پاکستان کا توانائی کا شعبہ: چیلنجز اورامکانات
سابق وفاقی وزیر اورتوانائی کے شعبہ سے وابستہ اہم رہنما جناب عثمان امین الدین نے تجویز کیا ہے کہ وفاق میں صرف ایک وزارت توانائی ھونی چاہیے جس میں پیٹرولیم، قدرتی وسائل، پانی اور بجلی کی وزارتیں ضم کر دی جائیں۔ تاکہ بہتر ارتباط اور منصوبہ بندی سے توانائی کا بحران حل کیا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہر گز غریب ملک نہیں ہے بلکہ قدرتی وسائل کے اعتبار سے ہم ایک مال دار قوم ہیں ۔آج کا توانائی کا بحران سرکاری سطح پر برس ہا برس کے غلط فیصلوں اورنامناسب منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ آج بھی درست فیصلے کرکے ہم اپنے مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔ وہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ‘‘پاکستان کا توانائی کاشعبہ:چیلنجز اورامکانات’’ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کررہے تھے۔
جناب عثمان امین الدین نے کہا کہ مناسب قانون سازی کرکے ایک بلین کیوبک میٹر گیس کا ضیاع روکا جاسکتاہے۔اسی طرح مقامی حالات اورعام آدمی کی قوتِ خرید کا خیال رکھتے ہوئے توانائی کے سستے طریقوں کو فروغ دیا جاسکتاہے۔اس سلسلہ میں جل فیول (Jel Fuel)کااستعمال قابلِ ذکر ہے۔
کوئلہ ہماری بہت بڑی دولت ہے، بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ اس کا مؤ ثر استعمال ہمارے مسائل حل کرسکتاہے۔
بلوچستان اورساحلی علاقے قدرتی وسائل کا بڑا ذخیرہ رکھتے ہیں۔ تیل کی تلاش کے کام کو تیز رفتاری سے آگے بڑھایا جانا چاہیے۔ ترکمانستان سے گیس پائپ لائن کا منصوبہ یا قطر گیس پائپ لائن کا منصوبہ ہمارے لیے قابلِ عمل نہیں ہیں۔ البتہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ ہمارے لیے سب سے بہتر حل ہے۔
توانائی کے عالمی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دنیا میں اب تک دریافت شدہ تیل کے ذخائر میں سے انسان %45استعمال کرچکاہے۔% 55باقی رہ گیا ہے۔ دنیا میں تیل کی پیداوار اورفراہمی کا سب سے بڑا حصہ مشرقِ وسطیٰ کا ہے اورسب سے زیادہ خرچ کا حصہ شمالی امریکہ کا ہے۔ دنیا میں قدرتی گیس کی فراہمی سب سے زیادہ شمالی امریکہ سے ہوتی ہے اورسب سے زیادہ خرچ بھی وہیں ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پر گیس کی فراہمی سابقہ سوویت یونین کی ریاستوں سے ہوتی ہے اورگیس کے استعمال کے لحاظ سے بھی اس علاقے کا دوسرانمبر ہے۔
اکیسویں صدی میں توانائی کی صورتِ حال بہت نازک ہوچکی ہے، تیل اورگیس کی فراہمی کے راستوںمیں کوئی حادثاتی رکاوٹ یا توانائی کی پیداوار دینے والے کسی ملک کی سیاسی صورت ِ حال میں تبدیلی توانائی کے حوالہ سے دنیا میں ہل چل پیدا کرسکتی ہے۔ دنیاکی معیشت میں توانائی کا استعمال بڑھتا جارہاہے اورموجودہ روزانہ پیداوار تمام ضروریات کو بمشکل پورا کررہی ہے۔ طلب و رسد میں عدم توازن اس بحران کی اصل وجہ ہے۔ اگر توانائی کی پیداوار میں کسی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہوجائے تو اس سے نمٹنے کے لیے توانائی کو زیادہ عرصے کے لیے ذخیرہ کرکے رکھنے کا انتظام بھی ممکن نہیں ہے۔ برسوں سے تیل کے کوئی بڑے ذخائر بھی دریافت نہیں ہوئے ہیں۔ تیل کی %70پیداوار اُن کنوئوں سے ہے جو تیس سال سے زیادہ پرانے ہیں۔ چین، بھارت اوردیگر بڑی معیشتوں کی بڑھتی ہوئی توانائی کی ضروریات توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کررہی ہیں۔اندازہ ہے کہ 2013ء میں تیل کی قیمت 200ڈالر فی بیرل سے بھی بڑھ جائے گی۔ دنیا ‘‘توانائی کی استعماریت’’ کے دور میں داخل ہوچکی ہے۔ ہمیں پورے عزم کے ساتھ اپنے قومی مفادات کے مطابق دیانت داری کے ساتھ درست سمت میں بڑھنا چاہیے۔ بیرونی دبائو میں آکر فیصلے کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
صدر مجلس اورانسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے چیئرمین پروفیسر خورشید احمد نے کہا بین الاقوامی سطح پر توانائی کی سیاست ہمارے بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ پاکستان کی قیادت میں ذاتی مفاد سے بلند ہوکر قومی مفادات کو اوّلیت دینے، دوسروں کی نظر سے دیکھنے کے بجائے اپنے مسائل کو اپنے حالات کے مطابق خود حل کرنے اوراپنے تمام اقدامات کے لیے جواب دہی کا نظام قائم کرنے کی صلاحیت اورنیت میں کمی ہے۔ پاکستان کو بلند نظر، دیانت دار، مخلص اورباصلاحیت قیادت درکار ہے جو اپنے وسائل کو بہترین طورپر استعمال کر کے خود انحصاری کی منزل پر لے جائے۔ جناب عثمان امین الدین توانائی کے شعبہ میں ہمارے ملک کی صاحبِ علم ،صاحب نظر اورتجربہ کار شخصیت ہیں،ان کے خیالات سے استفادہ کرنا مفید ہوسکتاہے۔
سیمینار میں سابق سیکرٹری حکومت پاکستان جناب مسعود ڈاہر نے موڈریٹر کے فرائض انجام دیے۔ توانائی کے شعبہ سے وابستہ اہم سرکاری اورغیر سرکاری شخصیات نے اس سیمینار میں شرکت کی۔
نوعیت: سیمینار رپورٹ
تاریخ: ۲۰ جنوری ۲۰۱۱
جواب دیں