نیشنل اکیڈمک کو نسل کا سالانہ اجلاس
نیشنل اکیڈمک کو نسل (NAC) کا سالانہ اجلاس ۱۹ مئی ۲۰۱۰ ء کو ایف سکس تھری اسلام آباد میں واقع انسٹی ٹیوٹ کے نئے کیمپس میں منعقد ہو ا ۔ اکیڈ مک کو نسل انسٹی ٹیوٹ کی تحقیقی سرگرمیوں کے لیے رہنما خطوط کا تعین کرتی ہے نیز سال بھر میں ہونے والے اکیڈمک پروگرامات کا جائزہ اور آئندہ کے لیے تحقیقی پروگراموں کی فہرست کی منظوری دیتی ہے۔چیئر پرسن پرفیسر خور شید احمد نے پروگرام کے آغاز میں کو نسل کے ممبران کو خوش آمدید کہا، نیز انہوں نے کونسل ممبران کے علم اور ان کے تجربات سے اخذ کیے گئےثمرات کا تذکرہ کرتے ہوئے نیشنل اکیڈمک کو نسل کے ممبران کی طرف سے انسٹی ٹیوٹ کو رہنمائی فراہم کرنے کے سلسلے میں ان کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ انسٹی ٹیوٹ گزشتہ برسوں میں اپنے طے کردہ اہداف کو اسی فیصد تک حاصل کرنے میں کامیاب رہا ۔
ڈائریکٹر جنرل خالد رحمٰن نے انسٹی ٹیو ٹ کی سرگرمیوں اور کا رکردگی کا جائزہ پیش کیا ۔انہو ں نے اس جائزے کو پا نچ حصوں میں پیش کیا، یعنی: انسٹی ٹیو ٹ کا اجمالی جائزہ ، سال ۲۰۰۹ کے اہداف کا خلاصہ ، جنوری سے اپریل ۲۰۱۰ء تک کی سرگرمیاں ، ۲۰۱۰ء تا ۲۰۱۲ء کے لیے تحقیقی کام کا مجوزہ خاکہ اور انسٹی ٹیو ٹ کے نئے کیمپس کی تعمیر کے سلسلے میں ہو نے والی پیشرفت کا جائزہ۔
جناب اکرم ذکی نے انسٹی ٹیو ٹ کی مجموعی کا رکردگی اور مستقبل کے مجوزہ پروگرامات کے حوالے سے اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیا اور نئے کیمپس کی تعمیر کے لیے منصوبہ بندی پر آئی پی ایس کی قیادت کی تعریف کی۔انسٹی ٹیوٹ کے تحقیقی پروگرام کے لیے سفارشات کا ذکر کرتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے تصورات رُوبہ عمل لانے کے لیے ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں بہبود، ترقی اور انصاف ہو اور تمام افراد اور طبقات کے حقوق کی ضمانت موجود ہو۔اس ضمن میں انہو ں نے وسائل کی تقسیم کے حو الے سے اُس اتفاق رائے کو اطمینان بخش قرار دیا جو چند ہفتے پہلے کی گئی اٹھارویں دستوری ترمیم میں سامنے آیا ۔انہوں نے پارلیمنٹ کی اس بالادستی کی بھی تعریف کی جو حالیہ اٹھا رویں ترمیم کی منظوری کے بعد اصولی طور پر حاصل کی گئی ،انہوں نے یہ بھی کہا کہ مشترکہ قانون سازی کی فہرست (کنکرنٹ لسٹ) کی تنسیخ کے بعدصوبو ں کی ذمہ داریا ں بڑھ گئی ہیں ، اور آئی پی ایس اس میدان میں تحقیق اور مکالمے کے ذریعے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ سیکیورٹی سے متعلق آئی پی ایس کے ایجنڈے کے پس منظر میں انہوں نے دہشت گردی کی روک تھا م کے لیے طاقت کے استعمال کی مذمت کی اورواضح طو ر پر کہا کہ یہ مسئلہ قانون کی بالادستی اور سماجی ناانصافی کا خاتمہ کر کے ہی حل کیا جاسکتا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ تجویز دی کہ تحقیق کے ایجنڈے میں ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ سے رفاہی اسٹیٹ میں بدلنے کی سفارشات کی تیاری بھی شامل ہو نی چاہیے ۔انہوں نے مزید کہا کہ تحقیق کے لیے طے کیے گئے آئندہ کے منصوبے میں آئین پاکستان کے آرٹیکل ۲۸تا ۳۹ میں مذکور پالیسی اصولوں کی تنفیذکے حوالے سے سو چ بچار کا خصوصی اہتمام ہو نا چاہیے ۔قائدین اور پالیسی بنانے والے افراد کو ان پالیسی اصولوں پر عمل درآمد کی رپورٹ قانون ساز اسمبلی میں پیش کرنے کی ترغیب دی جانی چاہیے ، جو ابھی تک نہیں ہو سکاہے۔ پاکستان کے محصولاتی نظام پر بات کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ محصولا ت کا رائج الوقت نظام بالواسطہ محصولات کی شرح میں اضافے کا باعث ہے ، یہ ناانصافی پر مبنی ہے کیو نکہ ایک غریب امیر کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔
ڈاکٹر سعیدہ اسد اللہ خان نے جناب اکرم ذکی کی رائے کو دہرایا ، تحقیق ا ور رائے ساز ی میں طلبہ اور اساتذہ کے کردار کا حوالہ دیتےہوئے انہوں نے تجویز کیا کہ انسٹی ٹیوٹ کومشترکہ طو ر پر کیے جانے والے پروگراما ت میں اپنے آپ کو مختلف یو نیورسٹیز کے ساتھ منسلک کرنا چاہیے ۔ انہوں نے ادارے میں خواتین سیکشن کے قیام کی تعریف کی اور مستقبل میں اس کی استعداد بڑھانے کی خو اہش کا اظہا ر کیا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ)اسد درانی نے موجودہ سیاسی نظام کے بہتر نعم البدل کے طور پر اسلامی سیاسی نظام کے مطالعے کی اہمیت کو اجاگرکیا ۔
پالیسی ضوابط کے حو الے سے بات کر تے ہو ئے سابق سفارت کا ر رستم شاہ مہمند نے تجویز دی کہ غربت کم کرنے ، معاشی پیداوار بڑھانے ، معیاری تعلیم اور انسانی وسائل کو منظم کر نے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے اداراتی سطح پر میڈیا ، سیاست دانوں ، بیرونی پالیسی سازوں اور مختلف جامعات کے ساتھ تعلقا ت بڑھا نے کی ضرورت پر زور دیا ، انہوں نے کہا کہ پاکستان کوبھارت کے ساتھ برابری کی سطح پر دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا چاہیے ۔انہوں نے تجویز دی کہ آئی پی ایس کو امت مسلمہ کے تصو ر کے مطابق مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔اس موضو ع کو میڈیا میں اجاگر کر نا اور پالیسی سازوں تک پہنچانا لازم ہے ۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جناب امان اللہ خان نے تجویز دی کہ آئی پی ایس کو زراعت سے متعلقہ پالیسوعں کی تحقیق پر بھی توجہ دینی چاہیے ۔قازخستان کے حو الے سے آئی پی ایس کی تحقیق اور سیمینار کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وسطی ایشیا کے باقی ممالک پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین پانی کے مسئلے پرکی گئی تحقیق پر بھی اپنے تاثرات پیش کیے ۔
ڈاکٹر ایس ایم زمان نے پاکستان کے قرضو ں کے محرکا ت کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا جن کا پاکستان کئی عشرو ں سے سامنا کر رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ سوات اور قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کی عقلی توجیہہ کو سمجھنے اور اس ضمن میں دہشت گردی کی تعریف کی بھی ضرورت ہے ۔ بعض متنازع افکار جنہیں ایک مخصو ص طبقے نے قبو ل کیا ان کا تذکرہ کرتے ہو ئے ڈاکٹر ایس ایم زمان نے یہ تجویز دی کہ آئی پی ایس کو نظریہ پاکستان کو مضبوط کرنے کے لیے ابتدائی اقدامات اٹھا نے چاہییں ۔انسٹی ٹیوٹ کی ابتدائی مطبوعات __ جن میں پاکستان میں تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے سفارشات پیش کی گئی ہیں __ پر اطمینا ن کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے تجویز دی کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں پڑھا ئے جانے والے نصاب کی جانچ پڑتال کے لیے ایک سیل قائم کیا جا نا چاہیے ۔
علامہ ریاض حسین نجفی نے عامۃ الناس کے ساتھ مساجد اور مدارس کے گہر ے اور مضبوط تعلق کا حوالہ دیا ،ا نہوں نے کہا کہ معاشر ے میں برداشت کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں علماء کا کردار انتہائی اہم ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سیاسی قیادت کی غیر اخلاقی حرکات کی مثالیں معاشرے کے لیے کو ئی نیک شگون نہیں ہیں ۔سیاسی قیادت پر بھی لازم ہے کہ وہ اخلاق کے حوالہ سے حساس ہو تاکہ معاشرہ تنزلی کا شکار نہ ہو۔
سینیٹر ایس ایم ظفر نے ملک میں جمہوریت کے دوام کے لیے مضبوط اداروں کے قیام کی ضرورت پر زور دیا ۔پاکستان میں سول سوسائٹی کے حالیہ بڑھتے ہو ئے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے تجویز دی کہ تحقیق اور تجزئیے کے لیے یہ ایک اہم موضو ع ہے۔ اس کی ساخت ، کردار اور دوسرے محرکا ت کامطالعہ کیا جا نا چاہیے تاکہ اس ابھرتے ہو ئے منظر نامے کے بارے میں شعور اجاگر ہو سکے ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو بااختیار بنانا اٹھارویں ترمیم کی سب سے مثبت پیشر فت ہے ، اس ضمن میں سول سوسائٹی کی الیکشن کمیشن سے وابسہس توقعات کو سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے اور وہ آنے والے برسوں میں پاکستان میں صوبوں کی تعداد کو بڑھتا ہو ا دیکھ رہے ہیں۔اس سلسلے میں انہوں اس معیار کے تجزیے کی ضر ورت پر زوردیا جس کی بنیاد پر نئے صو بے بنائے جاسکتے ہیں ،اور آئین میں کی جانے والی ان ترامیم کے جائزے کی ضرورت پر بھی زور دیا جو اس طرح کی تبدیلی کے لیے لازمی ہو تی ہیں۔انہوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری امن کی کوششوں میں فعالیت کی اہمیت اجاگر کی ،اور اس توقع کا اظہار کیا کہ آئی پی ایس میں اس حوالے سے تحقیق اور مکالمے کا عمل جاری رہے گا ۔انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ مشترکہ قانون سازی کی فہرست کے خاتمے سے صوبو ں کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں، تو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے جو ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مدد فراہم کریں۔ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیار وں کے پروگرام، نیز پاکستانی معاشرے میں خواتین کے باعزت مقام اور انسانی وسائل کی ترقی میں ان کے کردار سے متعلقہ موضوعات کو بھی ایجنڈے میں شامل کرنے کی طرف متوجہ کیا۔
انسٹی ٹیوٹ کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے جناب شمشاد احمد خان نے کہا کہ آئی پی ایس صحیح سمت میں محو سفر ہے ۔نئے صوبوں کے قیام سے متعلق ملک میں جاری بحث کے حو الے سے انہوں نے یہ مو قف اختیار کیا کہ یہ ملک کےنسلی یا لسانی گروہوں کا مطالبہ ہے ، تاہم انتطامی سیٹ اپ میں اس طرح کی تبدیلی کی ضرورت نہیں ۔درحقیقت اس طرح کی تبدیلی کرپشن کے مسائل میں اضافے اور دیگر بے ضابطگیوں کا باعث بنتی ہے۔ انہوں نے ان چیلنجز کے حو الے سے اپنے خدشات کا اظہا ر کیا جو پاکستا ن کو مختلف اطراف سے درپیش ہیں ،تاہم انہوں نے تر قی کی راہ پر گامزن ہو نے کے لیے آئی پی ایس میں داخلی موضو عات پر زیادہ توجہ مرکو ز کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ اگر ہم اند ر سے مضبو ط ہوئے تو کوئی بیرونی طا قت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔
ڈاکٹر انیس احمد نے کامیاب تر قی یافتہ نمونوں سے سیکھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ، اس ضمن میں انہو ں نے ترکی کے ساتھ ساتھ ملائشیا کو بھی تحقیق کے ایجنڈے میں شامل کرنے کی تجویز دی۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی شعبےمیں تحقیق پر بھر پور توجہ کی ضرورت ہے ۔نوجوان نسل کے عسکریت پسندی کی طر ف بڑھتے ہو ئے رجحان پر خدشا ت کا اظہا ر کرتے ہو ئے انہوں نے واضح کیا کہ اس رجحان میں اضافے کا باعث بننے والے عوامل کا علمی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔عورت کی معاشی آزادی کے پس منظر میں اٹھنے والی آوازوں کے ضمن میں ڈاکٹر انیس احمد نے مضبو ط خاند انی نظام کی اہمیت پر متوجہ کیا اور کہا کہ دونو ں کے مابین توازن بر قرار رکھنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے یہ سفارش کی کہ تحقیق ایسے رخ پر ہونی چا ہیے جس میں ان عناصر کا اندازہ لگایا جائے جو اس توازن کو بگاڑنے میں بنیا دی کردار ادا کر رہے ہیں۔ تحقیق اور پیش کش کے میدان میں عالمی معیار تک پہنچنے کے لیےانہوں نے معیار میں بہتری لانے کے لیے ایک خصوصی سیل (Quality Enhancement cell ) کے قیام کا تصو ر پیش کیا ۔ اور آنے والے برسوں کے لیے مجوزہ تصورات کے حو الے سے بعض ہیئتی تبدیلوں کی تجویز بھی دی ۔
بیرسٹر سعدیہ عباسی نے تجویز دی کہ انسٹی ٹیوٹ کو اپنی تحقیق کا رخ پاکستان کے سیاسی اور اقتصادی اداروں کی طرف بھی موڑنا چا ہیے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو عروج حاصل کرنے کےلیے خو د اپنے داخلی وسائل پر بھروسہ کرنا ہو گا ۔
پاکستان میں طلبہ سیاست میں سیاسی پارٹیوں کے کردار پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے ڈاکٹر انوار حسین صدیقی نے کہا کہ بد قسمتی سے تما م بڑی پارٹیوں کی طرف سے طلبہ یونیز کی حوصلہ شکنی کے با وجود انہی پارٹیوں کی آشیر باد پر طلبہ سیاست روز برو ز بڑھ رہی ہے ، اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ اگر اسے قانونی حیثیت دینی ہے تو پھر فیصلہ کرنے والے فورم پر ضابطہ اخلاق طے کیا جائے ۔پارلیمنٹ میں خواتین کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے تجویز دی کہ انتخابات کا نظام ایسا شفاف ہو نا چاہیے کہ صرف اہل خواتین ہی پارلیمنٹ تک پہنچ سکیں ۔
ڈاکٹر رفیق احمد نےتجویز دی کہ انسٹی ٹیوٹ کو کرپشن کے حو الے سے منظم اور با قاعدہ تحقیق کرنی چاہیئے ۔میکرو اکنامک استحکا م کے نظریے کی حو صلہ شکنی کرتے ہو ئے انہوں نے رفاہی بجٹ کے نظریے سے اتفاق کیا ۔ انہوں نے پاکستان کی سماجی حرکیات کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ__ جن میں سول سوسائٹی، حکومت اور نوجوانوں کے رویوّں وغیرہ کا مطالعہ شامل ہے __ ہندوستان کی حکومت اور معاشرہ کے مطالعہ کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
جناب فصیح الدین نے اپنے تجزئیے کو قومی ، علاقائی او ر عالمی تین اجزا میں پیش کیا ۔ قومی سطح پر انہوں نے تین تجاویز دیں ،(الف) ، قومی مالیاتی ایوارڈ (NFC) کا پیشہ ورانہ تجزیہ کیا جا نا چاہیے ، (ب)،اٹھارویں ترمیم ، بطور خاص مشترکہ قانون سازی کی فہرست کے خاتمے کے مضمرات کا جائزہ لیا جائے ، (ج) غربت اور ترقی کےتصورات کو قومی سطح کی تحقیق کے ایجنڈے میں شامل کیا جائے ۔ علاقائی تناظر میں انہوں نے تجویز دی کہ مختلف ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر صلاحتیں صرف کرنے کی بجائےا صل توجہ وسیع تر تناظر میں علاقائی حرکیات پر ہونی چاہیے ۔عالمی تناظر میں پر بات کرتے ہو ئے ان کا خیال تھا کہ عالمی تجارتی تنظیموں اور عالمی اقتصادی بحران کو تحقیق کے ایجنڈ ے میں شامل کیا جانا چا ہیے ۔
ڈاکٹر انعام الرحمٰن نے تجویز دی کہ جو جذبہ قیا م پاکستان کے وقت دیکھنے میں آیا تھا اسے دوبارہ سے زند ہ کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ معاشرتی ناانصافی کے خاتمے کے لیے بامقصد اقدامات کی ضرورت ہے ۔
ڈاکٹر عدنان سرور خان نے معاشرتی زوال کے حوالے سے معاشرے میں عمومی طور پر پائی جانے والی بے حسی کا تذکرہ کیا تاہم ان کا خیا ل تھا کہ اس کے باوجود کسی بھی طرح کے حالات میں مایوس نہیں ہو نا چاہیے ۔ ڈیورنڈ لائن اور ہندوستان چین سرحد کی مثال پیش کرتے ہو ئے انہوں نے تحقیق کے ایجنڈے میں سرحدوں کے مسائل کے حوالے سے کچھ مو ضو عات شامل کرنے کی تجویز دی ۔
عورت کی معاشی آزادی کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عفت ڈار نے کہا کہ مرد کے حصو ل معاش کےکردار کے مقابلے میں عورت کا رویہ پاکستان کے سماجی نظام میں کو ئی تعمیری کردار ادا نہیں کر رہا ۔
مسائل کے حل کے لیے جمود کے بجائے عملی اقداما ت پر توجہ دینے کا ذکر کرتے ہو ئے جسٹس فدا محمد خا ن نے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے تین اداروں تعلیم ، میڈیا اور مسجد کے کردار کی اہمیت کو اجا گر کیا اور تجویز دی کہ تحقیق میں ان تین اداروں پر بھی توجہ ہو نی چاہیے ۔
اختتامی گفتگو کرتے ہو ئے پروفیسرخو رشید احمد نے اجلاس میں کو نسل ممبران کی عملی اور بھر پو ر شرکت ، اور ان کی طرف سے دی جانے والی تجاویز پرشکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ ان تجاویز سے فائدہ اٹھا نے کی ہر ممکن کو شش کرے گا ۔ ماہرین کی مسلسل آراء کی ضرورت پر زور دیتے ہو ئے انہوں نے کہا کہ کو نسل کا اجلاس تو سال میں ایک با ر ہوتا ہے تاہم شر کا ء سے امید ہے کہ وہ ادارے کے جا ری پروگرامات کے حو الے سے بھی اپنی ماہرانہ آراءسے وقتاً فوقتاً مستفید کرتے رہیں گے ۔
نوعیت: علمی نشست کی روداد
جواب دیں