ڈیورنڈ لائن : مغالطے اور حقیقت
ریڈیو پاکستان کے نیوز ایڈیٹر اور نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل کے طالبعلم جناب لطف الرحمن کے ساتھ "ڈیورنڈ لائن: مغالطے اور حقیت” کے موضوع پر 4 جون 2010 کو ایک ان ہاوس سیشن ہوا جس کی صدارت افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیرجناب ایاز وزیر نے کی۔
لطف الرحمن نے نومبر 1893 کو کابل میں برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان ہونے والے سرحدی حدود کے معاہدے ” ڈیورنڈ لائن” کے حوالے سے پائے جانے والے مغالطوں کو واضح کیا۔ اور بتایا کہ شاید ڈیورنڈ معاہد دنیا میں سب سے زیادہ مسخ کیا جانے والا اور سب سے زیادہ غلط طور پر حوالہ دیا جانے والا معاہدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاہدے کی نوعیت اور قانونی حیثیت کے بارے میں افغانستان اور پاکستان کے عوام کی عدم واقفیت اور کچھ افراد کی جانب سے اس کے متعلق غلط معلومات کی مہم جوئی نے اس کے متعلق بہت سے غلط تصورات کو جنم دیا ہے۔
انہوں نے ان دعووں کو تفصیل سے بیان کیا جن میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ معاہدہ صرف ایک صدی کے لیے قابل عمل تہا۔ انہوں نے بتایا کہ معاہدے کے ساتوں شقوں میں ایسی کوئی معلومات نہیں۔ بلکہ شق نمبر دو افغانستان کو برطانوی ہندوستان کی شمالی آزاد ریاستوں ، جو کہ اب پاکستان کا حصہ ہیں، میں ہمیشہ کے لئے ہر طرح کی در اندازی سے روکتی ہے۔
انہوں نے پاک افغان سرحدی علاقے کی تاریخ اور برطانوی ہند اور افغانستان کے درمیان زمین کی تقسیم کے متعلق دیے جانے والے مختلف دلایل کا ذکر کیا۔ مقرر نے یہ بھی کہا کہ ” درحقیقت اس معاہدے کے تحت برطانوی ہند کا ایک بہت بڑا علاقہ افغانستان کے حوالے کر دیا گیا۔”
1949 میں افغان پارلیمنٹ کی جانب سے اس معاہدے کی منسوخی اور قانونا اس کے ناقابل عمل ہونے کے نظریے کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں نے سامعین کو یاد دلایا کہ بین الاقوامی قانون کے تحت کوئی بھی معاہدہ یا میثاق یک طرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔
اپنی تقریر کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے جناب لطف الرحمن نے کہا کہ یہ دونوں ملکوں "پاکستان اور افغانستان ” کے گہرے مفاد میں ہے کہ وہ ان غلط فہمیوں یا مغالطوں سے گریز کرتے ہوئے خطے کے امن اور استحکام کے لئے مشترکہ طور پر کام کریں۔
اس سیشن کا اختتام کرتے ہوئے اور اس مغالطے کے اسباب بیان کرتے ہوئے صدر مجلس جناب ایاز وزیر نے یہ واضح کیا کہ بد اعتمادی کے ماحول اور کچھ مخصوص لابیز نے دو برادرانہ اقوام کے درمیان طے شدہ مسائل کودانستہ طور پر اختلاف اور نزاع کے نکات بنا دیا ہے۔
اس نشست کی تفصیلی روداد پالیسی پرسپیکٹیوز، جلد 7، شمارہ نمبر 2 ، جولائی- دسمبر 2010 میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
جواب دیں