی کیلٹی (Celtic) آبادی کو اس کا حقیقی وارث ہونےکےسبب واپس کرنا ہو گا۔ اس سلسلےکو برقرار رکھا جائےتو شمالی افریقہ کو بھی آبادی سےصاف کرنا ہو گا تاکہ قبل از تاریخ کےبربر قبائل کا حق انہیں لوٹایا جا سکے۔
یہ بات تو کھل کر سامنےآ گئی کہ اہلِ یورپ کےہاں اس طرح کے’’واپسی کےحق‘‘ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان لوگوں کےلیےتو بالکل بھی نہیں جو علاقےکو تقریباً ۲۰۰۰سال قبل ۷۰عیسوی میں اس کےتباہی سےدوچار ہونےکےبعد دوبارہ آباد کاری کےباوجود رضاکارانہ یا مجبوری میں چھوڑچکےہوں۔ مزید واضح بات یہ ہےکہ ان فلسطینی مسلمانوں کو تو ان کےخطےسےنکال باہر کرنےکا حق کسی کو حاصل نہیں جو حضرت عمرؓ کےعہدِ حکومت میں(۶۳۸ء)، تقریباً ۱۳۷۱ سال قبل اپنےملک کو اسلامی رنگ دےچکےتھے۔
۱۸۹۷ء میں با سل کےمقام پر تھیوڈور ہرزل کی قیادت میں ابتدائی صیہونیوں نےوقت اور حالات کےساتھ تبدیل ہوتی ہوئی صورتِ حال کو سمجھتےہوئےپہلی ورلڈکانگریس کا انعقاد کیا تھا۔ انہوں نےاس کانگریس میں ایک الگ ملک تلاش کرنےکا فیصلہ کیا جس کےلیےاُس وقت صرف فلسطین کےعلاقےکو ضروری نہیں سمجھا گیا تھا۔ گویا یہ اُس وقت کی بات ہےجب اُن کےپیشروؤں نےیہ سنگدلانہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ فلسطین کو ’زمین کےبغیر لوگوں‘ کی خاطر ’لوگوں کےبغیر زمین‘ بنادیا جائےکیونکہ انہیں اس زمین سےغرض تھی نہ کہ یہاں کےباسیوں سے۔
اسرائیل کےحمایتی یہ دعویٰ کرتےہیں کہ یہودیوں کو فلسطین کےکم سےکم ایک حصےکا مالک بنانےکا منصوبہ ۱۹۱۷ء میں بدنامِ زمانہ ’’بالفور اعلامیہ‘‘ (Balfour Declaration)کےذریعےانگریزوں نےدیا تھا۔ بہرحال اس اعلامیےنےایک یہودی ریاست کو ارضِ فلسطین پر بنانےکی نشاندہی کر دی تھی۔ تاہم اُس وقت یہ کہا گیا تھا کہ ایسا کرتےہوئےفلسطینی مسلمانوں اور عیسائیوں کےحقوق کا خیال رکھا جائےگا۔
تب بھی یہودیوں کا ریاستی حیثیت منوانےکا دعویٰ مکمل طورپر گمراہ کن ہےکیونکہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی رُو سےایک بالکل واضح اُصول طےشدہ ہےکہ
’’کوئی فرد ایسےحقوق کسی کو منتقل نہیں کرسکتا جن کا اختیار سرےسےاس کےپاس ہےہی نہیں۔ ‘‘
برطانیہ فلسطین کا حقیقی مالک نہیں تھا۔ برطانیہ کو یہ علاقہ عارضی طور پر لیگ آف نیشنز کےتفویض کردہ اختیار کےتحت حوالےکیا گیا تھا تاکہ مستقبل میں کسی موقع پر آزادی دینےتک اس کا نظم و نسق بہتر طور پر چلایا جا سکے۔ چنانچہ برطانیہ نے۱۴ مئی۱۹۴۸ء کےروز فلسطین کو صیہونیوں کےحوالےکر کےاپنےاختیارات سےتجاوز کیا تھا۔ اس لیےاختیارات کےناجائز استعمال کےباعث یہ اقدام کالعدم اور منسوخ سمجھا جانا چاہیے۔
برطانیہ یورپ نہیں البتہ یہ یورپ میں ضرور واقع ہے۔ میں ایک یورپی ہونےکےناطےشرمندگی محسوس کرتا ہوں کہ برطانیہ۱۹۲۳ء سے۱۹۴۸ء تک کیوں تذبذب میں رہا اور کوئی بات طےنہ کرپایا اور پھر فلسطین کےمعاملےمیں متولی ہونےکی ذمہ داری ایسےبھونڈےپن سےنبھائی کہ اب یہ کبھی ختم نہ ہونےوالا تنازعہ بن گیا ہے۔
اہلِ یورپ کےلیےابھی مزید شرمندگی ہی شرمندگی فلسطین میں ہونےوالےحالات و واقعات میں یورپ کےکردار پر ہےجس میں اگر فلسطینیوں کی مدد نہیں بھی کی جا رہی تو سب کچھ ٹھنڈےپیٹوں برداشت کیا جا رہا ہےاور اس کا سبب یہ ہےکہ یورپ اپنی محافظ عالمی طاقت اور اس وقت عملاً صیہونیت کےگھر امریکہ کےاحترام میں سر تسلیم خم کیےہوئےہے۔ ان اندوہناک واقعات میں چند مشہور اور فیصلہ کن مرحلےدرجہ ذیل ہیں۔
- ۶ تا ۱۰ جون ۱۹۶۷ء: اسرائیلی فوج نےغزہ، القدس کےمشرقی حصے، شرق الاردن، سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ یہ دن فلسطینیوں کےہاں یوم النکبہ ٹھہرا جب ان پر بےپناہ تکلیفوں کا آغاز ہوا اور پھر اس کےبعد کی کہانی استعماریت کےہتھکنڈوں، نسلی امتیاز، نسل پرستی اور فلسطینیوں کی مظلومیت سےعبارت ہے۔
- ۲۲ نومبر۱۹۶۷ء: اقوامِ متحدہ نےسلامتی کونسل کی قرارداد۲۴۲کےذریعےمطالبہ کیا کہ اسرائیل نےاس وقت تک فلسطینیوں کی جتنی سرزمین پر قبضہ کیا ہے، وہاں سےفوجیں واپس بلالے۔ اس نےمہاجرین کےمسئلےکا منصفانہ حل تلاش کرنےکا بھی مطالبہ کیا (قرارداد۲۴۲کو اقوامِ متحدہ کی تمام قراردادوں سےزیادہ شہرت ملی، کیونکہ اس پر کبھی عملدرآمد نہیں کروایا جا سکا)۔
- ۱۷ ستمبر۱۹۷۸: کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ طےپا گیا (لیکن اس پر کبھی بھی عملدرآمد نہ ہو سکا)۔ سمجھوتےکےبعد ۱۹ نومبر کو صدر انور ساداتاسرائیلی پارلیمانی کنیسٹ میںگئے۔
- ۱۹۸۷ء: پہلی انتفاضہ کا آغاز ہوا۔ ۱۹۸۹ء تک۶۰۰فلسطینیوں(اور۲۱ اسرائیلیوں) کو قتل کیا جا چکا تھا۔
- ۱۹۸۸ء: امریکہ کےسیکرٹری آف سٹیٹ جارج شُلز نےفلسطینیوں کےحقِ خود ارادیت کےلیےایک منصوبہ تیار کیا۔ القدس کو بین الاقوامی شہر کا درجہ دےکر دو ریاستیں تشکیل دینےکا حل۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ پہلےبھی تجویز کر چکی تھی۔
- ۱۳ ستمبر۱۹۹۳ء: اوسلو معاہدہ پر یاسر عرفات اوراسحاق رابن نےدستخط کیے(جو اس کےقتل کا سبب بن گیا)۔
- اوسلو معاہدےکےتحت امن کوششوں کی ناکامی اور ایریل شیرون کےاشتعال انگیز مارچ کےباعث دوسری الاقصیٰ انتفاضہ کی ابتداء ہوئی۔
- ۲۸ مارچ۲۰۰۲ء: سعودی بادشاہ عبداللہ نےتنازعہ کےحل کےلیےیہ تجاویز دیں۔
(i) اسرائیل۱۹۶۷ء سےپہلےوالی پوزیشن پر واپس چلا جائے۔
(ii) فلسطینی مہاجرین کےمسائل کو اقوامِ متحدہ کی قرارداد۱۹۴ کےمطابق حل کیا جائے۔
(iii) آزاد فلسطینی ریاست قائم کی جائے، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔
اس توقع کا اظہار کیا گیا کہ ان سب تجاویز کی توثیق اسرائیل اور عرب دنیا کےدرمیان ایک کثیرالفریق امن معاہدےکی صورت میں کی جائےگی۔
ان تمام باتوں میں دو پہلو بہت نمایاں ہیں۔ پہلا یہ کہ اوپر بیان کردہ اور ان کےعلاوہ دیگر تمام ابتدائی اقدامات میں سےکوئی ایک بھی نتیجہ خیز نہیں ہوا۔ تاہم جو کچھ اس کا متضاد ہو سکتا تھا وہ نتائج کی شکل میں سامنےآتا رہا۔ مثلاً جب سفارتکار مسئلےکےحل کی کوششیں کر رہےہوتےتھے، اسرائیل اپنی غیر قانونی آبادکاری جاری رکھتےہوئےخاموشی کےساتھ دو ریاستی حل کا امکان ختم کر دیتا تھا۔ درحقیقت اس وقت فلسطینی اپنی ہی سر زمین پر نہایت تنگی سےرہنےپر مجبور ہیں، جہاں وہ اس سےزیادہ کچھ نہیں کرسکتےکہ اپنےآپ کو قابو میں رکھیں(اسرائیل کےمفاد میں) اور اپنی غربت ختم کرنےکا بندوبست کریں۔
اب اسرائیل ایک فلسطینی ریاست کےامکان پر آمادہ ہونےکی ہمت کرسکتا ہے، کیونکہ ’’ایسی کوئی ریاست ہو گی ہی نہیں۔ ‘‘ اس خیالی قبول کردہ ریاست سےعمداً انحراف کی وضاحت کولمبیا انسائیکلوپیڈیا میں لفظ ’اسرائیل‘ کےاندراج میں کچھ اس طرح ہے: ’’اسرائیل کی آبادی جس میں غالب اکثریت یہودیوں کی ہے، نمایاں ترین اقلیت مسلمان ہیں‘‘۔ پڑھنےوالوں کو حیران ہونا چاہیےکہ یہ نمایاں اقلیت وہاں پہنچ کیسےگئی ہے!
دوسری اتنی ہی نمایاں بات اس سارےعمل میں یورپ کی غیر موجودگی ہے۔ یہ بات بھی درست ہےکہ عرب ممالک نےخود بھی اس کےلیےزیادہ تگ و دونہیں کی ۔ بہتر ہوتا اگر وہ کرتے۔ یورپ کی اپنی کیفیت یہ ہےکہ حالیہ برسوں میں بش انتظامیہ کےدور میں یورپ اور امریکہ کےدرمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کےدوران بھی یورپ مشرقِ وسطیٰ میں اپنا آزادانہ کردار ادا کرنےمیں ناکام رہا ہے۔ انہوں نےاس مقولےکو سچ کر دکھایا ہےکہ یورپ ایک اقتصادی دیو لیکن سیاسی بونا ہے۔
مستقبل کی راہ
مشرقِ وسطیٰ میں ائندہ کیا ہو گا یہ کہنا بالکل غیر یقینی ہے۔ ممکن ہےکہ آئندہ شورش اور تشدد کا نہ ختم ہونےوالا سلسلہ جاری رہے۔ یہ بھی سچ ہےکہ اسرائیل کےلیےامن کی نسبت مستقل جنگ اپنا وجود برقرار رکھنےکےلیےزیادہ آسان ہے۔ ایسی صورتِ حال میں یہ ممکن ہو سکتا ہےکہ معاشی امداد سکڑتی چلی جائے۔
صورتِ حال کچھ بھی ہو، اسرائیل کا وجود اس وقت تک خطرات میںگِھرا رہےگا جب تک وہ اس گمراہ کن رویہ پر مُضر ہےکہ نسل پرستی پر قائم ایک جعلی جمہوری ملک کےتحفظ کا انحصار فلسطینیوں کو ظالمانہ طریقوں سےدبا کر رکھنےاور ان کےساتھ تیسرےدرجےکےشہریوں جیسا سلوک روا رکھنےمیں ہے۔ حنان اشراوی نےدرست کہا ہےکہ ’’اس سےپہلےکسی مفتوحہ فوج نےمحبوس شہری آبادی کا دم گھونٹ دینےوالا ایسا محاصرہ کبھی نہیں کیا ہو گا جس نےفلسطینیوں کو ایک تعذیب زدہ قوم بنا کر رکھ دیا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہےکہ وہ حریت، آزادی اور وقار کےساتھ ایک غیر متزلزل عہد نبھا رہےہیں۔ ‘‘
ایک مثال ملاحظہ کیجیے: ایمنسٹی انٹرنیشنل نےاس بات کا تذکرہ کیا ہےکہ ایک اسرائیلی عدالت نےایک فلسطینی کو قتل کر دینےوالےاسرائیلی فوجی کو 0.03 ڈالر یعنی 3 سنٹ جرمانےکی سزا سنائی ہے۔ اس سےواضح ہوجاتا ہےکہ فلسطینوں کو قتل کرنا، فوجی و غیر فوجی سرائیلیوں کےلیےکیوں آسان ہے۔
اس طرح سےمعاملات چلانےوالا ملک جس کی آدھی آبادی آزاد ہو اور آدھی غلام، طویل عرصہ قائم نہیں رہ سکتا۔ حقیقت یہی ہےکہ اگر اسرائیل نےیہ مکروہ سلسلہ جاری رکھا تو یہ بھی اسی خطےمیں اٹھ سو سال پہلےقائم ہونےوالی صلیبی ریاستوں کی طرح ختم ہوجائےگا۔
اہلِ یورپ ان واقعات کو ششدر ہوکےدیکھتےرہتےہیں۔ جرمنوں کےلیےان میں سچائی تلاش کرنا مشکل نہیں، کیونکہ وہ اچھی طرح سمجھ سکتےہیں کہ معصوم فلسطینی جن کا نازیوں کےجرائم سےکوئی لینا دینا نہیں تھا، نا کردہ جرم کی سزا بھگت رہےہیں۔ ہولوکاسٹ کےبعد انصاف پر مبنی فیصلہ یہ ہوتا کہ بچےکھچےیہودیوں کو فلسطین کی بجائےجرمنی کےمختلف حصوں میں اباد کر دیا جاتا۔
ذرا اس قابلِ فہم مگر انتہائی مضحکہ خیز بات کو دیکھیے:کہ جرمن حکومت نےآش وزاور دیگر مقامات پر جرمنوں کےجرائم کی تلافی کےلیےاسرائیل کو کئی بلین ڈالرز کی ادائیگی کی اور انہیں جدید ترین ہتھیار فراہم کیے۔ دوسرےالفاظ میں صیہونیوں کی مدد کی تاکہ جس طرح نازیوں نےیہودیوں پر مظالم ڈھائےتھے، اب یہودی بھی عربوں پر دباؤ برقرار رکھنے، انہیں ان کےعلاقوں سےبےدخل کرنےاور اذیتیں دینےمیں پوری طاقت صرف کرسکیں۔
فیکٹریوں کےگیس چیمبرز میں جس طرح بڑی تعداد میں قتل عام کیا گیا اورنسلی صفایاکیا گیا، اس سےہولوکاسٹ کی ہولناکی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حقیقت تو یہی ہےکہ یہ اپنی نوعیت کا بہت بُرا فعل تھا۔ اس کےباوجود بھی اہلِ یورپ کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں اتی کہ اسرائیل کس طرح اپنےباپ دادوں پر ہونےوالےظلم سےکئی گنا زیادہ ظلم فلسطینیوں پر ڈھا رہا ہے۔
نازیوں کو بھی اپنےنسلی امتیاز کےنظریےکےساتھ فرار ہونا پڑا تھا۔ خانہ بدوشوں اور یہودیوں کےساتھ نسلی امتیاز برتنےسےکیا ہوا؟ ان میں سےبہت بڑی تعداد میں لوگ مصیبت سےبچنےکےلیےبھیس بدل کر رہنےلگے۔ اور جو لوگ نازی حکومت کی مخالفت کرنےپر تیار ہوئے، ان کےلیےبھی بھیس بدل کر پھرنےوالےگسٹاپو کےایجنٹوں کی نظروں سےبچنا ممکن نہیں تھا۔
ہم بھی مشرقِ وسطیٰ کےپس منظر میں اسی طرح کا مشاہدہ کرسکتےہیں۔
(الف) جہاں تک مسئلہ فلسطین کےلیےایک مؤثر اور بھرپور حمایت کی بات ہےتو عرب دنیا اس سلسلےمیں بہت ہی تاریک تصویر پیش کر رہی ہے۔ جناب خالد رحمن نےاسےنہ صرف عربوں کےاتحاد و اتفاق میں کمی سےتعبیر کیا ہےبلکہ ان کا یہ تجزیہ بالکل درست ہےکہ الفتح اور حماس کےدرمیان موجودہ تنازعہ اس شک و شبہ کو طول دینےکی وجہ سےہےکہ الفتح کسی سازش کا حصہ ہے۔ نتیجتاً اس کا سارا فائدہ اسرائیل اور امریکہ کو ہورہا ہے۔
(ب) اس مسئلہ میں یورپ کی سوچ بھی اس سےمختلف نہیں ہے۔ عام لوگوں کی ہمدردیاں فلسطینیوں کےساتھ ہوتی ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہےکہ بعض افراد تو یہاں تک محسوس کرتےہیں کہ اسرائیلیوں کی سفاکی نےنازیوں کےجرائم کو بھی کم کر دیا ہے۔ ساتھ ہی حکومتوں کی خواہش بھی پوری ہورہی ہوتی ہےکہ لوگ ٹی وی سکرینوں پر بہت کم صیہونی جرائم دیکھ پاتےہیں جب تک کہ وہ قطرمیں چلنےوالےالجزیرہ ٹی وی کےعربی یا انگلش پروگرام نہ دیکھ لیں۔ غیرشعوری طورپراہل یورپ ایک جرمن ضرب المثل کی اتباع کر رہےہیں’’میں جس چیزکےبارےمیں علم نہیں رکھتا وہ مجھےپریشان نہیں کرتی۔ ‘‘ یعنی یہ کہا جا سکتا ہےکہ اہل یورپ کی فلسطینیوں سےہمدردی آسانی سےعملی تعاون یا قربانی کی شکل اختیار نہیں کر سکتی ۔
(ترجمہ: سلمان طاہر)
جواب دیں