اشتہا ر میں عورت کا استعما ل اور پيمرا
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز میں صنف کے مسائل کے مطا لعے کے لیےقائم اسٹڈی گروپ کے تحت ” عورت اور میڈیا ” کے خاص موضوع کے علمی احاطے کے لیے چوتھی نشست منعقد ہو ئی۔جس میں اہل علم خواتین و حضرات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ جناب خالد رحمٰن نے صدارت کی۔ اس نشست میں محترمہ فہمیدہ ملک نے میڈیا کی تشہیر میں عور ت کی نمائندگی کے حو الے سے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ( پیمرا) آرڈینینس ۲۰۰۲ ء کے تحت تشکیل دئیے گئے قوانین کے بارے میں اپنا حاصل مطالعہ پیش کیا ۔
محترمہ فہمیدہ ملک نے اپنے مقالے کے آغازمیں آج کی دنیا میں میڈیا کی اہمیت، معیارات کے تعین میں اس کےانتہائی مؤثر کردار ، اقدار کی تشکیل اور روایتی ذہنیت کو چیلنج کر نے کے رول کا ذکرکیا ۔وہ اس حقیقت کو بھی سامنے لائیں کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈ یا کی تشہیر سامعین اور ناظرین کےاذہان پر دیگر طریقوں کی نسبت زیادہ اثرات مر تب کرتی ہے ۔
تشہیر محض مصنوعات کی فروخت کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعےتصورات، اقدار اوراعتقادات بھی فروخت کیے جاتے ہیں۔وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم کون ہیں اور ہمیں کیسا بننا اور اپنی زندگیاں کیسے بسر کرنی چاہییں۔تشہیر کی صنعت نے ناظرین کی آنکھو ں کو خیرہ کرنے کے لیےعورت کو بطور آلہ اور ذریعہ استعمال کیا۔ اشیاء اور خدما ت کے سستے داموں استعمال کی ترغیب وتحریص کے لیے نیم برہنہ لبا س میں ملبوس خو ش شکل خواتین کا بطور آلہ استعما ل ایک گھٹیا اور عالمی سطح پر مستعمل طریقہ تشہیر ہے ۔
خواتین کو با ر با ر ایسی چیزوں کی فروخت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن سے انہیں کو ئی سروکار نہیں ہو تا ۔پردہ اسکرین پر جاذبیت میں اضافے کے لیے عورت کے استعمال اور اسے مال تجارت کے مساوی کر دینے سے اس کی عزت نفس ختم ہو جا تی ہے جواس کی ماتحت والی حیثیت کو تقویت دیتی ہے اور معاشرے میں اس کےدانش ورانہ اورتعمیری کردار کی وقعت کم کر دیتی ہے ۔
مقالہ نگا ر نے ۲۰۰۲ ء کے پیمرا آرڈی نینس معہ پیمرا ترمیمی آرڈی نینس ۲۰۰۷ ء کا جائزہ پیش کیا اور شر کاء کو بتایا کہ یہ ادارہ میڈیا کو نشریات کا لائسنس جاری کرنے کا کا م کرتا ہے ۔یہ ادارہ لائسنس کے لیے ناگزیر چیزوں کو واضح کرتا ہے جن میں نشر ہونے والے پروگراما ت اور اشتہارات کے حوالے سےقواعد وضو ابط شامل ہیں ۔پیمرا قوانین کے تحت کسی بھی پروگرام کے مشتملات ،ا س کے بنیادی خاکے اور تصورات کی رہنمائی کے لیے قواعد وضع کیے گئے ہیں۔آرڈینیس میں الیکٹرانک میڈیا میں نشر کیے گئے پروگرامات کے مندرجات پر عوامی حلقوں کی جانب سے اٹھا ئے گئے اعتراضات کو جاننے اور قواعد پر عمل درآمد کے لیے مجالس شکایا ت (کونسلز آف کمپلینٹس) بھی قائم کی گئی ہیں ۔میڈیا کی تشہیر اور کیبل ٹی وی آپریٹرز کے بارے میں پیمرا کے ضابطہ اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ بدکاری کی حوصلہ افزائی کرنایا کسی بھی طریقے سے بےشرمی پر ابھارنا، شہوانی جذبات بھڑ کانا اور غیراسلامی اقدارکو فروغ دینے کی کسی بھی تشہیر کی اجازت نہیں ہے ۔ ہر قسم کا ایسامواد جو گھر ،خا ندان اور شادی کے تقدس کو پامال کرے یا غیر شائستہ ، فحش یا توہین آمیز خیالات اور برتاؤ پر مشتمل ہو وہ بھی ممنوع ہے ۔اسی طرح ایسی تشہیر جو نظریہ پاکستا ن اور اسلامی اقدار کے منافی مواد پر مشتمل ہو اس کی بھی اجازت نہیں ہے ۔اس قانون کے تحت تشہیر کرنے والا اپنی تشہیر کو آئین پاکستان اور ملکی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے اس انداز میں ترتیب دے کہ اس میں اخلاقیا ت ،شائستگی اور پاکستان کے مذہبی طبقات کے جذبات کی توہین کا کوئی پہلو نہ ہو ۔ معاشر ے کی اخلاقیات اور شائستگی کی طر ح کی ثقافتی اقدا ر کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے انہوں کہا کہ پاکستانی معاشرہ ان اسلامی تصورات کا مرکب ہے جو عورت کو عروج تک لے جاتے ہیں اور ایسے نظریات کو تقویت دیتا ہے جو ان کو عزت نفس عطا کرتے ہیں۔اس طرح عورت کا معاشرے میں مرتبہ اور اس کی نمائندگی ہر طرح کے حالات میں احترام اوروقارکا موجب ہونی چاہیے ۔
تشہیر کے ضابطہ اخلاق کو ملکی آئین سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت کا حوالہ دیتے ہوئے انہو ں نے یہ بات دہرائی کہ آئین پاکستان کا دیباچہ اور اس کے ساتھ ساتھ آئین کا آرٹیکل ۳۱ حکومت کو اس بات کا پابندبناتا ہے کہ وہ ایسے اقدامات اٹھا ئے جو پاکستان کے مسلمانوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ اپنی انفراد ی اور اجتماعی زندگیا ں اسلام کی تعلیمات کے مطابق قرآن اور حدیث میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں بسر کریں ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قرآن کو دستور زندگی کے طور پر اپنائے جانے کے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرے اور اس کے خلاف ہر طرح کے اقدامات ، کوششوں اور بیانات کی حو صلہ شکنی کرے ۔
ایسے متعدد اشتہارات کی نشاندہی بھی کی جاسکتی ہے جو خاندان کے رشتہ سے ماوراء عورت اور مرد کی دوستی کا پرچار کرتے ہیں جو اس ضابطہ اخلاق کی واضح خلاف ورزی ہے ۔ چونکہ سماجی ناانصافیوں کا فروغ خلاف قانون ہے اس لیے معاشر ے میں مرد کی غیر منصفانہ حصہ داری اور بالا دستی کو فروغ دینے والے خیالات اور اقدامات کی بھی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے ۔
محترمہ ملک نے پیمرا آرڈینینس میں طے کیے گئے رہنما اصولوں کا پریس لاء آف ایران ، انڈین ایڈورٹائزنگ لاء ، کینیڈین ٹیلی ویژن براڈکاسٹنگ ریگولیشن اور ترکی کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو منظم کرنے کے لیے بنائے گئے قانون کے ساتھ مو ازنہ کیا ۔ان تما م قوانین میں اپنے اپنے نظام عدالت کے مطابق کاروباری اشتہارات کے حو الے سے کچھ ہدایات اور حدود متعین کی گئی ہیں۔
پریس لاء آف ایران کی منظوری ۱۹ مارچ ۱۹۸۶ ءکو ہوئی اور ۳۱ جنوری ۱۹۸۷ ءکو اس کی انتظامی شقیں پا س ہو ئیں ، ان میں بے حیائی کے فروغ اور مذہبی طور پر ممنوع اقدامات کے پرپیگنڈہ کی ممانعت کی گئی ،اور غیر مہذب مواداور تصاویر کی اشاعت اور عوام کے ذوق سلیم کو زک پہچانے والے مواد کی تشہیر پر سزا کا تعین کیا گیا ۔
انڈین ایڈورٹائزنگ لاء میں کہا گیا ہے کہ کسی ایسے اشتہار کو شائع کرنےکی اجازت نہیں ہو گی جس میں عورت کے تحقیر آمیز امیج کو سامنے لایا جائے ۔ خواتین کی ایسی تصویر کشی نہیں ہونی چاہیے جوخاندان اور معاشرے میں ان کے ماتحت اور ثانوی حیثیت کے کردار کی حو صلہ افزائی کا باعث ہو۔کیبل آپریٹر اس با ت کی ضمانت دینے کے پابند ہیں کہ وہ کیبل پر نشر ہونے والے اپنے پروگرامات میں خو اتین کی ایسی نمائندگی کریں گے جو ذوق سلیم اور شائشتگی کے معیا رات پر پو ری اترتی ہو ں۔
انڈیا کے کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورک ریگولیشن ۱۹۹۵ء کی سیکشن ۶ میں طے کیا گیا ضابطہ اشتہارات میں غیر مہذب ، بازاری ، بُرے خیالات پیدا کرنے والے ، نفرت انگیز اور توہین آمیز تصورات اور سلوک کی تشہیرسے احتراز کا پابند کرتا ہے۔ اسی طرح کینڈین ٹیلی ویژن براڈکاسٹنگ ریگولیشن ۱۹۸۷ ءمیں بھی فحش یا توہین آمیززبان کا استعمال یا اس طرح کی تصویری پیشکشیں ممنوع ہیں۔
ترکی کا قانون برائے قیام ریڈیو اور ٹیلی ویژن اور ان کا ۱۹۹۴ ء کا نشریاتی قانون نمبر ۳۹۸۵ بھی نشریاتی ادارے سے یہ مطالبہ کرتاہے کہ اس کی نشریات فحش نہ ہوں اورنہ ہی تشدد کی حو صلہ افزائی کرنے والی یا خواتین ، بچوں اور کمزورطبقات کے خلاف امتیازی رویہ کو فروغ دینے والی ہو ں ۔
پاکستان، انڈیا ، کنیڈا ،ترکی اور ایران میں تشہیر سے متعلق قوانین کا تقابل پیش کرنے کے بعد محترمہ فہمیدہ ملک نے وضاحت کی کہ بے حیائی اور عورت کی استحصا لی نمائندگی کے حوالے سے سیکولر اور اسلامی جمہو ری ممالک کے قوانین میں ایک جیسی شقیں پائی جاتی ہیں۔تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مذکورہ پانچ میں سے چار ممالک کے مشتہرین نے ان قوانین کو محض دکھا وے کے لیے رکھا ہواہے ،اپنے ان قوانین پر عمل نہیں کیا جا رہا ، البتہ ایران میں یہ قوانین صرف صفحات پر نہیں بلکہ عملاً بھی نافذ ہیں ۔
ایران میں قوانین کے نفاذ کو ان کی اصل روح کے ساتھ ممکن بنایا گیا ہے ،کیونکہ وہا ں کے پریس لاء ،قوانین ، اقداراور ضوابط کو حکومت اور معاشرہ مل کر فروغ دیتے ہیں او ربرقراررکھتے ہیں۔اخلاقیا ت اور اخلاقی اصولوں کو ایک مربو ط نظام کے ذریعے محفوظ بنایا گیا اور فروغ دیا گیا ،اور لباس کے قانو ن کے معاملے کو محض میڈیا پر اس کی نمائندگی تک محدود نہیں کیا گیا بلکہ روزمرہ کی زندگی میں عورت اور مرد نے اس کو عملاً اپنایا ہے۔پو رے ملک میں لبا س کے قانو ن کے مطابق ،جو انقلاب ۱۹۷۹ء میں نافذ کیا گیا تھا ، لازم قرار دیا گیا ہے کہ بلو غت کے بعد ہر عورت اپنے گھر سے با ہر اور نامحرم مردوں کی موجودگی میں اپنے بالوں کو ڈھانپ کر رکھے گی اور جسم کو چھپانے کے لیے کھلے کپڑے پہنے گی۔ہمارے ہاں قانون اور اس کے نفاذ کے نظا م کی اصلاح کے حوالے سے تجاویز دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ضابطہ قانون کو عورت اور مر د کے لیے لباس کی تشریح کرنی چا ہیے جو ثقافت اورحقیقی معاشرتی زندگی کی عکاسی کرتا ہو اور جو معاشرےمیں دور دور تک رائج عمومی اور عملی روایات اور اقدار کے مطابق ہو۔ حکو مت کو تما م ملکی قوانین کی عمل داری یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور عوامی شکایات کے ازالے کے لیے ضوابط اور طریقہ کار کو آسان بنانا چاہیے ۔ مجلس شکایات (کونسل آف کمپیلنٹس ) کو عوامی شکایات کے با رے میں زیادہ حساس اور ذمہ دار بنانے کے لیے اسے پیمرا آرڈینینس ۲۰۰۲ ءکی سیکشن ۶ کے تحت تشکیل دینے کی ضرورت ہے ۔ پولیس اوروفاقی تحقیقا تی ادارہ (FIA)کو میڈیا پر عورت کی استحصا لی اور غلط نمائندگی کی نگرانی کو زیادہ مستعدی سے کرنے کےلیےاختیارات دیئے جا سکتے ہیں۔اس بات پر زور دیتے ہو ئے کہ ایک بڑے طبقے کو شعور اور تعلیم سے آراستہ کرنا تبدیلی کی کلید ثابت ہو سکتی ہے ،انہوں نے تجویز دی کہ سماجی سطح پر میڈیا واچ گروپ تشکیل دئیے جائیں جو میڈیا کے کام کا جائزہ لیں اور عوامی نکتہ نظر کومناسب فورم تک پہنچائیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ میڈیا تنظیموں اور افراد کو ایسی تصاویر اور کردار سامنے لانے چاہییں جومرد اور عورت کے مابین خوشگوار تعلق کو فروغ دیں ،ایسا تعلق جو معاشرے کی بہتری کے لیے دونوں کے کردار کی تکمیل کرے نہ کہ دونوں کے مابین مقابلے بازی کی فضاپیدا ہو ۔انہوں نے میڈیا سے کہا کہ وہ عورت کی ایسی تصویر سامنے لائے جو زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کے ہمہ جہتی مضبوط کردار پر روشنی ڈالے ، نیز انہوں نے سماجی زندگی کے دائروں میں عورت کےتشہیر اور تصاویر کے ذریعے حسن کی نمائندہ کےطور پر استعمال کو روکنےکا مطالبہ کیا ۔اس گفتگو کے دورا ن شرکاء نے میڈیا میں عورت کی منفی نمائندگی پر اپنے خدشات کا اظہار کیا، انہوں نے واضح کیا کہ عام پاکستانی عورت کو اس کے میڈیا میں پیش کی جانے والی تصویر سے منسلک نہیں کیا جا سکتا ۔ میڈیا میں اسے ان اشیا ء اور خدمات کی فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے جن کا عورت کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں ہوتا ۔یہ رائے بھی سامنے آئی کہ ایک منظم اور مربو ط منصوبے کے ذریعے معاشرے کے کردار کو تبدیل کرنے اور غیر ملکی تصورات کو میڈیا کے توسط سے ذہن نشین کروانے کی با قاعدہ کوششیں کی گئیں۔
قوانین کے نفاذ کی پیچیدگیوں کا بھی گہرائی سے جائزہ لیا گیا ۔یہ محسوس کیا گیا کہ قوانین کی تدوین آئین کی اصل روح اور لوگوں کے احساسات کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے ، پالیسی بنانے والے اورقانون ساز اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ اس ضمن میں کسی قسم کی بے توقیری عوامی غم وغصے کو دعوت دینے کے مترادف ہو گی ، لیکن ایسے قوانین جو شہریوں کی زندگی کو ملکی ضابطہ کا ر کے مطابق ڈھالنے کی تلاش میں ہیں ان کے نفاذ سے تاحا ل دانستہ صرف نظر کیا گیا ۔ اگر آئین ، دستور اور قانون میں ضوابط کی بالادستی کے متعلق سیاسی ارادہ موجود ہو تا تو موجودہ قانون میڈیا میں عورت کے حقوق او ر اس کی عزت کے خلاف ہو نے والی بےاعتدالیوں کو روکنے کے لیے کا فی ہوتا۔
اخلاقیات ، شائستگی اورآوارگی کی طرح کے الفاظ کے معنی اور ان کی وسعت کو متنازعہ بنادیا گیا جو قانون پر عمل درآمد کے راستہ میں رکاوٹ بنا۔درحقیقت یہ تما م اصطلاحات عوامی مباحث میں واضح اور متعین معنی رکھتی ہیں اور معاشرے کے ایک بڑے طبقے کے ہاں کسی ابہام کے بغیر استعمال ہوتی ہیں۔ہر طرح کے شکوک کو دور کرنے کے لیے یہ تجویز دی گئی کہ عوام کو چاہیے کہ وہ ان چیزوں کا تعاقب کریں اور اپنے متعلقہ موضوعات پر اپنے خدشات کے بارے میں آواز بلند کریں ۔یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ان پروگرامات کے مندرجا ت اور اشتہارات کے بارے میں دور دور تک پھیلی ہو ئی نفرت اور ناگواری کے خلاف عمل درآمد کے لیے متعلقہ اداروں تک کو ئی رسائی نہیں کی جاتی ۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی اس طرح کی نازیبا نشریات پر خاموشی ان کی طرف سے قبولیت سمجھ لی جا تی ہے او ر بے حیائی کے فروغ کا یہ دائرہ مزید وسعت اختیار کرتا جاتا ہے ۔اس بات پر زور دیا گیا کہ عورت کے استحصال کے معاملے پر لوگوں میں حساسیت پیدا کرنے اور اس سلسلے میں عامۃ الناس میں شعور بیدار کرنے کے لیے عوامی کوششوں کو منظم کرنے کی ضرورت ہے ۔اس سلسلے میں ایک طرف حکومت کو لوگوں کو اپنی شکایات بہ آسانی پہنچانے کے لیے مجالس شکایا ت قائم کرنی چاہییں جن کے دفاتر ہر ضلعی ہیڈ کو ارٹر میں قائم ہوں اور عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی شکایات پو ری آزادی کے ساتھ بار بار ان دفاتر میں درج کروائیں۔اس کے ساتھ ساتھ عوامی فورمز پرآواز بلند کرنے ، خطوط اور اخبارات میں مضامین لکھنابھی ان ناپسندیدہ چیزوں کو روکنے میں معاون ہو سکتا ہے ۔
اس بات کو بھی واضح کیا گیاکہ کئی اور قوانین بھی ہیں جنہیں استعما ل میں لا کر عوام کے اخلاقیا ت کو تباہ کرنے اور معاشرے کے لیے ضرررساں اقدامات کو روکا جاسکتاہے ۔پاکستان پینل کوڈ کی دفعات ۲۹۲، ۲۹۳ اور ۲۹۴ کے مطابق بے حیائی پر مشتمل مواد یا اس تک لے جانے والی ہر چیز کی پیداوار ، فروخت ،تقسیم اور نمودو نمائش قابل سزا جرم ہے اسی طرح اس قسم کے مواد کی تشہیر اور درآمد وبرآمد بھی غیر قانونی ہے ۔یہ تمام نقصان دہ چیزیں زیر بحث لانے کی ضرورت ہے ان سے پہلو تہی نہیں کی جاسکتی ۔یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ میڈیا کی ہیئت میں آنے والی تبدیلیوں کا احاطہ کرنے کے لیے ان دفعات کے الفاظ کو زیادہ مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل جناب خالد رحمٰن نے سیشن کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ قوانین اور پالیسیوں کی عدم تنفیذ ہماری قومی زندگی کے بیشتر شعبوں کا مسئلہ ہے ، انتظامی معیار کو ہر شعبے میں بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے قومی اسمبلی میں دئیے گئے بیان میں خوداعتراف کیا کہ ملک میں بہت سے ٹی وی اور ریڈیو چینلز ایسے ہیں جو بغیر لائسنس نشریات جاری رکھے ہو ئے ہیں اور میڈیا کی طرف سے ان پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو نہیں کیا گیا ۔اس حوالے سے قوانین کو مورد الزام نہیں ٹھیرایا جاسکتا ۔اس صورت حال میں عوام کو آگے آ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور "میڈیا واچ گروپ "کے فورم پر اجتما عی اور انفرادی ہر حیثیت میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہیے ، اور اصل فورم اور اصل چینلز کے ذریعے یہ با ت سامنے آنی چاہیے کہ پاکستانی معاشرے کےلوگ درحقیقت سوچ کیا رہےہیں؟ لوگوں کو بھی اس با ت کی آگاہی ہونی چاہئے کہ وہ اپنی رائے کوکس طریقے سے درج کروا سکتے ہیں۔
معاشرے میں متعدد عناصر ہیں جنہوں نے مختلف سماجی نظریا ت پر اپنی رائے کا مؤثر اور بے باکانہ اظہا رمیں ایک خاموش اکثریت کی ترجمانی کی ہے ۔حقیقت اس تصور کےبرعکس ہے۔اہل فکر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خود اس بارے میں آواز بلند کریں ۔معاشرتی ساخت اور ملکی اقدار اور عقائد کا ادراک کیے بغیر معاشرے میں غیر ملکی نظریات کی پیوند کا ری معاشرے کی صورت بگاڑ دیتی ہے اور اس کے نتیجے میں منفی تبدیلی رونما ہوتی ہے ۔
خواتین کے مثبت کردار کا اظہار بھی میڈیا کی مطبوعات اور نشریات میں مکمل ناپید نہیں ہے ۔بہت سارے اشتہارات ایسے ہیں جو قومی زندگی میں عورت کے مثبت کردار کو طاقتور ، مضبوط اور آبرو مندانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔اس طرح کے اقدامات کی تحسین اور حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بڑے تجارتی گروپ اپنی تشہیری پالیسی میں صحت مندانہ تبدیلیوں کو قبول کرنے کےلیے تیا ر ہو سکیں تو تبدیلی لازماً آئے گی اور اپنا اثر دکھائے گی ۔
جناب خالد رحمٰن نے وضاحت سے یہ بات کہی کہ اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو عورت کی منفی تصویر کشی معاشرے کے تمام طبقات حتیٰ کہ ان افراد اور جماعتوں کے بھی خلاف ہے جو لبر ل سوچ اور تصورات کی طرف میلان رکھتی ہیں۔اس سے یہ امکان بھی پیدا ہو ا ہے کہ مختلف پس منظر کے حامل افراد مختلف سطحوںپر ایک دوسرے کی تقویت کا باعث بنیں اور کم از کم اس موضوع پر تو ضرور ہو نا چاہیے ۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بڑی بڑی کو ششوں کا آغاز ہمیشہ ابتدائی قدم سے ہو تا ہے اور عصر حاضر میں تو افراد نے بھی بڑی تبدیلیاں پیدا کی ہیں ۔انہوں نے کارکردگی کو بڑھانے اور قوانین کے بہتر نفاذ کے لیے علمی سطح پر تحقیق اور تجاویز تیا ر کرنے کی ضرورت کو بھی اجاگر کیا۔
نوعیت: روداد علمی اجلاس
بتاریخ : ۱۲اگست ۲۰۰۹ء
جواب دیں