دہشت گردی کی جنگ : پاکستان میں قانونی چارہ جوئی
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور ریپریو(REPRIEVE) کے زیر اہتمام ایک روزہ کانفرنس ۱۸ اپریل ۲۰۱۱ء کو آئی پی ایس لائبریری ہال میں منعقد ہوئی۔ جس کا عنوان تھا "دہشت گردی کی جنگ : پاکستان میں قانونی چارہ جوئی” اس کانفرنس میں دہشت گردی کی موجودہ جنگ کے دوران ملک میں تسلسل کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، غیر قانونی اور بے نام گرفتاریوں، اغواء اور تشدد کے واقعات نیز ڈرون حملوں کے استعمال سے پیدا ہونے والے مسائل کے پس منظر میں عدالتی اور قانونی سطح پر ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا۔
اس کانفرنس کی دو نشستیں ہوئیں ۔ پہلی نشست میں دہشت گردی کی جنگ کے سیاسی پہلو کا احاطہ کیا گیا۔ اس نشست کے موڈریٹر معروف قانون دان جناب شوکت عزیز صدیقی تھے۔ بگرام پٹیشن اور پاکستان میں غیر قانونی قید اور تشدد کے واقعات کا جائزہ لیا گیا۔
دوسری نشست میں امریکہ کے بغیر پائلٹ جاسوس طیاروں سے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر ہونے والی بمباری کے اثرات ، ماورائے عدالت قتل کے واقعات اور پنجروں میں بند قیدیوں کی حالتِ زار پر ایک تحقیقی رپورٹ کا خلاصہ اور ڈرون حملوں سے متاثرہ افراد کے لیے قانونی چارہ جوئی کی صورت حال کا جائزہ لیاگیا۔ اس نشست کے موڈریٹر فری یونیورسٹی برلن کے فیلو ڈاکٹر کروفٹون بلیک تھے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی برطانوی تنظیم "ریپریو”کے ڈائریکٹر کلائیو سٹیفورڈ سمتھ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی حکمت عملی غیر مہذب، احمقانہ اور منافقت پر مبنی ہے۔امریکہ کی دہشت گردی پر مبنی جنگ نے پوری دنیا میں، با لخصوص پاکستان اور افغانستان میں، ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی کی دردناک مثالیں قائم کی ہیں۔ پاکستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ، اغواء ، خفیہ حراستیں ،ماورائے عدالت قتل اور ڈرون حملوں میں بے گناہ عوام کی نسل کشی کسی بھی طرح قانونی اور جائز نہیں ہے۔دنیا بھر کے عوام کو اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہیے اور قانونی اور عدالتی سطح پر نیز ملکی اور عالمی سطح پر اس کے ذمہ داران کو سزائیں دلوائی جائیں ۔
کلائیو سمتھ نے اپنے خطاب میں کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے برطانوی ٹیلی وژن کو دئیے گئے انٹر ویو میں تسلیم کیا ہے کہ ان کے دور حکومت میں پاکستان میں پکڑے گئے مشتبہ شدت پسندوں پر جسمانی تشدد کیا جاتاتھا۔کلائیوسمتھ کا کہنا تھا کہ سابق صدر کا یہ اعتراف ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا جواز فراہم کرتاہے۔ انہوں نے انسانی حقوق کے کارکنوں اورپاکستانی عوام سے کہا کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف اسی بنیاد پر قانونی چارہ جوئی اورعوامی مہم چلائیں تاکہ مستقبل میں کسی بھی فرد یا ادارے کو لوگوں کے خلاف تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی جرات نہ ہو۔
اس کانفرنس سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیزکے چیئر مین پروفیسر خورشید احمد، ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن، ریپریو کے ڈ ائریکٹر کلائیو سٹیفورڈ سمتھ، لیگل ڈ ائریکٹر کوری کرائڈر ، برطانیہ کے سابق ڈائریکٹر پبلک پراسیکیوشن لارڈ کین مکڈونلڈ، صوبہ بلوچستان کے سابق انسپکٹر جنرل پولیس طارق کھوسہ، انسانی حقوق کی برطانوی تنظیم کیج پرزنرز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عاصم قریشی ، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی کے صدر شوکت عزیز صدیقی، سپریم کورٹ میں ڈرون حملوں سے متاثرہ افراد کا مقدمہ لڑنے والے وکیل مرزا شہزاد اکبر، فری یونیورسٹی برلن کے فیلو ڈاکٹر کرفٹن بلیک، انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے شریک چیئر مین کامران عارف، وزیر ستان سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی صحافی کریم خان، لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی معروف خاتون رہنما آمنہ مسعود جنجوعہ، امریکہ میں قید معروف پاکستانی خاتون عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی، بیرسٹر سعدیہ عباسی اورانسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بہت سے نمایاں افراد نے اس کانفرنس میں شرکت کی اوراپنے خیالات کا اظہار کیا۔
پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ گیارہ ستمبر کے واقعہ کے انتقام میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے عالمی سطح پر جو دہشت گردی کی ہے وہ اصل واقعہ کے تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔ نظری اورعملی سطح پر امریکہ اوراس کے اتحادی پانچ جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔
۱) دہشت گردی کو جرم کی سطح پر رکھنے اوراس سے نمٹنے کے بجائے اسے جنگ کی سطح پر رکھ دیا گیا اوراصل ذمہ داروں کو چھوڑ کر غیر متعلق ممالک کو جنگ کا نشانہ بنا لیا گیا۔
۲) ماضی میں دہشت گردی ہمیشہ طاقت ور کے خلاف کمزور فریق کے ایک ہتھیار کی حیثیت رکھتی تھی لیکن اب اسے حکمتِ عملی کی حیثیت سے طاقت ور فریق اپنے دشمنوں کے خلاف ٹارگٹ کے طور پر استعمال کررہاہے۔
۳) جنگ اورانسانی حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے چارٹر، عالمی قوانین ، باہمی معاہدات اوراعلامیوں کو نظر انداز کردیاگیاہے۔ حتیٰ کہ عام انسانی اخلاقی رویّوں اوراصولوں کو بھی پامال کردیا گیا ہے۔
۴) عالمی طاقتوں کا موجودہ روّیہ اقوامِ متحدہ کے مداخلت کے حق کے صریحاًخلاف ہے۔ اب مداخلت کا اختیار بھی طاقت ور کو دے دیا گیا ہے، وہ خود ہی ملزم بھی ہے اورمنصف بھی۔
۵) ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کو بڑی عالمی طاقتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہیں اوراب یہ ’’دہشت گردی پر مبنی جنگ‘‘ بن چکی ہے۔
پروفیسر خورشید احمد احمد نے کہاکہ دہشت گردی کے نام پر شروع کی گئی اس جنگ نے دراصل دہشت گردی کو عالمگیر بنا دیا ہے۔ پوری دنیا کے عوام براہ راست یا بالواسطہ طور پر اس سے متاثر ہورہے ہیں۔خفیہ اور غیرقانونی حراستیں، عدالت سے ماورا جیلیں اورتعذیب خانے، لاپتہ افراد کے مسائل اور عالمی معاشی بحران اس جنگ کے عالمی نتائج ہیں۔
انہوں نے ریپریو اورانسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی دیگر تنظیموں اورقانونی سطح پر انسانی ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے کارکنوں اوروکلاء کو زبر دست خراجِ تحسین پیش کیا اوراس بات پر زور دیا کہ انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے کے لیے قانونی اورسیاسی ہردو محاذ پر آواز اٹھانے کی حکمتِ عملی وضع کی جائے۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ دنیا امن کا گہوراہ بن سکے اورمختلف نظریات، تہذیبوں اورمذاہب کے افراد مِل جُل کرامن چین سے رہ سکیں۔ انصاف کا حصول سب کے لیے ممکن اورآسان بنادیاجائے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹدیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے کہا کہ دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے انسانی حقوق کا مؤ ثر نفاذ ہی دہشت گردی کا اصل انسداد ہے۔بیسیویںصدی میں انسانیت نے سیاست، معیشت، سیکیورٹی اورانسانی حقوق کے حوالہ سے اقوامِ متحدہ کے چارٹر ، انسانی حقوق کے اعلامیہ، جنیوا کنونشن اوردیگر معاہدات اوراداروں کے قیام کی شکل میں جو پیش رفت کی تھی وہ اب دائو پر لگی نظر آرہی ہے۔
برطانوی تنظیم ’’کیج پرزنرز‘‘ کے نمائندے عاصم قریشی نے بتایا کہ پاکستان کے خفیہ اداروں نے محض شک کی بنیاد پر قانون سے بالا گرفتاریوںکے لیے پاکستان میں دو سوسے زائد خفیہ غیر قانونی حراستی مراکز کھول رکھے ہیں۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ غیر قانونی حراستوں کا معاملہ پرویز مشرف کے ساتھ ہی ختم ہوگیا لیکن موجودہ صدر زرداری کے دو ر میں بھی وہی پالیسیاں جاری ہیں۔
عاصم قریشی نے کہاکہ ان کی تنظیم کوشش کررہی ہے کہ ان قیدیوں کے اہل خانہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے حکومت کے ساتھ ان کی مفاہمت کروادی جائے۔ یہ مفاہمت اس بنیاد پر ہوسکتی ہے کہ ہم حکومت کو یہ ضمانت دینے کے لیے تیار ہیں کہ ان غیر قانونی حراستوں یا تشدد کے ضمن میں حکومت کے خلاف کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جائے گی۔ ہم صرف اپنے پیاروں کی واپسی چاہتے ہیں۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے متاثرین کی قانونی مدد کرنے والے وکیل مرزا شہزاد اکبر نے کہا کہ ہم ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی مددسے ڈرون حملوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے شواہد اکٹھے کررہے ہیں۔ کسی بھی مقدمے کی بنیاد حقائق اورشواہد پر ہوتی ہے۔ ڈرون حملوں میںہلاکتوں کے خلاف مقدمے کی تیاری کے سلسلے میںہم نے تمام حقائق جمع کرلیے ہیں اوراب شواہد اکٹھے کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ جوں ہی یہ شواہد جمع ہوگئے عدالتوں میںمقدمات قائم کردئیے جائیں گے۔ شہزاد اکبر نے بتایا کہ ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کے خاندان اپنے مقدمات کے اندراج کے لیے ان کے ساتھ رابطے کررہے ہیں اوراب تک ایسے خاندانوں کی تعداد پچیس ہوگئی ہے۔انہوں نے کہاکہ ان کے اندازے میں وہ دو سو کے قریب مقدمات مختلف عدالتوں میں دائر کریں گے۔
صوبہ بلوچستان کے سابق پولیس سربراہ طارق کھوسہ نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جس حکمت عملی کی ضرورت ہے اس کی تشکیل میں ابھی تک کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں کا خاتمہ عوامی، سماجی اورسیاسی تنظیموں کی کوششوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
جواب دیں